فولادی پٹریوں پر دوڑتی گاڑی ہندوستان کے سیدھے سادے دیہاتی لوگوں کیلئے انوکھی چیز تھی،ایک ہجوم بمبئی میں بوری بندر کے مقام پراکٹھا ہو گیا تھا 

Jan 20, 2025 | 10:26 PM

مصنف:محمدسعیدجاوید
 قسط:14
یوں تیزی سے ہندوستان میں ریل لانے کے منصوبے بننے لگے اور اس سے بھی زیادہ سرعت کے ساتھ ان پر کام بھی شروع ہو گیا۔ ویسے تو انگریزوں کا ہندوستان کے تمام اہم مقامات کو ریل گاڑی کے ذریعہ آپس میں ملانے کا منصوبہ تھا، جس کیلیے تیاریاں عروج پر تھیں، تاہم انھوں نے بڑی بندر گاہوں کو ریلوے کا سب سے پہلا ہدف بنایا،لہٰذا ہندوستان میں پہلی جیتی جاگتی مسافر گاڑی کو”بمبئی“ اور”تھانے“ کے بیچ چلانے کا فیصلہ ہوا جن میں آپس کا فاصلہ 21 میل یعنی کوئی  34 کلومیٹر بنتا تھا۔
اس ریل گاڑی کا سارا سامان برطانیہ سے آیا تھا۔جب اس کے لیے پٹری بچھائی گئی تو اس کی چوڑائی  5فٹ 6 انچ رکھی گئی اور اسے براڈ گیج ریلوے لائن کہا جانے لگا اور بعدازاں سارے ہندوستان میں بچھائی جانے والی اکثر پٹریوں کیلئے بھی یہی معیار اپنایا گیا- تاہم بعد میں ملک کے کچھ حصوں خصوصاً پہاڑی علاقوں میں ضرورت کے مطابق میٹر گیج اور نیرو گیج پٹریاں بھی بچھائی گئیں، جن کی چوڑائی طے کیے گئے معیار سے قدرے کم ہوتی تھی۔
جب بوری بندر بمبئی اور تھانے کے درمیان چونتیس کلومیٹر کی یہ پٹری مکمل طور پر بچھائی جا چکی تو اس پر آزمائشی طور پر 13 ڈبوں کی مسافر گاڑی چلانے کا فیصلہ ہوا، جن میں کوئی 400 لوگ سفر کرسکتے تھے۔ یہ بھی طے کیا گیا کہ اس پہلی گاڑی کو بیک وقت 3اسٹیم انجن کھینچیں گے جو برطانیہ سے منگوائے گئے تھے۔ پھران انجنوں کی نظر اْتار کر ان کے نام بھی رکھ دیے گئے تھے۔ ایک کو”صاحب“، دوسرے کو ”سندھو“ اور تیسرے کو”سلطان“ کہا گیا۔ اگر ان ناموں پر غور کیا جائے تو ان کا آپس میں کوئی ربط، مماثلت یا ترتیب نظر نہیں نظر آتی تھی۔ یوں محسوس ہوتا تھا کہ ریلوے کے گورے انجنئیروں نے ہندوستان آکر ابھی تک یہی دو تین نام سیکھے تھے یا پھرمشہور ہندوستانی فلم صاحب، بی بی اور غلام کا ابتدائی خاکہ ان کے ذہن کے کسی گوشے میں پڑا تھا۔ غرض مقامی لوگوں کو یہ نام کچھ اپنے اپنے سے لگے اور پھرحکمرانوں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے انھوں نے ان کی خوب جی بھر کے تعریف و ثناء کی اورجو نہ بھی پسند آئے ہوتے تو کس میں گورے صاحبوں کو ٹوکنے کی یا اْن کی تصحیح کرنے کی جرأت تھی، غلام جو ٹھہرے۔
فولادی پٹریوں پر دوڑتی ہوئی یہ گاڑی ہندوستان کے سیدھے سادے دیہاتی لوگوں کیلیے ایک انوکھی چیز تھی۔ لہٰذا اس کو دیکھنے کے لیے ایک ہجوم بمبئی میں بوری بندر کے اس مقام پراکٹھا ہو گیا تھا جہاں سے ریل گاڑی نے ہندوستان میں اپنے پہلے سفر کا آغاز کرنا تھا۔ وہاں کھڑے ہوئے تماشائی بے یقینی کے عالم میں ان 3دیو ہیکل اورسانڈوں کی طرح پھنکارتے ہوئے انجنوں کو تکے جا رہے تھے جنھوں نے اپنے پیچھے لگائے ہوئے ڈبوں کو لے کر ایک بے جان فولادی پٹری پر ”تھانے“ تک دوڑنا تھا۔
انگریزوں نے ترس کھا کر اس گاڑی کے کچھ ڈبوں میں عام مقامی لوگوں کو بھی سوار کر لیا تھا، تاہم اس کے بیشتر مسافر انگریز یا اْونچے عہدوں اور معاشرے میں اعلیٰ مقام پر فائز ہندوستانی باشندے تھے جن کو اس افتتاحی گاڑی میں سفر کرنے کے لیے خصوصی طور پر مدعو کیا گیا تھا۔ یہ 16اپریل 1853ء کی ایک گرم اور مرطوب سہ پہر تھی جب اس ہجوم کی موجودگی میں ٹھیک ساڑھے تین بجے تینوں انجنوں نے بیک وقت سیٹیاں بجا کر اپنی روانگی کا اعلان کیا اور یہ گاڑی دھیرے دھیرے چل پڑی۔ اس کو بینڈ باجوں کے ساتھ روانہ کیا گیا اور مزیدار بات یہ کہ رخصتی کے وقت اس نواب زادی کو 20 توپوں کی سلامی بھی دی گئی تھی۔
 (جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزیدخبریں