پیسے کی ہوس: اخلاقی اقدار کا جنازہ
آج کل اُن سرکاری افسروں کا بڑا شہرہ ہے جنہوں نے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سے وظیفے لئے اور اب انہیں جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں،کیونکہ ان کے نام سرکار کے علم میں آ گئے ہیں۔ ان میں سے چار کو تو برطرف بھی کر دیا گیا ہے،باقیوں کے بارے میں برطرفی کا عمل شروع ہو چکا ہے۔ ذرائع کے مطابق بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت ہر تین ماہ بعد پانچ ہزار روپے ملتے ہیں۔ان لالچی افسروں نے یہ بھی نہیں چھوڑے اور اپنی بیگمات و عزیز و اقارب کے نام پر یہ رقم حاصل کرتے رہے۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی چیئرپرسن ڈاکٹر ثانیہ نشتر نے عہدہ سنبھالنے کے بعد یہ تحقیقی عمل شروع کیا تھا، جس کے بعد آٹھ لاکھ سے زائد ایسے افراد بھی یہ وظیفہ لیتے پائے گئے، جنہوں نے ایک سے زائد بار بیرون ملک سفر کیا،جن کے پاس گاڑیاں ہیں، جو جائیدادوں کے مالک ہیں اور کئی ایک تو انکم ٹیکس گزار بھی ہیں۔ پہلے پہل تو بلاول بھٹو زرداری اور پیپلزپارٹی کے دیگر رہنماﺅں نے آٹھ لاکھ افراد کے نام نکالنے پر احتجاج کیا، لیکن جب حقیقت سامنے آئی تو خاموش ہو کر بیٹھ گئے۔ سب سے پہلے یہ ہوشربا بات سامنے آئی تھی کہ ہزاروں سرکاری ملازمین،جن میں گریڈ سترہ سے بائیس کے ملازمین بھی شامل ہیں،یہ وظیفہ خوری کرتے رہے ہیں،جس پر وزیراعظم عمران خان نے اعلان کیا کہ نہ صرف ان کے خلاف سخت تا دیبی کارروائی کی جائے گی،بلکہ ان کے نام بھی مشتہر کئے جائیں گے۔ایسا پہلی بار ہوگا کہ ہزاروں ملازمین کو اس بد عنوانی اور جعلسازی کے الزام میں برطرف کر دیا جائے گا۔دوسری طرف ان کے نام سامنے آنے سے آئندہ کسی کو جرات نہیں ہو گی کہ وہ غریبوں کے حق پر ڈاکا ڈالے۔
ویسے تو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ میری امت کا فتنہ مال ہے، تاہم پاکستانی قوم کچھ زیادہ ہی اس میں لتھڑی ہوئی ہے۔ جہاں سے مال ہاتھ لگے،ہم اس کے لئے اپنا ضمیر اور ایمان تک بیچ دیتے ہیں۔ آج کل آٹے کی بلیک میں فروخت کا دھندہ عروج پر ہے۔ آٹا دو وقت کی روٹی کا باعث ہے، گویا ذخیرہ اندوز، بلیک مافیا کے پیرو کار صرف چند ٹکوں کے لالچ میں لوگوں کے منہ سے آخری نوالہ تک چھین رہے ہیں۔ مال بنانے کی یہ ہوس قبر تک ختم نہیں ہوتی، لیکن کوئی یہ نہیں سوچتا کہ قبر میں سوائے کفن کے اور کچھ نہیں ساتھ ہوتا۔ ماہ رمضان میں کیا کچھ نہیں کیا جاتا؟اس مقدس مہینے میںجب دیگر اسلامی ممالک میں اشیاءسستی کر دی جاتی ہیں،ہمارے ہاں اسے کمائی کا ذریعہ بنا لیا جاتا ہے۔ چن چن کر وہ چیزیں مہنگی کی جاتی ہیں، جن کی روزہ داروں کو ضرورت ہوتی ہے۔ پھل، کھجوریں، سبزیاں، گوشت غرض کوئی چیز بھی اس مہنگائی مافیا کے ہاتھوں سے نہیں بچتی....اگر رمضان جیسا رحمت والا مہینہ بھی لالچ، طمع اور خود غرضی کی بھینٹ چڑھا دیا جاتا ہے تو یہ مان لینا چاہئے کے بے نظیر انکم سپورٹ جیسے پروگرام کے ذریعے لوٹ مار کرنے والوں نے کچھ غلط نہیں کیا۔ یہاں سب دولت کے پجاری ہیں اور اس کے لئے کسی بھی حد تک جانے کے لئے تیار ہیں۔ افسوس کہ ہم اس پیغمبر کے اُمتی ہیں، جنہوں نے تجارت میں ایمانداری و دیانت داری کا حکم دیا۔ جنہوں نے ناجائز منافع خوری، ملاوٹ اور ذخیرہ اندوزی سے منع فرمایا.... لوگ غیر مسلم معاشروں کی مثالیں دیتے ہیں کہ انہوں نے اسلام کے وہ تمام ضابطے اپنا رکھے ہیں، جن کا ہمارے پیارے نبی نے درس دیا ہے۔ وہاں ملاوٹ نہیں، ذخیرہ اندوزی کے ذریعے مال مہنگا کرنے کی روش نہیں، وہاں دھوکے سے خراب مال بیچنے کا رواج نہیں، وہاں بے ایمانی اور بد دیانتی کا گزر نہیں۔ سچ بولنے کی روایت ہے اور لوگوں کی مجبوری سے فائدہ اٹھانے کو ایک گالی سمجھا جاتا ہے۔
