بلوچستان، کیا دوسرا بنگلہ دیش ہے؟ (2)
سابق مشرقی پاکستان میں بھارت نے کیا کیا تھا۔ اس پر غور کرنے کے لئے آج تو سینکڑوں کتابیں موجود ہیںجو بنگلہ دیش کی آزادی کے علاوہ بھارت کے فوجی، غیر فوجی تمام اقدامات اور وہ کتابیں بھی موجود ہیں جو اس بغاوت کا خاتمہ کرنے کی پاکستان کی ناکام کوششوں کا تذکرہ کرتی ہیں ۔ ان کتابوں میں اپنوں کی نادانیوں اور اغیار کی عیاریوں کا تفصیلی ذکر پایا جاتا ہے۔ پاکستان کے اس وقت کے حکمرانوں نے اپنے ہی انتظامات کے تحت کرائے گئے انتخابات کے نتیجے میں منتخب ہو کر آنے والوں کو اقتدار نہیں دیا، جسے بھار ت نے اپنے حق میں استعما ل کیا، لیکن بھارت نے اس مہم جوئی میں جو جو اقدامات کئے ، ان میں سے کئی کا عکس بلوچستان میں نظر آتا ہے۔ گوریلا کارروائیاں ، ایسے لوگوں کوچن چن کر قتل کرنا جو معاشرے میں کوئی حیثیت رکھتے ہوں یا پھر کسی سطح پر مزاحمت کر سکتے ہوں تا کہ ان کے قتل کے نتیجے میں عام لوگ نہ صرف اپنے آپ کو غیر محفوظ تصور کرنے لگیں، بلکہ خوف زدہ ہوجائیں۔ ایسی تنصیبات کو نشانہ بنایا جائے جن سے عام لوگوں کو سہولتیں حاصل ہوں اور جنہیں فوری بحال کرناممکن ہی نہ ہو۔
سابقہ مشرقی پاکستان میں پاکستان نے اس صورت حال سے نمٹنے کے لئے جنرل ٹکا خان جےسے بے عقل ، ظالم مزاج، اذیت پسند ، انسانی ہمدردی سے محروم اور جنرل امیر عبداللہ خان نیازی جیسے بے تکی باتیں کرنے والے، عیاش اور ذہانت سے محروم افراد کو سیاہ و سفید کا مالک بنا دیا جو نتائج کی پرواہ کئے بغیر اپنے ہی ہموطنوں کو تہ تیغ کردینے کا حکم صادر کرنے میں کسی کوتاہی کا شکار نہیں ہوتے تھے۔ ان کے انہی اقدامات کے نتیجے میں مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا۔ ایڈمرل احسن، جنرل صاحبزادہ یعقوب علی خان جیسے شریف النفس، قانون کی ہر لحاظ سے پاسداری کرنے والے، انسانی زندگی کی قدروں سے واقف لوگ کشتی کو بیچ منجدھار میں چھوڑآئے ۔انہوں نے کہا کہ یہ حکومت غیر انسانی اقدامات کر رہی تھی، جن سے عدم اتفاق کے نتیجے میں ہم لوگ چھوڑ آئے۔
سوال یہ ہے کہ ان لوگوں نے کیا اسی جاںخلاصی کا فوجی حلف اٹھایا تھا ۔ ان جیسے لوگوں نے مغربی پاکستان آنے کے بعد بھی مجرمانہ خاموشی اختیار کر لی اور مشرقی پاکستان میں بھارت کا کھیل تو آسان ہواہی ، لیکن کوتاہ نظر فوجی جنرلوں نے بھی کوئی کسر نہ چھوڑی۔ عام لوگوں کے زخموں پر مرہم رکھنے کی بجائے مرچ اور نمک لگایا گیا۔ مشرقی پاکستان کا سیاست دان تعلیم یافتہ اور دانشور طبقات مغربی پاکستان کے موقع پرست، کوتاہ نظر، لالچی،ذاتی مفادات کے غلام سیاستدانوں سے بے زار ضرور تھے، لیکن غدار نہیں تھے۔ انہیں اس جگہ پہنچا دیا گیا تھا جہاں ایک طرف کھائی تھی اور دوسری طرف کنواں ....بھارت نے مکتی با ہنی اور مجیب باہنی کے ذریعے ہی سب کچھ مشرقی پاکستان میں کیا تھا اور پاکستان کے اس وقت کے حکمرانوں کی پالیسیوں کے نتیجے میں مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا تھا۔ کیا بلوچستان میں مجموعی طور پر ایسی صورت حال پیدا کردینا مقصود نہیں کہ لوگ خود بے زار ہو جائیں اور جان کی امان کے لئے کہنا شروع کردیں کہ بس بہت ہو گیا، اب ہمیں امن درکار ہے۔ خواہ اس کی قیمت پاکستان کی سلامتی ہی کیوں نہ ہو۔
