پہلوانوں کے جلوس گوجرانوالہ کی پہچان تھے، افسوس یہ پہچان ختم ہو گئی، دوسری پہچان”تکے کباب بار بی کیو“ ہے، جو پہلے سے بھی زیادہ پاپولر ہے

Jan 20, 2025 | 10:28 PM

مصنف:شہزاد احمد حمید
قسط:55
 دنگل سے ایک دن قبل شام کے وقت مقابلے میں حصہ لینے والے پہلوانوں کا جلوس تانگوں میں برآمد ہوتا۔ پہلوان رنگ رنگ کے پٹکے(پگڑیاں) باندھے شوخ رنگوں کے لائچوں اور کرتوں میں ملبوس انتہائی جاذب نظر دکھائی دیتے تھے۔ ہر تانگے میں ڈھول والا بیٹھا ڈھول پیٹ پیٹ کر دیکھنے والوں کو اپنے تانگے کی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کرتا تھا۔ ان ڈھو لچیوں کا آپس میں ڈھول کا مقابلہ سا ہی لگا رہتا تھا۔بیڑی والے لاؤڈ سپیکر پر پنجابی زبان اور دلکش انداز میں مقابلے میں حصہ لینے والے پہلوانوں کا نام اور تعارف کروایا جاتاتھا۔ جو کچھ یوں ہوتا؛
”کاکا پہلوان پٹھہ رحیم بخش سلطانی والے کا۔ افضل پہلوان پٹھہ یونس پہلوان ستارہ پاکستان کا۔ پٹھہ سے مراد شاگرد۔“
 گوجرانوالہ سے برآمد ہونے والے پہلوانوں کے ایسے کئی جلوسوں کا میں چشم دید گواہ ہوں۔ ایک بار میں نے شیرانوالہ باغ میں دنگل بھی دیکھا۔ پہلوانوں کے جلوس گوجرانوالہ کی پہچان تھے۔ افسوس اب یہ پہچان ختم ہی ہو گئی ہے۔ اس شہر کی ایک دوسری پہچان” تکے کباب یعنی بار بی کیو“ ہے۔ جو آج پہلے سے بھی زیادہ پاپولر ہے۔ رحیم تکہ، شہباز تکہ اور اللہ رکھا تکہ پرانی دو کانیں تھیں۔ رحیم تکہ اور شہبازتکہ شہر کے اندر جبکہ اللہ رکھا تکہ جی ٹی روڈ پر سیالکوٹی دروازے کے بلمقابل تھی۔اپنی لالہ موسیٰ پوسٹنگ کے دوران میں اور میری فیملی اللہ رکھا سے ہی بار بی کیو کا لطف لیتے تھے جبکہ رحیم تکہ پر میرے سسر شیخ انور ہمیں لے گئے تھے۔ یہ شہر ہمیشہ سے ہی خوش خوراک لوگوں کا شہر رہا ہے اور یہاں کے مختلف پکوان اپنی لذت اور ذائقہ کی وجہ سے شہرت دواں پا چکے ہیں۔ دور جدید میں ان پکوانون کے ریسٹورنٹ اب جی ٹی روڈ کے کنارے پہنچ چکے ہیں اور آتے جاتے مسافروں کو اپنی بھنیی بھینی خوشبو سے سفر میں کچھ دیر یہاں رکنے پر مجبور کرتی ہے۔
روایتی تانگہ؛
تانگہ بھی اس دور کی روایت اور شاہی سواری تصور کی جاتی تھی۔کچھ مسافر آسانی سے اس میں سوار ہو سکتے تھے اور کوچوان یا تو پائیدان پر بیٹھ جا تا یا لمبے بانس پر۔ محلے کا تانگہ ہوتا تو راستے میں محلے کی سبھی خبروں سے آ گاہی ہو جاتی تھی۔ نہ بھی محلے کا ہوتا تو کوچوان عادتاً ہی شہر کی خبریں سناتا رہتا تھا۔ ویسے کوچوان بھی تانگے کی مسافر خواتین سے زیادہ بے تکلفی سے بات کرتے تھے۔ دراصل یہ اس دور کی ثقافت تھی جس میں پل بڑھ کر ہم جوان ہوئے تھے۔ گھوڑے کی چلنے کی رفتار سست ہوتی تو اسے کوچوان کی آ واز اور پھر چابک کی چبھن کی تکلیف اٹھانا پڑتی تھی۔ دو چار چابک کھانے کے بعد گھوڑے میاں دوڑنے لگتے تھے۔ کئی زندہ دل کوچوان تو تانگے دوڑانے میں کافی مشاق ہوتے تھے۔ کئی گھوڑے تگڑے اور خوب چمکے ہوتے لیکن چابک کھاتے ڈھٹائی کی انتہا کر دیتے اور اپنی مریل چال ہی چلتے رہتے تھے۔ گھوڑا ”اڑی“ کر جاتا تو کوچوان کا امتحان شروع ہو جاتا۔ایسے گھوڑے کو قابو کرنا بھی فن ہی ہوتا تھا۔ بعض ٹانگے خوب سجے ہوتے اور ان میں پیر سے بجانے والی گھنٹی بھی لگی ہوتی تھی جو بوقت ضروت کام آ تی لیکن اکثر کوچوان آ واز سے ہی راستے کی روکاوٹ کو دور کرنے کی صدا کرتے تھے۔(بچ کے باؤ جی۔) رات کے وقت دونوں پہیوں کے اوپر لالٹین روشن ہوتی جن میں مٹی کا تیل استعمال ہوتا تھا۔ ریلوے سٹیشن، لاری اڈے اور شہر کے مشہور چوک ٹانگوں کے پارکنگ ایریاز ہوتے۔ گھوڑوں کی سموں پر لوہے کے نعل لگائے جاتے جن میں دھات کی بنی میخیں ٹھونکی جاتی تھیں۔گھوڑوں کو پانی پلانے کے لئے ہر شہر کے مخصوص علاقوں میں پانی کے حوض بنے ہوتے۔ فارغ وقت میں کوچوان ان گھوڑوں کو پانی بھی پلاتے اور چارے سے تواضع بھی کرتے تھے۔ تانگہ اس دور کی روایت بھی تھی، ثقافت بھی  جسے وقت کے پہیے نے کہیں گم کر دیا ہے۔ٹانگہ اب بھی دور دراز کے پس ماندہ علاقے میں پرانے دور کی روایت کو زندہ رکھے ہوئے ہے۔ اب جب کہ انسان کو اپنی روٹی کے لالے پڑے ہیں گھوڑے کے اخراجات برداشت کرنے کوچوان کے لئے ناممکن ہو چکا ہے۔
 شہر میں سامان کی ترسیل کے لئے ریڑھے استعمال ہوتے جن میں گھوڑتے یا خچر جوتے جاتے تھے۔ وقت کی گردش نے انہیں بھی سوزوکی ڈبے میں بند کر دیا ہے اب یہ خال خال ہی کہیں کہیں دکھائی دیتے ہیں۔ بار برداری، تعمیراتی سامان،ریت، مٹی، اینٹ لانے لے جانے کے لئے گدھوں کا استعمال ہوتا تھا۔ کمہار کے گدھے سارا دن مالک کے لئے روٹی پانی کے بندوبست میں جتے رہتے تھے۔ فی پھیرا ایک روپیہ کرایا تھا۔ سامان اتارنے کے بعد کمہار بھی گدھے پر سوار اگلے پھیرے کی تلاش میں نکل پرتا تھا۔ بے شک محنت میں عظمت تھی۔ جدید دور میں گدھوں کا کام ٹریکٹر ٹرالی نے سنبھال لیا ہے۔ (جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزیدخبریں