’’اس نے مجھے اپنے ساتھ رسی سے باندھا اور دریا میں اتر کر حصار باندھ کر عمل پڑھنے لگا،یکایک پانی میں ہلچل ہوئی اورسینکڑوں ایسی چیزیں میرے سامنے آگئی کہ ۔۔۔‘‘تسخیر جنات کرنے والے ایک عامل کا واقعہ جسے جان کر آپ کے رونگٹے کھڑے ہوجائیں گے

’’اس نے مجھے اپنے ساتھ رسی سے باندھا اور دریا میں اتر کر حصار باندھ کر عمل ...
’’اس نے مجھے اپنے ساتھ رسی سے باندھا اور دریا میں اتر کر حصار باندھ کر عمل پڑھنے لگا،یکایک پانی میں ہلچل ہوئی اورسینکڑوں ایسی چیزیں میرے سامنے آگئی کہ ۔۔۔‘‘تسخیر جنات کرنے والے ایک عامل کا واقعہ جسے جان کر آپ کے رونگٹے کھڑے ہوجائیں گے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

تحریر: پروفیسرمحمد عبداللہ بھٹی

جب میں نیا نیا روحانی دنیا میں آیا اور مجھے بھی حاضرات اور جنات کا جنون ہوا تو میں بھی بے شمار بابوں اور ملنگوں کے پاس گیا۔ جیسے آج کل بہت سارے لوگ میرے پاس آتے ہیں کہ کوئی موکل یا جن دے دیں اسی طرح میں بھی بابوں سے یہی کہتا کہ مجھے بھی کوئی جن وغیرہ دکھائیں۔ 90 فیصد بابے ملنگ تو ویسے ہی خالی ہوتے ہیں ،صرف باتوں سے ہی گزارا کرتے ہیں۔ اس شوق کو پوراکرنے کے لئے میں نے بھی بہت سارا وقت برباد کیا۔ میرے بہت مہربان بزرگ تھے بابا اللہ دتہ ، میں ان کے پاس گیا اور اپنی اس کی خواہش کا اظہار کیا، بابا جی حقہ پی رہے تھے جو ان کا معمول تھا۔ میری طرف دیکھ کر مسکرائے اور بولے ’’اوماسٹر فقیری چھوڑ کر تو بھی اس طرف آگیا ہے‘‘
’’بابا جی میں دیکھنا چاہتا ہوں یہ مخلوق کیسی ہے‘‘ بابا جی پہلے تو مجھے ٹالتے رہے لیکن جب میں نے بہت مجبور کیا تو بابا جی بولے ’’ٹھیک ہے فلاں دن آنا میں تمہیں اپنے ایک مرید سے ملاؤں گا جو عرصہ دراز سے میرے پیچھے پڑا ہوا تھا۔ جن کو حاضر کرنے کے لئے وہ دریا کے کنارے بیٹھا ہوا ہے۔ میں تمہیں اس سے ملادوں گا۔ جب آخری دن جن کی حاضری ہوگی تم خود ہی دیکھ لینا‘‘
مقررہ دن میں باباجی کے پاس پہنچ گیا ۔وہ مجھے لے کر پیدل دریا کی طرف چل پڑے۔ بابا اللہ دتہ میری زندگی کے پراسرار ترین بزرگوں میں سے ایک ہیں۔ تقریباً 10 کلومیٹر کا سفر ہم نے اس طرح کیا جیسے آدھا کلومیٹر کیا ہو۔ فصلوں اور جنگلوں سے گزر کر ہم ایک ایسی جگہ پر پہنچے جہاں دریا کے کنارے پر ایک درویش جھونپڑی بنا کر بیٹھا تھا، اس کو ایک ماہ سے زیادہ عرصہ ہوچکا تھا۔ وہ پرہیز جلالی وجمالی اور ترک حیوانات کرکے بیٹھا تھا۔ دریا کے کنارے گڑھا کھودا ہوا تھا اور وہی پانی پیتا تھا۔ باباجی کو دیکھتے ہی آکر بہت عقیدت و احترام سے ملا۔ یہ شخص بہاولپور کے علاقے سے آیا تھا، پڑھا لکھا اور سرکاری ملازم تھا۔ باباجی نے اسے بتایا کہ یہ پروفیسر بھی تمہاری طرح پڑھا لکھا ہے۔ آخری دن تمہارے پاس آئے گا اس کا خیال رکھنا۔ باباجی کا مرید کھانے میں خود ہی جو کی روٹی پکا کر اور کچی سبزی ابال کر پانی کے ساتھ کھاتا۔ مجھے وہ منظر بہت اچھا لگا میرا آج بھی دل کرتا ہے کہ کہیں جنگل یا دریا کے کنارے چلاجاؤں۔ مظاہر فطرت اور اللہ کی ذات کے قرب سے بڑھ کر اور کچھ بھی نہیں اچھا لگتا۔ بابا جی نے اس سے پوچھا ’’تمہارا آخری دن کب ہے‘‘ اس نے بتایا تو بابا جی نے مجھے کہا ’’پروفیسر تم اس دن آجانا‘‘
سارا دن میں اور بابا جی نے وہاں گزار ا اور شام سے پہلے واپس آگئے۔ میں تجسس اور خوشی سے انتظار کرنے لگا اور مقررہ دن پر دریا کے کنارے پہنچ گیا۔
بابا جی کے بالکے نے مجھے پہچان لیا اور بہت اچھے طریقے سے ملا بھی۔ اور پہلے تو وہ نہایا اور پھر پینٹ شرٹ پہنی اور کہا آؤ آج ذرا شہر چلتے ہیں۔ ہم دونوں شہر کو چل پڑے۔ راستے میں اس نے مجھے اپنے بارے میں بتایا کہ کس طرح اسے روحانیت کا شوق ہوا اور کس طرح بابا جی تک پہنچا۔ شہر سے ہم نے بہت ساری مٹھائی گلاب کے پھول وغیرہ کی شاپنگ کی۔ میں شدت سے رات کا انتظار کررہا تھا۔ واپس جھونپڑی میں آکر اس نے کپڑے تبدیل کئے اور گلاب کے پھولوں کے ہار بنانے ا ور رات کی تیاری کرنے لگا۔
بابا جی کے مرید نے مجھے پہلے سے یہی بتادیا تھا کہ رات کو میں تمہیں اپنے ساتھ باندھ لوں گا تاکہ تم خوف سے بھاگنے والی غلطی نہ کرو۔ اگر تمہیں ڈر لگے تو اپنی آنکھیں بند کرلینا۔ انہوں نے گلاب کے پھولوں کے تین ہار بنائے اور ان پر کچھ پڑھ کر پھونکا بھی۔ میں حیرت سے سب کچھ دیکھ رہا تھا۔ آخر کار طویل صبر آزما انتظار کے بعد رات آگئی۔ عامل صاحب نے ایک مضبوط رسی سے مجھے اپنے سامنے ساتھ لگاکر باندھ دیا اور مجھے سختی سے ہدایت کی کہ کسی بھی صورت مجھ سے الگ ہونے والی غلطی نہ کرنا۔ چاہے کچھ بھی ہوجائے جب رات آدھی سے زیادہ گزرگئی تو ہم ٹھنڈے پانی کے اندر جاکر کھڑے ہوئے۔ اس نے اپنا اور میرا حصار کیا اور پڑھائی شروع کردی۔
رات کی خاموشی اور چاندنی رات ہر طرف سناٹا طاری تھا۔ دریا کے پانی کی پراسرار آواز اور مٹی کی خوشبو چاروں طرف پھیلی ہوئی تھی۔ بابا جی کے مرید کی پڑھائی جاری تھی اور میں شدت سے انتظارکررہا تھا کہ عالم غیب سے کیا نمودار ہوتا ہے جیسے میری برسوں کی تلاش آج ختم ہونے والی ہو۔
تھوڑی دیر گزری ہوگی کہ اچانک لگا کوئی بہت بڑی چیز ہماری طرف آرہی ہے بلکہ یہ تو دریا کے اندر سے نمودار ہورہی تھی۔ میرے رونگٹے کھڑے ہوچکے تھے۔ میں دنیا مافیہا سے بے خبر دیکھنے اور پہچاننے کی کوشش کررہا تھا کہ یہ دیوہیکل اور خوفناک چیز کیا ہے اور اس کے پیچھے کیا ہے۔ یہ تو کوئی بہت بڑا شیش ناگ تھا جو آہستہ آہستہ ہماری طرف بڑھ رہا تھا اور اس کے پیچھے ہزاروں اور سانپ بھی تھے جیسے یہ کوئی سردار یا سپہ سالار آرہا ہو اور پیچھے والے اس کے سپاہی۔ آخر وہ ہمارے بہت قریب آکر کھڑے ہوگئے۔ یہ کوئی نارمل قد و قامت کا سانپ یا کوبرا نہیں تھا یہ تو بہت ہی بڑا سانپ تھا۔ جس کے سر پر لمبے لمبے بال اور تاج تھا وہ جب زبان کھولتا تو لمبی زبان باہر آتی جیسے کسی بھی لمحے وہ ہم دونوں کو زندہ نگل سکتاہو۔ میرے رگ دپے میں خوف کی لہریں دوڑ رہی تھیں اور میں بے ہوش ہونے کے قریب تھا کیونکہ جو منظر میرے سامنے تھا میری نظر دل و دماغ، شعور و شعور اس کے عادی نہیں تھے۔ پورے ماحول پر دہشت طاری تھی۔ ہم دونوں اس سانپ کے سامنے کیڑے مکوڑوں کی طرح تھے جن کو وہ کسی بھی لمحے آسانی سے ہڑپ کرسکتا تھا۔
میں نے خوف سے اپنی آنکھیں بند کرلیں اور مجھے حیرت کا شدید جھٹکا اس وقت لگا جب وہ سانپ بولنے لگا تومیں نے ڈرتے ڈرتے آنکھیں کھولیں۔ اس سانپ کا چہرہ بالکل ہمارے سامنے آچکا تھا۔ باباجی کے مرید نے گلاب کا ہار اس ناگ کے گلے میں ڈال دیا۔ ہار میں پتہ نہیں کیا طلسم تھا کہ جیسے ہی ہار سانپ کے گلے میں ڈالا گیاوہ سانپ غائب اور اس کی جگہ ایک انسان کھڑا تھا اور اس کے پیچھے والے سانپ بھی انسانوں کا روپ دھارچکے تھے۔ اب وہ جن انسانی شکل میں کھڑا تھا ۔ایک تابع دار اور ملازم کی طرح۔ اب وہ قیدی یا اسیر ہوچکا تھا۔ باباجی کے مرید اور اس کے جن کے درمیان گفت وشنید ہوئی، قارئین شاید نہ مانیں لیکن سچ یہ تھا کہ جن نے وعدہ کیا کہ وہ تمام جائز کام کرے گا۔ اس نے اپنا مخصوص طریقہ بھی بتایا جس سے وہ باباج ی کے مرید کے پاس آیا کرے گا۔ اس کے بعد وہ چلاگیا۔ باباجی کامرید بہت خوش تھا، ہم دریا سے باہر آگئے اور جھونپڑی میں آکر بیٹھ گئے۔ باباجی کے مرید کو اپنی طویل ریاضت کا پھل مل چکا تھا۔

۔

نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والی تحریریں لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