پاکستان میں ایوب خان کے وقت کی مرکزی حکومت ہو یابعد کی وفاقی حکومتیں ، ان کی پے در پے جاہلانہ، بے وقوفانہ، غیر حقیقت پسندانہ پالیسیوں کے نتیجے میں غلطیاں اپنی جگہ، لیکن بلوچستان کے علاقے یا اب صوبے میں ، ہر ہر دور میں سردار صاحبان تمام حکومتوں کا براہ راست حصہ رہے ہیں۔ اگر کوئی قبیلہ رہ گیا ہے تو اس کانام لیجئے ۔ خان قلات سے لے کر جام لسبیلہ تک ، سب ہی اقتدار کی راہ داریوں سے گزر چکے ہیں ۔ اسی طرح کا حصہ جیسے آج بلوچستان کے گورنر کا تعلق قبیلہ مگسی سے ہے ، وزیر اعلی رئیسانی قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں اور وزراءہیں جن کا کسی نہ کسی قبیلے سے تعلق ہے ۔ بلوچستان ملک کا واحد صوبہ ہے، جہاں تقریبا پوری اسمبلی کے اراکین حکومت کا حصہ ہیں اور تمام کے تمام وزیر ہیں۔ ایک عام سے محکمے کے وزیر پر بھی سرکاری خزانے سے رقم خرچ ہوتی ہے، سو ان پر بھی خرچ ہو رہی ہے۔ یہ ہے ، جمہوریت ، جس کا ہم رات دن چرچا کرتے نہیں تھکتے، لیکن جمہور ہیں کہ زخموں سے چور چور ہیں ۔۔ کیا جمہوریت کا علم اونچا کرنے کا ایک طریقہ یہ نہیں کہ صدر ، وزیر اعظم، وزیر داخلہ اس وقت تک بلوچستان میں اپنا اپنا ہیڈ کوارٹر بنا لیں جب تک حالات قابو میں نہیں آجاتے اور جمہور اطمینان کا اظہار نہیں کر دیتے۔
پاکستان سے جانے والے امریکی سفیر کے جس انٹر ویو کا بڑا تذکرہ ہے اس میں وہ کہتے ہیں کہ پاکستان میں وسائل کی کمی نہیں ہے، لیکن بد اعمالی، خراب نگرانی ، بد عنوانیوں وغیرہ کے باعث پاکستان مشکلات میں گھرا ہوا ہے۔ چیف جسٹس پاکستان جناب افتخار محمد چودھری نے بھی اس طرف بار بار توجہ دلانے کی کوشش کی ہے۔ وہ تویہاں تک بار بار کہتے رہے ہیں کہ جو گولی لگنی ہے وہ تو لگے گی اور مسلمانوں کو بار بار جتایا اور بتایا گیا ہے کہ قبر کی رات طے شدہ امر ہے، جس سے کسی حالت میں چھٹکارہ ممکن نہں ۔ پھربھی اگر یہ زندگی پاکستان کے کام آجائے اوراللہ تعالی کی مخلوق کشت و خون سے نجات پالے تو سودا مہنگا نہیں ہوگا ۔ کیوں جناب صدر آصف علی زرداری اور جناب وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف صاحب کیا خیال ہے؟.... آپ دونوں اصحاب نے وہ کچھ حاصل کر لیا ہے جس کے حصول کی تمنا کرتے کرتے سیاستدان عمر بتا دیتے ہیں۔ اس تماشہ گاہ دنیا میں کسی ملک اور حکومت کی سربراہی سے زیادہ کسی شخص کے لئے کیا ہوسکتا ہے ؟
بلوچستان میں گزرنے والا ہر لمحہ پاکستان کو عدم استحکام کی جانب گامزن کر رہا ہے۔ ہمیں اپنے آپ کو حالت جنگ میں سمجھنا چاہئے۔ ہمارے پاس ان غلطیوں کو دہرانے کا وقت ہے اور نہ ہی قوت جو ہم سے مشرقی پاکستان میں سر زد ہوئیں اور جس کا خمیازہ ہم تمام زندگی بھگتنے رہیں گے ۔ مملکت پاکستان کے صدر وزیر اعظم اور حزب اختلاف کے قائد کو چاہئے کہ کم از کم تین کمیٹیاں قائم کریں جو مختلف زاویوں سے بلوچستان کے حالات کا جائزہ لیں اور قومی اسمبلی ان کی سفارشات پر عمل در آمد کو یقینی بنائے۔ اس سلسلے میں جتنی جلدی ہوگی بہتر ہوگا،تاخیر کے ہم متحمل نہیں ہو سکتے ۔ ایک کمیٹی پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں کے کم از کم چار سابق اور ریٹائرڈ سربراہوں پر مشتمل ہو جو ایف سی کے سربراہ میجر جنرل عبید اللہ خٹک کے بیان کی روشنی میں جائزہ لے کہ بلوچستان میں بھارت کتنا ملوث ہے اور کس کس ملک کی خفیہ ایجنسیاں کیوں سرگرم ہیں اور پاکستان کیا فوری اقدامات کرے؟
