ایودھیا میں بابری جیسی کئی چھوٹی مساجد ہونے کا انکشاف، دو کی حالت خستہ

ایودھیا میں بابری جیسی کئی چھوٹی مساجد ہونے کا انکشاف، دو کی حالت خستہ
ایودھیا میں بابری جیسی کئی چھوٹی مساجد ہونے کا انکشاف، دو کی حالت خستہ

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

لکھنو (ویب ڈیسک) بھارتی ریاست اترپردیش کے شہر ایودھیا میں مغل دور کی معروف بابری مسجد جس کی تعمیر ریکارڈ کے مطابق 1528ءمیں شہنشاہ ظہیر الدین بابر کے ایک فوجی جنرل میر باقی نے کرائی تھی۔ ہندو انتہاپسندوں نے 1992ء میں شہید کر دیا لیکن اسی علاقے میں تین اور ایسی مساجد ہیں جنہیں بابر کے زمانے کا ہی بتایا جاتا ہے۔ بی بی سی کے مطابق ایودھیا میں بابری مسجد کی جگہ سے تھوڑے ہی فاصلے پر ’مسجد بیگم بل راس پور‘ ہے۔ اس کے آس پاس ہی درشن نگر علاقے میں بھی اسی طرز کی ایک اور مسجد ہے جس کا نام بھی ’مسجد بیگم بل راس پور‘ بتایا جاتا ہے۔ جس تیسری مسجد کو بابر کے زمانے کا بتایا جاتا ہے اس کا نام ’مسجد ممتاز شاہ‘ ہے اور یہ لکھنﺅ سے فیض آباد جانے والے راستے پر ممتاز شہر میں واقع ہے۔ سائز میں یہ تینوں مسجدیں اس سے کہیں چھوٹی ہیں لیکن ان میں کافی مماثلت بھی نظر آتی ہیں۔ جیسے کہ تینوں میں ایک بھی مینار نہیں جبکہ تینوں میں ایک بڑا اور دو چھوٹے گنبد ہیں جیسے کہ بابری مسجد میں تھے۔ لکھنو کے ممتاز مورخ روہن تقی کہتے ہیں کہ صرف یہی تین نہیں بلکہ پورے علاقے میں بہت مسجدیں اسی زمانے کی ملیں گی جو ایک دوسرے سے کافی ملتی جلتی ہیں۔

روزنامہ پاکستان کی اینڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں

انہوں نے کہا: ’ان تمام مسجدوں کی ساخت میں دو چیزیں خاص ہیں اور وہ ہیں میناروں کا نہ ہونا اور تین گنبدوں کا ہونا۔ یہ مسجدیں اودھ کے نوابوں کا دور شروع ہونے سے بھی تقریباً 200 برس پہلے کی ہیں۔ غور کرنے والی بات یہ بھی ہے کہ آپ کو اس علاقے میں 16 ویں صدی کے آس پاس کی ہی مساجد زیادہ ملیں گی اور ان کی پہچان یہی ہے کہ گنبدوں کی تعداد یا تو ایک ہوگی یا تین یا پھر بعض میں پانچ گنبد ہوں گے۔ دو گنبد والی کوئی بھی مسجد نہیں ملے گی کیونکہ یہ دلی سلطنت کی طرز پر بنی تھیں۔‘ ان تینوں مسجدوں میں سے دو کی حالت خاصی خراب ہے اور صرف ممتاز نگر میں واقع مسجد ہی صاف ستھری اور سفیدی کی ہوئی دکھائی دی۔ ان مساجد کے آس پاس رہنے والے ہندو یا مسلمان خاندانوں کا بھی یہی خیال ہے کہ یہ بابری مسجد کے وقت کی ہی ہیں۔ گرچہ ان تینوں چھوٹی مساجد میں کوئی ایسا ریکارڈ نہیں ملتا جس میں لکھا ہو کہ انھیں کس نے اور کب بنوایا تھا۔ لیکن روہن تقی نے بتایا ’بابر کے جنرل میر باقی نے یہ مسجدیں بہت جلدی جلدی میں تعمیر کروائی تھیں کیونکہ جہاں جہاں فوجیں پڑاﺅ ڈالنے لگتی تھیں وہاں ہزاروں لوگ کچھ دنوں کے لئے قیام کرتے تھے۔ عبادت کے لیے جگہ چاہیے ہوتی تھی تو فوری طور پر مسجدوں کو تعمیر کروایا جاتا تھا۔ آپ کو فیض آباد سے جونپور کے درمیان ایسی کئی مساجد اس زمانے کی ملیں گی۔