موت لائی، کیسی یہ تبدیلی آئی

میرے شہر میں سراسیمگی ہے ، ایک خوف ہے ، بورے والا کی پر امن سڑکیں سراپا احتجا ج ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ بورے والا کے پر امن باسیوں نے کبھی بھی امن مخالف قوتوں کی حمایت نہیں کہ لیکن اب کی چھائی قیامت کسی کروٹ چین نہیں لینے دیتی۔ ہر تعظیم ہر ادب ایک طرف رکھ کے باربارا س موت کا یہی سوال ہے کہ گولیاں، گولیوں کے بعد نہتوں سے بارود اور خودکش جیکٹوں کی برآمدگی اور یتیم کردیے گئے بچوں کو پٹرول پمپ پہ چھوڑ کے فرار ہونے والے کون تھے،تبدیلی کے دعوے دارکون تھے۔ پولیس ریفارمز کرنے والے کون تھے۔ دریائے فرات کے کنارے کتے کے مر جانے کی مثالیں دے کے احتساب مانگنے والے کہاں ہیں اور کہاں ہے ان کا انصاف، ہم اہالیانِ بورے والا اب کس سے احتساب مانگیں۔ کتنا عرصہ ہمیں ملک دشمنوں نے مارا ،ہمیں برباد ،ہمیں ہمارے گھروں ، اسکولوں اور اداروں میں گھس کے مارنے والا لیکن دشمن ،ہمارے ارادوں اور عزم کو متزلزل نہ کرسکا۔ لیکن آج تو میرے نگہبان مجھ پہ قیامت ڈھائے ہوئے ہیں۔ ماؤں ، بہنوں ، بیٹیوں نے اپنوں کے جنازے اس امید سے اٹھائے تھے کہ ان کے خون سے ملک کی اجڑے گلستانوں میں بہار آئے گی۔ مگر اب کیا کروں اس بہار کا جو خزاں سے بھی بدتر ہے۔ کہنے کو میرے پاسبانوں کے ہاتھوں پکڑائی گئی یہ موت بانٹتی خودکار رائفل اور پستول اس چمن کی آب یاری کر رہے ہیں ۔پولیس مقابلوں کے ساتھ سابق وزیر اعلیٰ شہباز شریف صاحب پہ انگلیاں اٹھائیں اور آپ نے بجا اٹھائیں لیکن اب آپ کی طرف ان اٹھتی انگلیوں کے سامنے آپ کا کیا جواب ہے۔ دھرنے کے دنوں دکھائے گئے خواب ملیا میٹ ہورہے ہیں ،مہنگائی ایک کڑوا گھونٹ سمجھ کے ہم پی رہے ہیں لیکن کڑوی دوائی کے ساتھ کھلائی گئی یہ دھاتی گولی ہمارے سینے پرو رہی ہے اس کی آواز کس کے سامنے اٹھائیں ۔فیصل آباد میں دسویں جماعت کے طالب علموں کو لڑکپن میں ہی ابدی نیند سلا دینے والے ہوں یا کراچی کے مضرِ صحت کھانے سے بچپن لے لینے والے درندہ صفت۔ راؤ انوار کے کارنامے ہوں یا ماڈل ٹاؤن کے شہداء اگر ان کو آج انصاف ملا ہوتا تو کہاں جرات تھی کہ ایک کار روکنے کے بعدیوں بربریت کی داستان عام عوام کے فلم بناتے کیمروں کی سامنے لکھی جاتی۔ ملک میں تو سرِ عام پھانسی دینے کا قانون نہیں ہے تو پھر یہ سرِ عام موت کیسی ،میری دہائی کیسی ، آپ تو سمجھوتے پہ سمجھوتا کرتے آئے ہیں ۔ملکی وزیر اعظم کی سیٹ اتنی اہم ہے یا انسانیت ،ہم نے سچا اور ایماندار مان کے آپ پہ اعتبار کیا لیکن ہم نے کبھی نہیں کہا کہ اب سمجھوتے کرو اور بدبو دار نظام کے سامنے گھٹنے ٹیک دو ،آپ تو کہتے تھے کہ خان جھکے گا نہیں تو پھر خان کو کیا مجبوری ہے۔ خود کو ان قوتوں کے سامنے بے بس پاتے ہو تو چھوڑ دو یہ حکومت اور آن ملو ہم سے ہم مل کے کوئی اور حل ڈھونڈتے ہیں نہیں تو آپ بتا دیں کہ ان پانچ ماہ میں کوئی پولیس ریفارم آپ کی حکومت کی طرف سے آیا ہو ۔ مرنے والے کی پکار کے بعد کہ ہم سے پیسے لے لو پھر بھی گولی چلائی جاتی ہے مجھے تو یہی تبدیلی دکھائی دیتی ہے ۔
فرض کرو کہ وہ دہشت گرد تھے لیکن سڑک پہ عدالت لگانے اور سزا سنانے والا کون تھا ۔رب کے نام پہ جانور بھی ذبح کئے جائیں تو انہیں دوسرے جانوروں سے پرے لے جایا جاتا ہے انہیں تو یہ بھی توفیق نہیں ہوئی ۔ایسے ہی کھیل ہمارے شمالی علاقوں میں کھیلے گئے اور ان سے کیا نکلا"دہشت"۔ آپ کے پروٹوکول میں اضافہ اور ہمارے لئے "موت"۔ آپ کی انتخابی مہم کے دوران میں کہا کرتا تھا کہ جس عمر کے بچے اور جوان آپ نے اپنے الفاظ سے جوالہ مکھی بنا دیے ہیں اگر آپ ناکام ہو گئے تو یہ خواب ٹوٹ جائیں گے اور جواب میں ابلتا لاوا کوئی ٹھنڈا نہ کر سکے گا ۔ ملکی وزیر اعظم صاحب جس تبدیلی کے آپ دعوے دار تھے اس کے لئے لکھتے ہمارے الفاظ کم پڑ گئے ۔قلم سے کالے کئے اوراق لا تعداد ہیں ۔کے پی کے ماڈل کے لئے لائے گئے درانی صاحب بھی پنجاب کے حالات کے سامنے بے بس ہوئے ،چلے گئے اور اس پنجاب کے سربراہ کے طور پہ آپ کو وہ ملا جس کا خاندان اسمبلی میں ہونے کے باوجود اپنے گھر بجلی نہ لے جا سکا ۔ایسے شخص کو سلام تو پیش کیا جا سکتا ہے لیکن اس کو وسیم اکرم سے تشبیہہ دینا سمجھ سے بالا تر ہے ۔کون نہیں مانتا کی آپ نے کرکٹ کو اسٹارز دیے لیکن ان میں سے محمد یونس اور منصور اختر جیسی ناکامیوں کو بھی منہا نہیں کیا جا سکتا ۔
اے کاش آپ اس ناکامی کو بھی تسلیم کر لیں۔ اگر اب بھی آپ یونہی اڑے رہیں گے تو آج چار ہیں نجانے کل کتنے ہوں گے۔ آپ نے خود ہی کہا تھا کہ کفر کا نظام چل سکتا ہے لیکن نا انصافی کا نظام نہیں چل سکتا تو خدارا سب سے پہلے پولیس ریفارمز کرکے مہنگائی میں پستی عوام کی جان و مال کے تحفظ کی طرف توجہ دیجیئے ۔ایسا نہ ہو کہ آج یہ اٹھتی آوازیں کل آپ کو تاریخ کے ایک ایسے کٹہرے میں کھڑا کردیں کہ جہاں آپ کو اپنا ہیرو ماننے والے آپ کا نام سننے کے بعد نظریں جھکائیں اور کوئی جواب ہی نہ دے سکیں ۔آپ کو کہاں یاد ہو گا آپ ہمارے شہر آئے تھے اور میرے سامنے والی کرسی پہ بیٹھے آپ نے میرے سوال کے جواب میں کہا تھا کہ اگر میں ٹھیک ہوں تو میں کر کے دکھاؤں گا ۔اس دن کے بعد ہم آپ کی حمایت میں پیچھے نہیں ہٹے پھر آپ کیوں؟
۔
یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے