کیا اب تاج اچھالے جائیں گے؟
ڈاکٹرطاہر القادری کی تحریک قصاص کا باقاعدہ آغاز ہوگیا ہے۔جس کے بارے میں حکمران پارٹی کا دعویٰ ہے کہ یہ ایک فلاپ شو تھا۔جبکہ حالات و واقعات سے با خبر حضرات کہتے ہیں کہ اگر اس فلاپ شو کے بعد میاں نواز شریف کے بیانات میں کڑواہٹ کم ہو گئی ہے ،ان کا غصہ کچھ ٹھنڈا ہو گیا ہے ۔مریم نواز کے غصیلے ٹویٹ بند ہو گئے ہیں۔دانیال عزیز خواجہ سعد رفیق اور برادرم طلال چودھری نے عمران خان اور طاہر القادری پر گولہ باری بند کر دی ہے۔تو سمجھ لیں اپوزیشن کا شو فلاپ تھا اور ن لیگ کی قیادت کا غصہ کچھ ٹھنڈا ہو گیا ہے۔اگر ن لیگ کے قائدین کا پارہ پہلے سے بھی بڑھ چکا ہے بیانات اور ٹویٹس میں سے مزید دھواں نکلنا شروع ہو گیا ہے میاں نواز شریف کے خلاف مزید خوفناک ثبوتوں کے سامنے آنے کا سلسلہ نہ صرف جاری ہے بلکہ بڑھتا جا رہا ہے ان کے خلاف مقدمات تیزی سے اپنے انجام کی طرف بڑھ رہے ہیں میاں شہباز شریف کی گڈ گورننس کو باقاعدہ ٹارگٹ کر کے فارغ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے تو سمجھ لیں اپوزیشن نے جہاں پیغام دینا تھا وہ دے چکی۔کرسیاں خالی ہونے یا بھرنے سے کچھ نہیں ہوا۔ کرسیاں گننے کی ڈیوٹی دوستوں نے سنبھال لی ہے ۔طاہر القادری کا ایجنڈا باقاعدہ آگے بڑھ رہا ہے انکا پہلا جلسہ بہت جلد مستقل دھرنے میں تبدیل ہو گا۔مولانا سیالوی تخت لاہور پر باقاعدہ شب خون مارنے کی تیاریوں میں ہیں۔ درجنوں گدی نشین بھی اپنے اپنے طور پر تیاریاں کر رہے ہیں کیونکہ حکومت ہر گدی نشین کی معاشی ضروریات پوری کرنے کی پوزیشن میں نہیں جبکہ حکومت کی چند حضرات کے لیے سخاوت کا پیغام عام ہو چکا ہے اب اگر حکومت نے مذہبی تحریکوں سے آسانی کے ساتھ نمٹنا ہے اور حکومت کے بقیہ4/5ماہ گزارنے ہیں ۔تو پھر زعیم قادری کے ساتھ وزارت خزانہ کو رابطہ بڑھانا ہو گا۔ورنہ تخت لاہور پر حملوں کا سلسلہ جاری رہے گا۔خیر بات ہو رہی تھی ڈاکٹرطاہر القادری کی سربراہی میں مال روڈ پر جلسے کے حکومت پر کیا اثرات پڑے ہیں ؟کیا اپوزیشن اپنے مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی؟ تو اس حوالے سے قبلہ ڈاکٹرطاہر القادری نے دعوی کیا ہے کہ وہ مکمل کامیاب رہے ہیں انکی تحریک قصاص کو پہلا گئیر لگ گیا ہے تحریک آگے بڑھے گی کامیابی سے ہمکنار ہوگی یہ ہوسکتا ہے کہ ڈاکٹرطاہر القادری صاحب اپنے مقاصد میں کامیاب ہو جائیں لیکن اپوزیشن کو ایک جگہ جمع کرنے کا انکا خواب عمران خان اور شیخ رشید نے ڈرون حملہ کر کے تتر بتر کر کے رکھ دیا ہے۔اب ڈاکٹرطاہر القادری کو اپوزیشن جماعتوں کو دوبارہ ایک پلیٹ فارم پر لانے اور ایک ایجنڈے پر متفق کرنے میں کچھ وقت لگے گا ۔