جوبائیڈن انتظامیہ اور ہماری قومی ترجیحات

جوبائیڈن انتظامیہ اور ہماری قومی ترجیحات
جوبائیڈن انتظامیہ اور ہماری قومی ترجیحات

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


الیکشن2020ء نے امریکی تاریخ میں ایک نئی تاریخ رقم کر دی ہے، جس میں بہت سے مثبت اور منفی اسباق موجود ہیں یہ انتخابات ٹرن آؤٹ کے لحاظ سے بھی منفرد قرار پائے،239 ملین درج شدہ ووٹرز میں سے160 ملین ووٹرز نے حق رائے دہندگی استعمال کیا گویا67فیصد ووٹرز نے ووٹ ڈالے۔ یہ امریکی انتخابات کی 120سالہ تاریخ میں بلند ترین ٹرٹ آؤٹ تھا اس سے پہلے 1900ء میں ووٹرز ٹرن آؤٹ73.7 فیصد تھا۔ 1960ء میں نکسن بمقابلہ کینیڈی کے موقع پر ٹرن آؤٹ63.8 فیصد رہا۔2020ء میں 100ملین سے زائد ووٹ، قبل از وقت پولنگ/ پوسٹل بیلٹ کے ذریعے ڈالے گئے یہ بھی ایک ریکارڈ ہے۔ کمیلا ھارس نے بھی پہلی خاتون اور جنوب ایشیائی امریکن، نائب صدر منتخب ہو کر ریکارڈ قائم کیا۔ جوبائیڈن نے81ملین سے زائد ووٹ لئے، جبکہ ٹرمپ نے74 ملین سے زائد ووٹ لئے، جوبائیڈن نے 306 الیکٹورل ووٹ، جبکہ ٹرمپ نے232 الیکٹورل ووٹ حاصل کئے۔ یہ بھی ایک ریکارڈ ہے کہ2016ء میں ٹرمپ 306 الیکٹورل ووٹ لے کر امریکی صدر منتخب قرار پائے تھے، جبکہ ہارنے والے نے232 الیکٹورل ووٹ لئے تھے۔ جوبائیڈن  نے نہ صرف پاپولر ووٹنگ میں، بلکہ الیکٹورل ووٹنگ میں بھی ریپبلکن امیدوار ٹرمپ کو واضح شکست سے دوچار کیا، اس طرح سینیٹ میں بھی ڈیمو کریٹس کو اکثریت حاصل ہو گئی ہے، جوبائیڈن مکمل اعتماد اور اختیار کے ساتھ امریکہ کی قیادت کر سکیں گے۔ امریکہ کی گرتی ہوئی عالمی ساکھ میں بہتری لانے کی کوشش کریں گے۔


ڈونلڈ ٹرمپ اور مودی کے ذاتی تعلقات  نے بھارت سرکار کو مسلمانوں کے خلاف کھل کھلا کر ریشہ دوانیاں کرنے کے مواقع بہم پہنچائے۔ مودی نے رام مندر کی تعمیر کا آغاز کیا کشمیر پر قہر مسلط کیا اور کشمیریوں کو بنیادی انسانی حقوق سے محروم کر دیا، ٹرمپ نے فلسطینیوں کے حقوق کی پرواہ نہ کرتے ہوئے امریکی سفارت خانہ تل ابیب سے اٹھا کر یروشلم منتقل کر دیا۔ عرب دیکھتے ہی رہ گئے۔ٹرمپ کی آشیر باد سے ہی پرنس محمد بن سلمان نے سعودی عرب کی کایا کلپ کی،شاہی خاندان کے اکابرین کو جیلوں میں بند کیا۔ مملکت کی روایتی حیثیت بدل  کر اسے ماڈرن سیکولر بنانے کی کاوشیں کیں۔ اب ٹرمپ کی شکست اور بائیڈن کے امریکی صدارت پر متمکن ہونے کے بعد معاملات کیا رُخ اختیار کر سکتے ہیں؟ ہمیں ایسے معاملات پر غورو فکر کرنے کی  فرصت ہی نہیں ہے۔


جوبائیڈن، امریکی تاریخ کے کینیڈی کے بعد دوسرے کیتھولک صدر ہیں وہ اپنی انتخابی مہم میں مسئلہ کشمیر پر کشمیریوں کے حق میں گفتگو کرتے رہے ہیں اور فلسطینیوں کے لئے مثبت سوچ کا اظہار کرتے رہے ہیں، وہ مذہبی منافرت، مسلم دشمنی اور رنگ و نسل کی عصبیت پر یقین نہیں رکھتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ تاریخ میں پہلی مرتبہ بارہ ہندوستانی نژاد امریکی ان کی کابینہ کا حصہ بننے جا رہے ہیں۔نئی امریکی انتظامیہ کے ایسے رجحانات کے خطے کی صورتِ حال پر اثرات مرتب ہوں گے۔ پاک بھارت تعلقات کس سمت میں جا سکتے ہیں، کیا ہم مسئلہ کشمیر کے حوالے سے اپنی پوزیشن بہتر بنا سکتے ہیں۔ پاک افغان تعلقات میں کیا بہتری کی صورتِ حال پیدا ہو سکتی ہے۔

ظاہر ہے کہ اب بھارت کو امریکہ کی بے لگام آشیر باد حاصل نہیں رہے گی۔ ایران کے بارے میں امریکی پالیسی کیا ہو گی، کیونکہ اب ولی عہد محمد بن سلمان کو امریکی انتظامیہ کی پہلے جیسی سرپرستی حاصل نہیں ہو گی۔ سب سے اہم پاک امریکہ تعلقات کیا نیا رخ اختیار کر سکیں گے یا نہیں۔چین امریکہ تعلقات کے تناظر میں پاک امریکہ تعلقات میں کس قسم کی تبدیلی واقع ہو سکتی ہے یہ سب ایسے سوالات ہیں، جن کے جواب سیدھے سادے نہیں ہوں گے ان معاملات پر گہرے غورو فکر اور ٹھنڈے دِل و دماغ کے ساتھ مل بیٹھ کر، سر جوڑ کر تفکر و تدبر کرنے کی ضرورت ہے یہ ایسے سیاسی اور سفارتی معاملات ہیں جن کے عسکری نتائج بھی مرتب ہو سکتے ہیں، اِس لئے ضرورت اِس امر کی ہے کہ ہم سب، یعنی ذمہ اران مل جل کر ان معاملات کو قومی سلامتی اور مفاد کے تناظر میں دیکھیں۔لائحہ عمل مرتب کریں۔


تاریخ و سیاست کے ایک طالب علم کے طور پر میری رائے ہے کہ ٹرمپ نے اپنے دورِ اقتدار میں جو کچھ کیا اور جیسے کیا اس سے عالمی سطح پر افتراق اور تفریق کی راہیں کشادہ ہوئیں۔ جنگ و جدل میں اضافہ ہوا۔ ٹرمپ کے غیر ذمہ دارانہ رویوں کے باعث، عالمی سیاست و سفارت میں امریکی رعب و دبدبہ میں کمی واقع ہوئی۔ چین نے عالمی سطح پر اپنا قد کاٹھ بڑھایا۔ شمالی کوریا کے ساتھ معاملات میں بھی امریکہ اپنا اثرو رسوخ ثابت نہیں کر سکا۔ ایران کی ایٹمی طاقت بننے کی خواہش کو دبانے یا لگام دینے کی کاوشوں پر ٹرمپ نے پانی پھیر دیا۔ عرب، اسرائیل مفاہمتی کاوشوں اور فلسطینیوں کے لئے ایک ریاست کے قیام کی طویل مدتی کاوشوں کا بھی ٹرمپ نے دھڑن تختہ کر دیا۔ اس طرح دُنیا میں شرقاً، غرباً اور شمالاً، جنوباً   ہر سو جنگ و جدل کا دور دورہ ہو گیا۔ عالمی توازن طاقت میں شدید بگاڑ پیدا ہوا۔


ٹرمپ دورِ حکومت میں پاکستان کی تعریفیں کی جاتی رہیں، افغان امن مذاکرات کے حوالے سے پاکستان کے کردار کو سراہا جاتا رہا،لیکن عملاً مودی سرکار کی حمایت جاری رکھی گئی۔بھارت کو معاشی و عسکری طور پر مضبوط بنانے کی کاوشیں جاری رکھی گئیں، مسئلہ کشمیر پر امریکہ نے بھارت کے غیر انسانی رویوں پر چُپ سادھے رکھی، لیکن اب معاملات میں فکری و نظریاتی تبدیلی واقع ہونے جا رہی ہے۔ امریکہ بدل نہیں رہا،بلکہ جوبائیڈن کی فتح کی صورت میں امریکہ بدل گیا ہے ہم معاملات کو اپنے حق میں کرنے کے لئے اگر یکسو ہو جائیں تو ہمارے لئے بہتری کی صورت پیدا ہو سکتی ہے۔


سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاک امریکہ تعلقات کے حوالے سے ہماری قومی ترجیحات کیا ہیں؟ یا کیا ہونی چاہئیں! سی پیک کے ذریعے ہم ایران کے ساتھ بھی سٹرٹیجک تعلقات کے اجراء کی بنیادیں قائم ہو گئی ہیں، افغانستان سے امریکی افواج  کی واپسی کے بعد یہاں طالبان کے اثرو رسوخ میں اضافہ ہونے جا رہا ہے، کابل میں پاکستان دشمن قوتوں کی اجارہ داری ختم ہونے جا رہی ہے ایسے موافق امکانات میں ہمیں اپنی خارجہ پالیسی پر نظرثانی کرنی چاہئے۔ ایک قومی خارجہ پالیسی کے ذریعے پاکستان کو تعمیر و ترقی کی راہ پر گامزن کرنا ہماری اولین و آخری ترجیح ہونی چاہئے، تاریخ ایک بار پھر ہمیں ہماری غلطیوں کا ازالہ کرنے کا موقع دے رہی ہے، اس سے ہمیں فائدہ اٹھانا چاہئے۔

مزید :

رائے -کالم -