کیا کوئی سوچ سکتا ہے کہ کسی اور ملک میں بھی سالہا سال تک غریبوں اور مستحقین کے لئے شروع کئے گئے کسی پروگرام سے متمول افراد اور سرکاری افسر اس طرح فائدہ اٹھاتے رہتے ہیں، جیسے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سے اٹھاتے رہے ہیں؟کیا اس قدر بے ربط، بغیر قانون و ضابطے اور بغیر تحقیق کے اربوں روپے کا ایسا پروگرام کسی مہذب ترقی یافتہ ملک میں چل سکتا ہے؟ یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ ایک دن بھی ایسا نہ ہوتا۔ اول تو وہاں کے لوگ ایسی بے ایمانی اور بے ضمیری کا مظاہرہ بھی نہ کرتے، جیسا کہ یہاں ہوتا رہا ہے، اگر کوئی کرتا بھی تو وہاں کا نظام اسے نشان عبرت بنا دیتا۔ پندرہ بیس سال تک آٹھ لاکھ غریبوں، ناداروں، بیواﺅں اور مساکین کا حق مارا جاتا رہا، ان کی جگہ ہٹے کٹے، مالدار اور کھاتے پیتے گھرانوں کے افراد یہ وظیفہ لیتے رہے، مگر نہ ان کا ضمیر جاگا اور نہ سرکار جاگی۔یہ سلسلہ نجانے کب تک چلتا رہتا کہ خدا کی پکڑ آ گئی، حکومت کو ہوش آیا اور بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی فہرست کا جائزہ لیا گیا، یوں یہ بھید کھلا کہ پیسے کے لالچ میں اپنا ایمان اور ضمیر بیچنے والے کس درجہ گر سکتے ہیں؟ ابھی تو نجانے زکوٰة کے نظام سے کون کون فائدہ اٹھا رہا ہے؟ سیاسی بنیاد پر جو زکوٰة کمیٹیاں قائم ہیں، وہ بھی زکوٰة کو اندھوں میں ریوڑیوں کی طرح بانٹتی ہیں۔ یہ بیت المال والے کس حساب کتاب سے امداد بانٹ رہے ہیں، ان کی فہرست کا تجزیہ بھی ضروری ہے۔یہی اربوں روپے اگر صحیح معنوں میں غریبوں، ناداروں اور یتیموں تک پہنچنے لگیں تو غربت کے ہاتھوں لوگ خود کشیاں نہ کریں.... مگر یہاں تو سب کچھ سیاسی مفادات کے لئے ہوتا ہے۔ ووٹ لینے کے لئے فرضی فہرستیں بنتی ہیں، نوازنے کا عمل زیادہ ہوتا ہے، کسی کو اس بات کی فکر کم ہی ہوتی ہے کہ جو واقعی ضرورت مند ہیں، ان تک سرکاری امداد پہنچے۔
اگر کوئی ہمارے منظر نامے پر غور کرے تو اس کے ذہن میں اس معاشرے کا کیا نقشہ ابھرتا ہو گا؟.... اسے ہر طرف بدعنوانی اور لوٹ مار کی داستانیں ہی بکھری نظر آئیں گی۔ بڑے بڑے سیاستدان، عمالِ حکومت، سرکاری افسر، تاجر، صنعتکار غرض ہر شعبے کے افراد اسی دھن میں غرق نظر آئیں گے کہ کس طرح مال بنایا جائے؟.... ٹیکس بچا کر، دو نمبری کر کے، کک بیک کمیشن کے ذریعے، رشوت اور ناجائز ذرائع کو بروئے کار لا کر، بس اپنی تجوریاں بھری جائیں۔ یہ اندھی دوڑ ہمیں آج یہاں تک لے آئی ہے کہ ادارے تباہ ہو چکے ہیں، اخلاقی اقدار کا جنازہ نکل گیا ہے، دفتروں میں شکاری بیٹھے ہیں، جن کا کام سائلوں کو شکنجے میں کسنے کے بعد مال بنانا ہے۔ کچہریوں میں انصاف ملتا نہیں،بکتا ہے۔ ایک گانا سنتے تھے.... ”بولو جی تم کیا کیا خریدو گے“.... پاکستانی معاشرے پر یہ گانا بالکل صادق آتا ہے۔ پیسہ ہو تو یہاں ہر چیز ہاتھ باندھے کھڑی نظر آئے گی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں پیسہ اکٹھا کرنے کا جنون اپنے جوبن پرہے۔ جن معاشروں میں قانون کی عملداری ہوتی ہے، انصاف سب کو ملتا ہے، روز گار اور تعلیم و صحت کی سہولتیں سب کے لئے ہوتی ہیں،وہاں دولت اکٹھی کرنے کا جنون بھی کم ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں یہ سب کچھ صرف پیسے کے ذریعے دستیاب ہوتا ہے، اس لئے ہم سب دولت کی اندھی دوڑ میں شریک ہو چکے ہیں۔پیسہ ہی ہمارا دین، ایمان اور بھگوان بن چکا ہے۔ مجھے تو اس پر کوئی حیرت نہیں ہوئی کہ لاکھوں افراد اور ہزاروں سرکاری ملازمین بھی غریب و نادار بن کر بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سے امداد لیتے رہے۔ منو بھائی کہا کرتے تھے جب کسی کے منہ کو ایک بار حرام لگ جائے تو وہ حلال کے ذائقے سے محروم ہو جاتا ہے“.... کیا یہ بات سچ ثابت ہو رہی ہے؟