منوبھائی بھی رخصت ہو گئے
صبح سویرے ایک تکلیف دہ خبر سننے کو ملی کہ معروف دانشور کالم نگار اور پنجابی کے صاحبِ طرز، شاعر منو بھائی دنیا سے رخصت ہو گئے ہیں۔ اس خبر کے ساتھ ہی یادوں اور رفاقتوں کے کئی در وا ہوگئے۔84 برس کی عمر میں دنیا سے کنارہ کرنے والے اس عظیم انسان نے درحقیقت اتنے دلکشا نقش چھوڑے ہیں کہ انہیں ختم کرنا ممکن ہی نہیں۔ منو بھائی غالباً پاکستان کی اردو صحافت کا وہ معتبر نام ہیں جس پر کسی بھی قسم کی آلائش کا کوئی داغ موجود نہیں۔ ایک زمانہ تھا ان کا کالم حاکمانِ وقت پر تازیانے کی صورت برستا تھا۔ وہ اس کی آڑ میں جو چاہے حاصل کر سکتے تھے، عہدہ، مراعات، پلاٹ، پرمٹ، مگر وہ ان سب چیزوں سے دور رہے۔ تقریباً 37برس پہلے میری ان سے ان کے ریواز گارڈن والے گھر میں پہلی ملاقات ہوئی تھی۔آج اسی گھر سے ان کا جستِ خاکی اٹھایا گیا۔ کئی نئی بستیاں آباد ہو گئیں، لاہور کہاں ہے کہاں تک پھیل گیا، لیکن منو بھائی حضرتِ داغ کی طرح جہاں بیٹھے تھے، وہیں بیٹھے رہے۔ ستائش کی تمنا کی اور نہ صلے کے پیچھے بھاگے۔
یہ غالباً 1986ء کی بات ہے۔ میرا پہلا شعری مجموعہ ’’آئینوں کے شہر میں پہلا پتھر‘‘ شائع ہوا تو میں نے سوچا اس کی ملتان میں جو تقریب رونمائی ہو، اس کی صدارت منو بھائی کریں۔مجھے وہ اس زمانے میں اتنا نہیں جانتے تھے، بس ایک دو ملاقاتیں تھیں۔ میں ہمت کرکے لاہور ان کے گھر گیا۔ وہ اس وقت کالم لکھ رہے تھے، لیکن مجھے یہ نہیں کہا کہ بے وقت آ گئے ہو، بلکہ خوش دلی کے ساتھ اندر لے گئے،مجھے بیٹھنے کو کہا اور صبح کے اخبارات میرے سامنے رکھ دیئے اور خود کالم لکھنے میں مصروف ہو گئے۔ میرے لئے یہ منظر بھی بہت متاثر کن تھا، میں اس شخص کو اپنے سامنے بیٹھے لکھتے دیکھ رہا تھا،جس کا ہر صبح کالم پڑھے بغیر تشفی نہیں ہوتی تھی۔ وہ درمیان میں کبھی کبھار پوچھ لیتے، ’’کدوں آیاں ایں‘‘ ۔۔۔ ’’ملتان دا موسم کیسا اے‘‘ ،’’اج کل جاب کویں چل رئی اے‘‘، ’’یار توں لہور کیوں نئیں آ جاندا‘‘۔۔۔ میں ان سوالات کے جوابات دیتا، مگر وہ کالم لکھتے چلے جاتے۔اسی روز یہ تاریخی واقعہ بھی ہوا کہ دروازے کی بیل بجی، انہوں نے کہا ذرا باہر دیکھنا۔ میں ان کا جالی والا دروازہ کھول کر باہ رآیا تو ایک رکشہ کھڑا تھا اور اس سے حبیب جالب اتر کر انتظار کررہے تھے، انہوں نے مجھے دیکھا تو فوراً کہا منو بھائی کہاں ہے؟ پھر جواب کا انتظار کئے بغیر بولے اس سے ذرا بیس روپے پکڑنا، رکشے کا کرایہ دینا ہے۔ مَیں پلٹنے ہی والا تھا کہ منو بھائی غالباً ان کی آواز سن کر باہر آ گئے۔ جیب سے بیس روپے نکال کر رکشہ والے کو دیئے اور حبیب جالب کا ہاتھ پکڑ کر اندر لے گئے۔ بعد میں جب حبیب جالب چلے گئے تو مجھے کہنے لگے: ’’پورے لہور وچ اے صرف میرے توں کرایہ منگدا اے اور مینوں بڑی خوشی ہندی اے کہ اوبندہ جنوں ضیاء الحق سونے وچ تولنا چاہندا اے پر او نئیں مندا، میرے تے اینا مان کردا اے‘‘۔۔۔ملاقات کے دوران منو بھائی اور حبیب جالب میں جو باتیں ہوئیں، ان کا موضوع زیادہ تر ضیاء الحق کی آمریت ہی تھا۔ میں حبیب جالب کو حیرت سے دیکھ رہا تھا کہ عام سی شلوار قمیض میں ملبوس اس شخص کے اندر کتنا بڑا، سچا اور دلیر شاعر موجود ہے، جو وقت کے آمر کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح کھٹکتا ہے۔ منو بھائی نے بتایا کہ لاہور میں اکثر ادیب شاعر حبیب جالب کے ساتھ ملنے سے کتراتے ہیں، کیونکہ اس کے پیچھے ہر وقت ایجنسیوں کے بندے لگے رہتے ہیں، تاہم وہ میرے پاس بے دھڑک آ جاتا ہے، کیونکہ میں خود بھی اس کے قبیلے سے تعلق رکھتا ہوں‘‘۔
میری نظر میں منو بھائی ایک سوشل تھنکر اور وقت کی نبض پر ہاتھ رکھ کر لکھنے والے کالم نگار تھے۔ ایک بار انہوں نے کالم لکھا، جس کا عنوان تھا، ’’جس کا ملتان مضبوط ہے، اس کا اسلام آباد مضبوط ہے‘‘۔ یہ بات درحقیقت انہوں نے ملتان میں میری کتاب کی رونمائی کے موقع پر کہی تھی اور اس کا پس منظر فخر امام کا واقعہ تھا، جس میں وہ ضلع کونسل کی چیئرمین شپ کا انتخاب ہار گئے تھے اور انہوں نے وفاقی وزیر بلدیاتی کی حیثیت سے اس شکست کے بعد استعفا دے دیا تھا۔ منو بھائی کا یہ جملہ بعدازاں اس قدر مقبول ہوا کہ ضرب المثل بن گیا۔ ایک ملاقات میں انہوں نے اس کی وجہ ء تسمیہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ ملتان ہزاروں برس پرانا شہر ہے اور زندہ تہذیب کی صورت موجود ہے۔ ہم کسی اور شہر کے بارے میں نہیں کہہ سکتے کہ اس کا وہ شہر مضبوط ہے تو اسلام آباد بھی مضبوط ہوگا۔ اس استعارے کی بنیاد یہ ہے کہ جو اپنے گھر میں مضبوط نہیں، وہ باہر بھی کمزور رہے گا۔ اس کی سادہ سی مثال یہ ہے کہ اگر کوئی اپنے حلقے سے ایم این اے نہیں بنتا تو اسلام آباد جا کے وزیراعظم کیسے بن سکتا ہے۔ پھر وہ اس بات کو اقوامِ عالم تک لے گئے کہ دنیا میں صرف وہی قومیں اپنا مقام پاتی ہیں جو خود مضبوط ہوتی ہیں۔ ایک بار منو بھائی نے اپنی موت پر کالم لکھ دیا۔ ان دنوں چند ادبی شخصیات پے در پے وفات پا گئی تھیں، جس پر منو بھائی نے لکھا کہ اب تو حفیظ جالندھری کا یہ شعر ہروقت ذہن میں گھومتا رہتا ہے:
چلتے پھرتے ہوئے مُردوں سے ملاقاتیں ہیں
زندگی کشف و کرامات نظر آتی ہے
میں نے اس کالم پر انہیں ایک خط لکھا، جس میں کہا کہ اپنی موت پر آپ نے جو کالم لکھا، اس میں اتنا درد نہیں تھا، جتنا دوسروں پر کالم لکھتے ہوئے آپ کے قلم میں محسوس ہوتا ہے۔ کہنے لگے زندہ رہ کر اپنی موت کا نوحہ نہیں لکھا جا سکتا، یہ کام تو تم جیسے لوگ کریں گے۔ اس بات کو بیتے بھی بیس سال ہو گئے ہیں، لیکن آج میں یہ کالم لکھتے ہوئے سوچ رہا ہوں کہ کیا واقعی میں منو بھائی کی موت پر ان جیسا نوحہ لکھ سکتا ہوں۔ کیا میرے قلم میں وہ مقامات آہ و فغاں بیان کرنے کی صلاحیت ہے جو کسی کی موت پر دل کے نہاں خانے میں جنم لیتے ہیں۔ ایک سادہ منش، درویش صفت، ریاکاری و غرض مندی سے بے گانہ شخص ہم میں سے اُٹھ گیا ہے تو کیا ہمیں اس زیاں کا احساس ہے۔ ساری 149زندگی عظمتِ انسانی، جمہوریت، اعلیٰ اقدار، بنیادی حقوق، سچائی اور حب الوطنی کی باتیں کرنے والا عظیم قلمکار منوں مٹی کے نیچے جا سویا ہے۔ اس نے منیر احمد سے خود کو منو بھائی بنا لیا، لیکن آج کے مروجہ معنوں والا بھائی نہیں تھا۔ اس نے برادرانِ یوسف کے تصور کو بھی غلط ثابت کیا اور اس بات کو بھی کہ دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا، منو بھائی حقیقت میں سب کے بھائی تھے۔ تصنّع، تکلف، تکبر اور تفاخر سے بے نیاز، نئے لکھنے والوں کو بھی اتنی ہی عزت دیتے تھے، جتنے سینئر لکھنے والے انہیں عزیز تھے۔ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ ان کے دامن پر ندامت کا کوئی داغ نہیں، وہ سرخرو ہو کر دنیا سے گئے ہیں، انہوں نے حرف و قلم کی آبرو کو کبھی پامال نہیں ہونے دیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ انہوں نے کبھی اپنے نظریات تبدیل نہیں کئے۔ وہ صحیح معنوں میں ایک لبرل قلم کار تھے۔ ان کا بنیادی نظریہ عظمتِ و تکریم انسانی تھا۔ وہ اس وقت ملک کے سب سے سینئر کالم نگار تھے۔ انہوں نے اپنی طویل صحافتی زندگی میں بہت سے مدوجزر دیکھے، مارشل لاؤں کے بھی عینی شاہد رہے اور جمہوری حکومتوں کو بھی بہت قریب سے دیکھا۔ وہ بھٹو اور بے نظیر بھٹو کے مداح تھے۔ انہیں صحیح معنوں میں لیڈر مانتے تھے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ انہوں نے ان دونوں کے ادوار میں بھی کوئی مفاد حاصل نہیں کیا۔
منو بھائی کی شخصیت کے دو پہلو ایسے ہیں، جن کا ذکر ضروری ہے۔ وہ پنجابی زبان کے بہت باکمال شاعر تھے۔ ان کی پنجابی میں پنجاب کی ثقافت پوری طرح آشکار ہو جاتی ہے۔ ٹھیٹھ پنجابی کے وہ لفظ ، ترکیبیں اور استعارے جو عموماً پنجابی شاعری میں استعمال نہیں ہوتے۔ منو بھائی بڑی سہولت سے استعمال کرتے ہیں، ان کی شاعری میں بیک وقت رومانویت اور مزاحمت کے رنگ موجود ہیں۔ انہوں نے اپنی نظموں میں معاشرے کے اندر در آنے والے جبر کو بڑی جرات مندی سے آشکار کیا ہے۔ اپنی زمین اور مٹی کا حوالہ ان کی تمام تخلیقات میں بڑی شدت سے آیا ہے۔ چاہے وہ ان کے ٹی وی ڈرامے ہوں، کالم ہوں یا شاعری، اپنی دھرتی اور مٹی سے جڑا ہوا یہ شخص آج اسی مٹی میں جا سویا ہے۔ منو بھائی نے اپنی زندگی میں ایک بڑا کام یہ بھی کیا کہ خون کے سرطان (تھیلسیمیا) میں مبتلا بچوں کی زندگی بچانے کے لئے سندس فاؤنڈیشن کی بنیاد رکھی۔ تھیلیسیمیا کی بیماری جس تیزی سے بڑھ رہی ہے، اس تیزی سے نہ تو ہسپتال قائم ہوئے ہیں اور نہ خون فراہم کرنے والے ادارے۔ سندس فاؤنڈیشن نے پچھلے چند برسوں میں ہزاروں بچوں کو وقت سے پہلے مرجھانے سے بچایا ہے۔ اس کے لئے انہوں نے ذاتی طور پر بہت محنت کی اور اسے ایک اعلیٰ معیار کا فلاحی ادارہ بنا دیا۔ یقیناً یہ ادارہ اب اسی طرح دکھی انسانیت کی خدمت کرتا رہے گا اور معاشرے کی طرف سے اسے مکمل سپورٹ ملتی رہے گی۔ یوں تو یہ جملہ رسمی طور پر استعمال کیا جاتا ہے کہ فلاں شخص کا خلاء صدیوں پُر نہیں ہو سکے گا، لیکن منو بھائی جیسی نابغہ، روزگار شخصیت کے حوالے سے یہ جملہ عین حقیقت نظر آتا ہے۔ ان کی ہمہ جہت شخصیت اور اعلیٰ انسانی اقدار سے جڑے رہنے کا حوالہ فی زمانہ ایک جنس نایاب ہے۔ ان جیسے لوگ اب معاشرے میں عنقا ہوتے جا رہے ہیں۔ اللہ انہیں غریقِ رحمت کرے اور ہمیں ان کی زندگی سے سبق سیکھنے کی توفیق دے۔