باوردی پولیس اہلکار ،ننھی رحما کے آنسو اور سانحہ ساہیوال ،انصاف اب یہی ہے کہ ۔۔۔۔
آج سہہ پہر 3 بجے کے قریب آفس آنے کی تیاری میں مصروف تھا کہ کسی نے گھر کا گیٹ اس انداز میں کھٹکھٹایا کہ میں ڈر ہی گیا کہ نجانے کیا قیامت آ گئی ہے ، بھاگ کر باہر نکلا تو گیٹ پر پولیس کا باوردی ’’شیر جوان ‘‘ہاتھ میں گن پکڑے کھڑا تھا ،اس سے پہلے کہ میں اس کی بد تہذیبی کے بارے میں بات کرتا وہ مجھے دیکھتے ہی چلایا کہ فورا مجھے چھت پر لے کر چلو ،میں گھبرا گیا کہ شائد کوئی دہشت گرد چھت پر چڑھ گیا ہے جسے پولیس کا یہ شیر جوان حراست میں لینے کے لئے باولا ہوا جاتا ہے،میں نے جرات کرتے ہوئے سوال کیا ،چھت پر کیوں لے کر جاؤں؟مسئلہ کیا ہے ؟اس نے درشت لہجے میں کہا کہ آپ کی چھت پر پتنگ بازی ہو رہی ہے ،میں نے ہمت کرتے ہوئے کہا کہ میری چھت پر پتنگ بازی کون کرے گا ؟آپ ٹھہریں میں خود دیکھتا ہوں لیکن ’ پلس‘ کا یہ جوان بضد تھا کہ وہ خود چھت پر جائے گا ۔میں نے بھی اسے گھر میں گھس کر چھت پر جانے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا ۔
آخر کار میں گیٹ لاک کر کے چھت پر گیا تو وہاں میرا 5 سالہ بھتیجا ’’مومی گڈی ‘‘ہوا میں لہرا رہا تھا (واضح رہے کہ میرے بھائی کا کمرا گھر کی دوسری منزل پر ہےاور وہی ان کی چھت بھی کہلاتی ہے)میں نے اپنے بھتیجے کو مومی گڈی اڑانے سے منع کرتے ہوئے اس کی والدہ کو بھی کہا کہ اسے کمرے میں لے جائیں ۔میں واپس نیچے آیا اور ایک بار پھر گیٹ کھول کر پولیس اہلکار کو کہا کہ یار 5 سالہ بچہ اپنے کمرے کے باہر مومی گڈی اڑا رہا تھا لیکن میں نے اسے بھی منع کر دیا ہے ۔میرے یہ کہنے کی دیر تھی کہ پولیس کا شیر جوان آپے سے باہر ہو گیا اور کہا کہ آپ نے مجھے چھت پر جانے نہیں دیا اور الجھنے کی کوشش کی ہے ،لہذا آپ کو میرے ساتھ پولیس سٹیشن جانا ہو گا ،پتنگ بازی کے جرم میں آپ کے خلاف مقدمہ درج ہو گا ۔
پولیس اہلکار کے نا مناسب رویے پر مجھے غصہ تو بہت آیا لیکن میں نے نرمی سے کہا کہ بھائی کہہ دیا ہے نا کہ اب 5 سالہ بچہ ’’مومی گڈی ‘‘ نہیں اڑائے گا لہذا مقدمے کا کیا تک بنتا ہے اور میں آپ کے ساتھ تھانے کیوں جاؤں؟میرے منہ سے ابھی یہی الفاظ نکلے تھے کہ وہ پولیس اہلکارتو ہاتھا پائی پر اترا ہوا تھا ،شور سن کر اہل محلہ بھی اکٹھے ہو گئے ۔اس نے جیب سے کاغذ قلم نکال کر میرا نام پتا لکھنا شروع کر دیا اورضد پکڑ لی کہ مجھے ہر صورت’’گرفتار‘‘ ہی کرے گا ۔محلے کے لوگوں نے بھی پولیس کے رویے پر شور کیا تو اس اہلکار کے لہجے میں کچھ نرمی آ گئی ۔
شور کی آواز سن کر میری 11 سالہ بیٹی رحما نے گیٹ پر کھڑے ہو کر زار و قطار اور بلند آواز سے رونا شروع کر دیا ۔میں سمجھا کہ شائد گھر میں اسے کسی نے ڈانٹا ہے یا چھوٹی بہن سے لڑی ہے لیکن وہ تو ایک دم سے باہر نکلی اور مجھ سے لپٹ گئی ۔میں پولیس اہلکار کو چھوڑ کر اس کی طرف متوجہ ہو گیا اور میں نے استفسار کیا کہ کیا ہوا ہے ؟کیوں رو رہی ہو ؟رحما نے ڈرے لہجے میں روتے ہوئے جواب دیا کہ ’’یہ پولیس والے آپ کو پکڑ رہے ہیں ،بابا یہ آپ کو گولیاں مار دیں گے ،بابا میں آپ کو ان کے ساتھ نہیں جانے دوں گی ، بابا یہ آپ کو دہشت گرد کہہ کر قتل کر دیں گے ‘‘اس کا یہ کہنا تھا کہ میری تو چیخ ہی نکل گئی ،میں نے اسے اپنے گلے سے لگایا اور بے ساختہ پیار کرنے لگا۔پولیس والا اب بھی بضد تھا کہ مجھے تھانے جانا پڑے گا ۔
اپنی 11 سالہ بیٹی کی حالت دیکھ کر اب میرے صبر کا پیمانہ بھی لبریز ہو گیا تھا میں نے پولیس اہلکار سے درشت لہجے میں بات کی اور محلے والوں نے بھی پولیس والے کو برا بھلا کہا تو اس نے وہاں سے نکلنے میں ہی عافیت جانی ۔میں رحما کو اندر لے جا کر پیار کرنے لگا اور اسے پچکارتے ہوئے کہا کہ یار تم تو بہت بزدل ہو ،ذرا سی بات پر ایسے روتے ہیں لیکن وہ مجھے چھوڑنے کے لئے قطعی تیار نہیں تھی اور نہ ہی مجھے آفس جانے دے رہی تھی ،اس کا بس ایک ہی کہنا تھا کہ بابا آپ باہر نکلیں گے تو پولیس والے آپ کو گولیاں مار دیں گے ،بڑی مشکل سے اسے سمجھا بجھا کر آفس پہنچا تو میری خیریت دریافت کرنے اور میرے زندہ ہونے کا یقین کرنے کے لئے اس کے تین فون آ چکے ہیں ۔
ہاتھ میں اسلحہ تھامے باوردی پولیس اہلکار کو دیکھ کر رحما کی ہونے والی حالت دیکھ کرمیری آنکھوں کے سامنے ساہیوال میں سی ٹی ڈی کے ہاتھوں مارے جانے والے مہر خلیل، اس کی اہلیہ نبیلہ اور مقتول ذیشان جاوید کے معصوم بچوں کی تصویریں ہیں کہ ہٹنے کا نام ہی نہیں لے رہیں ،اس سانحے میں بچ جانے والے کم سن عمیر خلیل اور اس کی 2 چھوٹی بہنوں (جن کی عمریں میری بیٹیوں جتنی ہیں) نے تو اپنے ماں باپ کو اپنی آنکھوں کے سامنے سی ٹی ڈی کے وحشی درندوں کی گولیاں کھا کر خون میں لت پت مرتے دیکھا ہے ، وہ سانحہ کو کیسے بھول پائیں گے؟ ان کے اندر کا ڈر کیسے ختم ہو گا ؟وہ تین کم سن بچے اپنی باقی ماندہ زندگی کیسے جی پائیں گے ؟ ۔
