زندگیوں کی ڈوبتی ناؤ
نعرۂ تکبیر،نعرۂ رسالت، پاکستان زندہ باد کے نعروں میں پاکستان تو بن گیا جس کی آزاد فضاؤں میں ہم آج سانس لے رہے ہیں اور مسلمانوں نے جن قربانیوں سے تحریک پاکستان کو پایہ تکمیل تک پہنچایا اس کے نورسے آج پورا پاکستان روشن ہے، لیکن ہماری ذہنی اور قلبی حالت تقسیم کے وقت ہونے والی دردناکیوں سے کچھ مختلف نہیں ہے۔ ہم شعوری طور پر انہی تکالیف سے گذارے جارہے ہیں، جن میں ہجرت کے وقت مسلمانوں کو گذارا گیا۔ ایک بوڑھا باپ سردیوں کی راتوں میں ایک شاپنگ سنٹر کی یخ بستہ سیڑھیوں پر لیٹ کر رات گذراتا ہے، وہ یہاں نگرانی پر مامور ہے کہ اسے اپنے بچوں کا پیٹ پالنا ہے، بوڑھا شخص سردی کی شدت کو کم کرنے کی خاطر الاؤ روشن کرنے کے لئے کاغذ وغیرہ تلاش کرنے نکلتا ہے، لیکن دھند ایسے پڑرہی تھی، جیسے بارش ہو، ہر چیز گیلی ہو چکی ہے، کاغذ بھیگ چکے تھے اسے جلانے کے لئے کچھ مل نہیں رہا تھا۔
اس کا دل تو پہلے سے غربت کی آگ میں جل رہا تھا جس پر مہنگائی کا تیل اسے اور بھڑکا رہا ہے، مَیں سردی میں کانپتے ہوئے اس شخص کے پاس جاتا ہوں، اس سے ان حالات کی بابت سوال کرتا ہوں، وہ بتاتا ہے کہ پہلے تو دن بھر کی مزدوری سے جیسے تیسے گذر بسر ہوجاتی تھی،لیکن اب گذارا ممکن نہیں رہا، زندگی گزارنا مشکل ہوتا جاتا ہے، بچے بھوک سے بلکتے، سردی میں ٹھٹھرتے ہیں تو اس سے یہ مناظر دیکھے نہیں جاتے، بالکل ایسے جیسے تقسیم کے وقت سکھوں اور ہندوؤں کے وار انسانی جسم پر پڑتے تھے،اب ہمارے حکمرانوں کی بے حسی کے وار ہمارے شعور پر پڑ رہے ہیں، جس سے ہماری روح تک گھائل ہے، اس لئے اس نے دن کی مزدوری کے ساتھ رات کی مشقت گوارہ کی ہے۔
اس کی باتیں سنتے ہوئے میری سماعتوں میں سیسہ پگھلتا ہوا محسوس ہوتا ہے، ٹھیک ہے ہمارے سابقہ حکمرانوں سے کچھ خطائیں ہوئی ہوں گی، لیکن زندگی اتنی کٹھن تو نہیں تھی۔ ایک عام آدمی کو دن کی پہاڑ مشقت کے بعد رات کا بارگراں اٹھانے کی ضرورت نہیں پڑتی اب تو دن بھر محنت کی بھٹی میں جل کر بھی گذارا نہیں ہوتا۔ اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں آئے روز اضافہ ہواجاتا ہے، تعلیم کے حالات مخدوش ہیں، طلباء کی فیسیں تک بڑھا دی گئی ہیں، یعنی ایک ایسا گھر جس کے حالات مذکورہ بالا سطور میں ایک بوڑھے نے بتائے ہیں، اس گھر کے بچے بھاری بھرکم امتحانی فیسیوں کی عدم دستیابی کی صورت میں پڑھنے سے تو رہے، ادویات اس قدر مہنگی ہوچکی ہیں کہ مریضوں کے لئے علاج کرانا خیال و خواب ہو چکا ہے۔
مزدور مجبور ہو چکا ہے، بے روزگاری کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے، غربت کا زہر رگوں میں اترتا جاتا ہے، یہ غربت کا شاخسانہ ہی تو تھا کہ قصور میں بیروزگار باپ نے اپنے پانچ بچوں کو نہر میں پھینک دیاتھا، جن کی نعشیں سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں تو دیکھنے والوں کی آنکھیں زخمی ہوگئی تھیں، جناب عمران خان توکہا کرتے تھے کہ ساؤتھ کوریا کے وزیر اعظم نے کشتی الٹنے پر استعفا دیا، یہاں تو لوگوں کی زندگیوں کی ناؤ ڈوبتی جاتی ہے اور خان ِ اعظم ہنوز نہ جانے کس زعم میں سینہ تانے مسند نشین ہیں ۔