دوسری کمیٹی مدیران اخبارات اور دانشوروں پر مشتمل ہو جو جائزہ لے کہ بلوچستان کے عوام کے احساس محرومی کے خاتمے کے لئے کیا کیا اقدامات پہلی، دوسری اور تیسری ترجیح کی بنیا پر ضروری ہیں ۔ تیسری کمیٹی سندھ اور پختون خوا (پنجاب نہیں ) کی یونیورسٹیوں کے نوجوانوں پر مشتمل ہونی چاہئے جو تین ماہ تک بلوچستان کے مختلف شہروں میں رہ کر جائزہ لیں کہ کشت و خون ، قتل و غارت گری اور دہشت گردی کی کارروائیوں کے پس پشت کیا مقاصد ہیں اور کون کارفرما ہے ؟ ایک اورکمیٹی کار آمد ثابت ہو سکتی ہے جو سندھ کے قبائلی سرداروں پر مشتمل ہو، جو بلوچستان کے سرداروں سے ملاقات کرکے انہیں قائل کرے کہ دہشت گردی، قتل و غارت گری سے مسائل الجھیں گے اور پاکستان کے دشمنوں کو ہی فائدہ پہنچے گا، اس لئے وہ اپنے اپنے قبیلے کے نوجوانوں کو قائل کریں کہ وہ ایسی کارروائیوں سے کنارہ کشی اختیار کریں اور معاملات کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی ابتدا کریں ۔ ایک اور کمیٹی نہایت اہمیت کی حامل ہو سکتی ہے کہ وہ ان جائزوں کے بعد دنیا بھر کو بھارت کے عزائم سے آگاہ کرنے کے لئے موثر کارروائی کرے ۔
یہ تمام کمیٹیاں سرکار بنائے، سہولتیں فراہم کرے، لیکن اعلی سرکاری افسراں کو ان کمیٹیوں سے دور رکھا جائے ۔ یہ افسران قواعد و ضوابط کے نام پر کام کم اورسست رفتاری سے کرتے ہیں جو وقت کا زیاں ثابت ہوتا ہے ۔ وقت کی ڈور ہمارے ہاتھ میںنہیں ہے اور ہماری دوڑ وقت کے مقابل ہے اور وقت ہے جو ہمارے ہاتھوں سے مکھن لگی رسی کی طرح نکلا جارہا ہے۔ مشرقی پاکستان کے وقت میں بھارت روس کو ہمنوا بنانے میں کامیاب رہا تھا ۔ ڈی پی دھر روس میں بھارتی سفیر تھے، جہاں سے انہیں اس وقت کی بھارت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے طلب کر کے فرد واحد پرمشتمل کمیٹی بنائی تھی ۔ وہ اتنے بااختیار تھے کہ مشرقی پاکستان کے معاملات میں ان کے فیصلوں پر عمل کرنے کے لئے فوج کے سربراہ بھی پابند تھے اور اب امریکہ افغانستان میں بھارت کے کردار پر مصر ہے۔ افغانستان میں بھارت کا کردار ، سوائے پاکستان کو تباہی سے دوچار کرنے کے کچھ اور نہیں ہو سکتا۔ دونوں وقتوں میں پاکستان کی خارجہ پالیسی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔
نکولو میکادلی مشہور اطالوی فلاسفر ہیں ۔ انہوں نے اپنی بے پناہ مشہور زمانہ کتاب ”دی پرنس“ میں ایک جگہ لکھا ہے کہ قسمت تغیر پذیر ہے اور انسان غیر متبدل۔ کامیابی اس وقت ہو تی ہے، جب دونوں میں مطابقت رہے،لیکن جہاں دونوں میں تنا ﺅہوا پھر ناکامی ہوتی ہے۔ احتیاط کرنے سے جان جو کھوں میں ڈالنا بہتر ہے۔ ایک اور جگہ وہ لکھتے ہیں ۔(ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ پاکستان کے حکمرانوں سے مخاطب ہیں )کہ ہمت کیجئے اور امید کو ہاتھ سے نہ جانے دیجئے، یہاں تک کہ آپ کے جھنڈے تلے اس ملک کے دن پھریں اور آپ کے زیر سر پرستی پٹراک کا یہ قول پورا ہو:
جس گھڑی مردانگی نے ہاتھ میں تلوار لی
وحشیان خیرہ سر ڈھونڈے نہ پائیں گے سفر
عہد پارینہ کے جنگی کارناموں کے سبب
آج بھی اٹلی کے سینے میں فروزاں ہیں شرر
(ختم شد) ٭