شہر کی مرکزی شاہراہ پرعوام کے سامنے بچوں کو گاڑی سے اتار کر ان کی آنکھوں کے سامنے ان کے بے گناہ ماں باپ اور معصوم بہن کو سیدھی فائرنگ کرکے قتل کرنا اور پھر کل سے اب تک درجن بھر جعلسازیاں، موقف کی قلابازیاں، یوں ہوا اور پھر یوں ہوا اور اتنے دہشتگرد ہلاک اور بھاری مقدار میں اسلحہ برآمد جیسے تیار ٹکرز , نئے پاکستان میں یہ ’’پرانا ‘‘ طریقہ واردات کیوں ؟کیا کوئی ادارہ ان وحشی درندوں سے پوچھنے والا نہیں ہے ؟۔
مجھے لگتا ہے کہ سی ٹی ڈی کے ان وحشی درندوں پر پاکستان کے قوانین لاگو نہیں ہوتے، تحریک انصاف کی حکومت اور نئے چیف جسٹس کے لیے سانحہ ساہیوال ٹیسٹ کیس ہے ،اب دیکھتے ہیں کہ مدینہ کی ریاست کے والی اب ان باقی بچ جانے والے معصوم بچوں کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں؟ انہیں انصاف دیا جائے گا یا صرف انکوائریاں ہی ہوتی رہیں گی ویسے پنجاب کے وزیر قانون راجہ بشارت کی انتہائی شرمناک اور افسوس ناک پریس کانفرنس نے حکومتی عزائم واضح کر دیئے ہیں۔
جس طرح کے موقف سی ٹی ڈی کی طرف سے آ رہے ہیں،وہ سب مایوس کن اور واضح طور پر حقائق پر پردہ ڈالنے والے ہیں،سی ٹی ڈی کے سینئرز افسران اپنے قاتل سٹاف کوبچانے کے لئے بری طرح بوکھلا چکے ہیں،یہی وجہ ہے کہ بونگی اور بے ڈھنگی کہانیاں ترتیب دی جا رہی ہیں۔
دوسری طرف تبدیلی کے علمبردار صاحبان اقتدار یقینا ڈھٹائی، سنگ دلی اور اخلاقیات سے عاری دکھائی دے رہے ہیں ،تف ہے ایسے وزرا پر جو بے حسی کی انتہا پر بیٹھے ہوئے ہیں اور جن کے سینے میں دل نہیں ہے ،حکومتی وزرا کی پریس کانفرنس دیکھ رہا تھا تو سانحہ ساہیوال کا غم ،دکھ اور تکلیف کم ہونے کی بجائے بڑھتا ہی جا رہا ہے ،آنسو ہیں کہ تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہے ،رحما کے آنسو ؤں نے سانحہ ساہیوال کی شدت مزید بڑھا دی ہے اور ایسا لگتا ہے کہ سینہ شدت غم سے پھٹ جائے گا ۔اللہ رحم فرما ،اللہ رحم فرما ،ظالموں کو ہم سزا نہیں دے سکتے لیکن اے اللہ تو قادر مطلق ہے ،ان وحشی درندوں کو عبرت ناک انجام سے دوچار کر ،اللہ مظلوموں کی آہوں ،سسکیوں اور دعاؤں کو قبول فرما( آمین )۔
فرمایا ہے پیمبرِ امن و سلام نے ۔۔۔۔ بکرا بھی ذبح کرنا ہو گر خاص و عام نے
آجائیں اس کے میمنے گر اس کو تھامنے ۔۔۔۔ مت جانور کی جان لو بچوں کے سامنے
پھر کس نے والدین کو گولیوں سے بھون دیا ؟ ۔۔۔۔ روتے رہے ، منیبہ ، عمیر اور ہادیہ
اَب کون اِن کو لوریاں دے کر سلائے گا ؟۔۔۔۔ کون اِن کو اپنی گود میں بھر کر اٹھائے گا ؟
ماں باپ تو رہے نہیں ! کیا چین آئے گا ؟ ۔۔۔۔ کون اِن کی سانس سانس پہ جیون لٹائے گا ؟
سانسوں کا اِن پہ بوجھ بہت ہے ، اتار دو ۔۔۔۔ اِنصاف اب یہی ہے کہ اِن کو بھی مار دو
نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ۔