یو ٹو سے یو ایس:25داستانِ عزیمت۔۔۔اور ہزیمت
ماضی میں 60ء کی دہائی پر ذرا نظر ڈالیں تو یہ واقعہ یکم مئی1960ء کا ہے۔ سوویت یونین کے وزیراعظم خرو شیف نے اعلان کیا کہ سوویت یونین نے امریکہ کا ایک یو ٹو جاسوس طیارہ مار گرایا ہے اور اِس طیارے کے پائلٹ فرانسس گیری پاورز کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ سوویت حکومت کے مطابق یہ امریکی طیارہ سوویت یونین کی فضائی حدود میں تقریباً60ہزار فٹ کی بلندی پر پرواز کر رہا تھا۔ دلچسپ امریہ ہے کہ یہ امریکی طیارہ پاکستان کے شہرپشاور کے نزدیک بڈبیر کے امریکی ہوائی اڈے سے اُڑا تھا۔اِس طیارے میں جدید ترین اور حساس نوعیت کے کیمرے لگے ہوئے تھے جن کی مدد سے یہ طیارہ سوویت یونین کی انتہائی اہم اور حساس تنصیبات کی تصویریں کھینچ رہا تھا۔امریکہ اور پاکستان دونوں ہی نے سوویت یونین کے اِن الزامات کی تردید کی مگر ہوا یہ کہ اگست 1960ء ہی میں طیارے کے پائلٹ فرانسس گیری پاورز پر سوویت یونین کی ایک فوجی عدالت میں مقدمہ چلایا گیا تو پھر سب کچھ کھل کر سامنے آ گیا، اِس طرح اصل حقیقت پوری دنیانے دیکھ لی۔ یہ واقعہ عالمی سطح پر انتہائی اہم تھا،پاکستان کی تاریخ میں بھی اِسے اہمیت حاصل ہوئی،اِس طرح پوری دنیا کو معلوم ہو گیا کہ پاکستان نے اپنی سرزمین پر امریکی فوجی اڈے قائم کرنے کی اجازت دے رکھی ہے۔ سوویت یونین نے اِس واقعے کے بعد پاکستان کو کبھی معاف نہیں کیا اور مختلف مواقع پر پاکستان کو سوویت یونین کے ہاتھوں نقصان بھی اُٹھانا پڑا۔ افغانستان میں سوویت یونین کی افواج کی جارحیت جو پاکستان کو بے پناہ مسائل سے دو چار کر گئی مگر اصل حقیقت یہ ہے کہ افغانستان کی سرزمین پر پاکستان ہی کی حکمت عملی سے سوویت یونین کو پسپا ہونا پڑا، آج سوویت یونین اپنا وجود کھو چکا ہے اور اب عالمی نقشے پر یہ ریاست سوویت یونین کے بجائے روس کے نام سے جانی جاتی ہے۔
18جولائی1969ء کو حکومت پاکستان نے اعلان کیا: امریکہ اور پاکستان کے درمیان10 سالہ دفاعی معاہدے کے اختتام پر پشاور کے نزدیک بڈ بیر کے مقام پر امریکی فوجی اڈے نے اپنا کام بند کر دیا ہے۔ یہ امریکی فوجی اڈا 1959ء میں حکومت پاکستان کے ساتھ اتفاق سے قائم ہوا تھا۔ 19اگست1960ء کو ماسکو میں قائم سوویت یونین کی فوجی عدالت نے امریکہ کے جاسوس طیارے یوٹو کے پائلٹ فرانسس گیری پاورز کو 10سال قید کی سزا سنائی۔اِس مقدمے کا آغاز 17اگست1960ء کو ہوا تھا جہاں فرانسس گیری پاورز نے اعتراف کیا تھا کہ یکم مئی 1960ء کو اُنہوں نے پشاور کے نزدیک بڈ بیر کے فوجی اڈے سے پرواز کا آغاز کیا تھا۔ اِس سزا کے ڈیڑھ سال بعد 10فروری1962ء کو اِس امریکی پائلٹ کو امریکہ کے حوالے کر دیا گیا اور اُس کے بدلے میں امریکہ میں قید روسی جاسوس کرنل رڈولف ایبل کو آزاد کر کے سوویت یونین کے حوالے کیا گیا تھا۔
پاکستان کی عسکری تاریخ کا ایک عظیم الشان فضائی معرکہ پاک سرزمین پر4اگست1988ء کو پیش آیا۔ پاک فضائیہ کے اِس معرکے میں اُس وقت کے سکوارڈن لیڈر اطہربخاری اور سکواڈرن لیڈر توفیق راجہ نمایاں تھے۔ وطن ِ عزیز کا دفاع کرتے ہوئے پاک فضائیہ کے اِن شاہینوں نے وطن ِ عزیز کا نام روشن کیا اور عسکری تاریخ میں شاندار کامیابی کی تاریخ رقم کی۔ اِس فضائی معرکے کی مختصر تفصیل کچھ یوں ہے کہ روسی جنگی جہاز ایس یو 25 جسے روسی پائلٹ الیگزینڈرولادیمیررسکوئی اُڑا رہا تھا،رات کے اندھیرے میں پاکستان کی فضائی حدود میں داخل ہوا۔پاک فضائیہ کے راڈار کنٹرول روم میں کنٹرولر سکوارڈن لیڈر توفیق راجہ نے راڈار سکرین پر اپنی عقابی نظروں سے اِس جہاز کو پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کرتے ہوئے دیکھ کراطلاع آگے پہنچا دی،پھر روسی جہاز کو ٹارگٹ کرنے کا ٹاسک فائٹر پائلٹ سکوارڈن لیڈر اطہر بخاری کے حصے میں آیا۔وہ ایف 16جہاز لے کر اِس مشن پر روانہ ہوئے۔
سکوارڈن لیڈر اطہر بخاری نے روسی جہاز کو پاکستان کی حدود کے اندر مار گرایا جبکہ پائلٹ الیگزینڈر ولا دیمیر رسکوئی کو گرفتار کر لیا گیا۔یہ پائلٹ پاکستان میں قید رہا۔ رہائی کے بعد اُسے روسی حکومت کے حوالے کر دیا گیا۔بعد میں یہ روسی پائلٹ جو روس کی فوج میں ایوی ایشن میں میجر جنرل تھا،روس کا نائب صدر بنا۔اُس عہدے پر وہ 10جولائی1991ء سے لے کر چار اکتوبر 1993ء تک رہا۔ اِس کے بعد وہ روس کے صوبے کرسک ابلاسٹکا کا گورنر بھی رہا۔روس میں آئینی بحران کے دوران یہ پائلٹ مختصر عرصے کے لیے روس کا قائم مقام صدر بھی بنا۔لندن میں موجود ہمارے دوست خالد ایچ لودھی نے اپنی تحقیق میں مزید کہا ہے:پاکستان میں روسی پائلٹ کا جہاز گرانے والے سکوارڈن لیڈر اطہر بخاری ایئر مارشل بنے۔وہ پاک فضائیہ میں وائس چیف آف ایئر سٹاف کے عہد تک پہنچے جبکہ سکوارڈن لیڈر توفیق راجہ ایئرکموڈور کے عہدے پر ترقی پا کر ملیر ایئر بیس کے سٹیشن کمانڈر کے عہدے سے ریٹائر ہوئے۔
یکم مئی1960ء کو سوویت یونین نے امریکہ کا یو ٹو جہاز جو بڈبیر پشاور سے اُڑا تھا اُسے مار گرایا تھا۔ پاکستان نے 4اگست 1988ء کو پاکستان کی سرزمین پر روس کا ایس یو 25 جہاز مار گرایا تھا اور پھر سات فروری 2019ء کو گروپ کیپٹن الیاس نے بھارتی فائٹر کے پاکستان کی طرف رُخ کو مانیٹر کیا۔ونگ کمانڈر نعمان اور سکوارڈن لیڈر حسن صدیقی ٹاسک ملنے پر اُن پر جھپٹے۔نعمان کے نشانے پر ابھی نندن کا جہاز آیا۔ ابھی نندن کو گرفتار کرلیا گیاجبکہ دوسرا جہاز پائلٹ سمیت جلتا ہوا مقبوضہ کشمیر میں جا گرا۔یہ سب کچھ تاریخ کا حصہ ہے۔یہ بھی ہماری داستانوں میں سے ایک داستانِ عزیمت ہے جو دشمن کے لئے بدترین ہزیمت بن گئی۔تاریخ ہمیشہ بدلتی بھی رہتی ہے اور حقیقت یہ بھی ہے کہ تاریخ رقم بھی ہوتی ہے۔ پاکستان ایٹمی ریاست ہے،اُس کا دفاع مضبوط ہے جو ہمیشہ ناقابل ِ تسخیررہے گا۔