اسکی ایک بنیادی وجہ اور بھی ہے کہ ڈاکٹرطاہر القادری پارلیمنٹ کے ادارے اور موجودہ پارلیمانی نظام کو ایک استحصالی نظام سمجھتے ہیں اب شیخ رشید اور عمران خان نے بھی پارلیمنٹ پر لعنت ڈال کر تمام اہل سیاست کو نظام کی تبدیلی اور موجودہ اسٹیٹس کو بریک کرنے کی طرف واضح اشارہ کیا ہے۔جبکہ متحدہ اپوزیشن میں شامل ملک کی آئینی اپوزیشن پیپلزپارٹی جو موجودہ نظام کی بذات خود سب سے بڑی اسٹیک ہولڈر ہے اور جو موجودہ نظام کی بینیفشری ہے نے بالکل ہی دوسری لائن لی ہے قومی اسمبلی شیخ رشید اور عمران خان کے خلاف ایک مذمتی قررار داد منظور کر چکی ہے ۔متعدد ارکان اسمبلی دونوں شخصیات کے پارلیمنٹ میں داخلے پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ بھی کر رہے ہیں ۔مسلم لیگ ن نے بھی عمران خان اور شیخ رشید کے بیان کا سیاسی طور پر بھرپور فائدہ اٹھایا ہے۔اور ن لیگ اپنی لڑائی کوآہستہ آہستہ پرو جمہوریت اور اینٹی جمہوریت میں تبدیل کرنے میں کامیاب ہو رہی ہے ۔اور ساتھ ہی ساتھ میاں نواز شریف نے بھی اپنے اتحادیوں اور ساتھیوں کے ساتھ مشاور ت کاعمل تیز کر دیا ہے یہ بھی خبر ہے کہ انٹر نیشنل اسٹیلشمنٹ نے بھی باقاعدہ پاکستان کی اندرونی سیاسی صورتحال کو نہ صرف باریک بینی کے ساتھ مانیٹر کرنا شروع کر دیا ہے بلکہ کچھ گھوڑوں پر انویسٹمنٹ کا بھی آغاز کر دیا ہے۔ آنے والے وقت میں پاکستان کو بچانے اور پاکستان کو عدم استحکام کا شکار کرنے کی خواہش مند انٹر نیشنل اور مقامی قوتوں کے کے مابین سرد جنگ کا امکان ہے جس کے نتائج بھی پہلی لڑائیوں کی طرح ملک و قوم کے لیے اچھے نہیں ہونگے،جوں جوں وقت آگے بڑھے گا پاکستان کے اندرونی اور بیرونی حالات تبدیل ہونگے ۔جنوری کے آخر اور فروری کے آغاز میں ملک میں سیاسی عدم استحکام بڑھے گا ۔جلسے دھرنوں کی شکل اختیار کرینگے کچھ خاموش سیاستدان اور ارکان اسمبلی اپنی خاموشی توڑیں گے۔ختم نبوت کے حوالے سے جذبہ ایمانی سے بھرپور انقلابی اور سیاسی دھرنے عروج پر ہونگے ،شریف برادران کے خلاف جاری کیسسز میچورٹی کے قریب ہونگے ،اور یہ وہ وقت ہے جب تاج اچھالے جائیں گے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ توہو گااسکی قیمت ایک بار پھر ملک اور قوم ہی ادا کرینگے کیونکہ اس تمام سیاسی اور غیر سیاسی کہانی میں اگر کوئی چیز مسنگ ہے تو وہ صرف عوام ہیں۔جو آج 2018ء میں بھی اپنے کل سے مایوس کسی رہنما کا انتظار کررہے ہیں جو بلیم گیم کے بجائے قوم کی ڈولتی ہوئی کشتی کو منجدھار سے نکال کر کنارے لگا سکے۔