خاک و خوں میں مل رہا ہے ترکمانِ سخت کوش!
ٹرکش ملٹری کے پانچ چھ جرنیل ایک دیوار کے ساتھ فالن تھے۔ ان کے چہرے کیمروں کی طرف تھے۔ آنکھوں سے پشیمانی کی بجائے حیرانی ٹپک رہی تھی۔ سب کے سب شب خوابی کے لباس میں ملبوس تھے یعنی اوپر ٹی شرٹ اور نیچے جین کہ ترک مردوں کا رات کا پہناوا یہی ہے۔ ان کو ان کے رینک کے حساب سے کھڑا گیا تھا۔ یعنی پہلے میجر جنرل، پھر لیفٹیننٹ جنرل اور پھر جنرل۔۔۔اسی طرح پہلے رئر ایڈمرل، پھر وائس ایڈمرل اور پھر ایڈمرل۔۔۔ وہ سب کیمروں کی طرف دیکھ رہے تھے۔ اچانک ایک آواز گرجی:
’’اپنا رینک، نام اور منصب بتاؤ‘‘
سب نے ایک ایک کرکے ایسا ہی کیا۔ چونکہ رینک اور منصب (تقرری) کی زباں ترکی تھی اس لئے ویڈیو کلپ کی سکرین پر انگریزی زبان میں بھی یہ تفصیلات ابھر رہی تھیں۔ایک فورسٹار جنرل کے دائیں کان پرسفید روئی کا ’’پنبہ‘‘ چپکا ہوا تھا، دوسرے کی ناک پر زخم آیا تھا، آنکھوں کے نیچے گھونسوں کے نیلے نیلے نشانات نظر آ رہے تھے اور سر پر خون آلود پٹیاں بندھی ہوئی تھیں۔جب یہ شناخت پریڈ ختم ہوئی تو سب کو حکم دیا گیا کہ ساتھ والے دروازے کے اندر داخل ہو جاؤ۔ دروازہ تنگ تھا اور اس میں سے ایک وقت میں صرف ایک ہی آدمی گزر سکتا تھا۔ جب یہ قطار اندر جانے کے لئے دائیں طرف مڑی تو میں نے دیکھا کہ سب کے ہاتھ پیچھے بندھے ہوئے تھے اور ان میں ہتھکڑی (Zipcuff) لگی ہوئی تھی۔ یہ ہتھکڑی کی ایک جدید قسم ہے جو سخت پلاسٹک کی بنی ہوتی ہے، اس کی چابی نہیں ہوتی اور یہ صرف ایک بار ہی استعمال کی جا سکتی ہے۔ اس کو کھولنا ہو تو کڑ (Cutter) سے کاٹنا پڑتا ہے:
جب یہ کھیپ کمرے کے اندر چلی گئی تو وہی پہلے والی آواز پھر گرجی:
’’Next؟‘‘
اس کھیپ میں چھ جرنیل اور تھے۔انہوں نے بھی اپنا رینک، نام اور منصب بتانے کی ڈرل پوری کی اور ان کو بھی اسی کمرے میں ایک ایک کرکے بھیج دیا گیا۔ان کے ہاتھ بھی پہلے گروپ کی طرح پیچھے بندھے ہوئے تھے اور زِپ کفڈ(Zipcuffed) تھے۔ معلوم ہو رہا تھا کہ ان کو آدھی رات کے وقت یا علی الصبح ان کے گھروں سے چھاپہ مار کر گرفتار کیا گیا ہے۔چونکہ سب شب خوابی کے لباس میں تھے اس لئے تصور کیا جا سکتا ہے کہ چھاپہ مار پارٹی نے ان کے گھروں کے محافظوں کے ساتھ کیا سلوک کیا ہوگا، ان کے دروازے C-4 پلاسٹک بارود لگا کر کیسے کھولے ہوں گے، بچوں اور مستورات کو رات گئے کیسے جگایا ہوگا اور ان افسروں کو رات کے لباس ہی میں زمین پر اوندھا لٹا کر ہتھکڑیاں کیسے لگائی ہوں گی اور پھر ہانک کر ٹرکوں میں بٹھا کر اس جگہ کیسے لایا گیا ہوگا جہاں میڈیا کے لوگ منتظر رکھے گئے تھے۔ دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ میں یہ ویڈیو جاری کی گئی ہے اور میرے پاس جو کلپ ہے وہ صرف ایک ہی ہے۔ میرے دوستوں نے بتایا ہے کہ اس طرح کے کئی ویڈیو کلپ ’’وائرل‘‘ ہو چکی ہیں یعنی سوشل میڈیا پر جنگل کی آگ کی طرح پھیلا دی گئی ہیں۔آپ میں سے بہت سے قارئین نے بھی دیکھی ہوں گی اور اگر نہیں دیکھیں تو رات کو اپنے کسی ٹی وی چینل پر کسی ٹاک شو میں دیکھ لیجئے۔
اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ ترک مسلح افواج کے کسی چھوٹے سے گروپ نے بغاوت کی کوشش کی تھی تو اس کے نتیجے میں کسی بھی بڑی یا چھوٹی حکومتی یا سیاسی شخصیت کو گرفتارنہیں کیا گیا اور نہ ہی قتل کیا گیا۔ جیسا کہ ہم جان چکے ہیں چند درجن فوجی اور ان سے دگنے سویلین اس بغاوت میں مارے گئے۔ لیکن ترکی نے ایک معمولی سے باغی گروپ کو ایک بڑا اور خوفناک گروپ بنا کر کیوں پیش کیا ہے اس پر کل کے کالم میں اظہارِ خیال کر چکا ہوں۔ میرے نزدیک حکومت کی طرف سے اس شورش کو دبانے کے لئے ’’زائدا ز ضرورت‘‘ (Excessive) فورس کا استعمال کیا گیا ہے۔۔۔ اندازہ کیجئے کہ 6لاکھ کی ترک آرمی میں 9000ٹروپس کو حراست میں لے لیا گیا ہے، درجنوں جرنیلوں/ ایڈمرلوں کو قید و بند میں ڈالا گیا ہے،8000 پولیس اہلکاروں کو فارغ کر دیا گیا ہے اور ملک کے 81صوبوں میں سے 30صوبوں کے گورنروں کو سبکدوش کر دیا گیا ہے!۔۔۔ میرا خیال ہے کہ اگر آدھی ترک فوج بھی بغاوت کر دیتی اور یہ بغاوت ناکام ہو جاتی تو پھر بھی اس شدت کا ردعمل نہیں آنا چاہیے تھا بالخصوص اس تناظرمیں کہ یہ کُو مسلح افواج کی طرف سے لانچ کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔اس میں گورنروں اور پولیس اہلکاروں کا کیا قصور تھا؟
جن سینئر فوجی افسروں کی حراست کا ذکر کالم کی ابتدائی سطور میں کیا گیا ہے، وہ اگر واقعی بغاوت میں شریک ہوتے تو کیا ان گھروں میں آرام کی نیند سو رہے ہوتے کہ جہاں سے ان کو گرفتار کیا گیا تھا؟ میں نے آج تک کہیں یہ نہیں پڑھا (یا دیکھا) کہ کوئی باغی جنرل، بریگیڈیئر یا کرنل بغاوت میں ملوث ہونے کے باوجود، بغاوت کے وقوع کے دو روز بعد بھی اپنے گھر میں سویا ہوا ہو اور چھاپہ مار پارٹی کو بڑی آسانی سے گرفتاری دے دے۔۔۔ ترکی حکومت کو ان باغی افسروں کی بھی ایک فہرست جاری کر دینی چاہیے جو ابھی تک مفرور ہیں، ان ججوں کے نام بھی منظر عام پر لانے چاہیں جو سینکڑوں کی تعداد میں پکڑے گئے ہیں اور ان کی ویڈیوز بھی وائرل کو دینی چاہئیں اور میڈیا کی جن شخصیتوں کو گھروں سے نکال کر حوالہء زنداں کیا گیاہے، ان پر الزامات کی تفصیل بھی جاری کرنی چاہیے۔کسی بھی برسراقتدار سیاسی جماعت کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ فوج، عدلیہ اور میڈیا کے ہزاروں لوگوں کو حراست میں لے کر ان کی تذلیل کرے کہ جن پر اس کو شک ہو کہ ان کا تعلق اپوزیشن سے ہے۔۔۔ جمہوری معاشروں میں ایسا کہیں بھی اور کبھی بھی نہیں ہوتا۔
اسی لئے کل امریکہ کے وزیر خارجہ جان کیری نے اردوان حکومت کو سرزنش کی ہے کہ انہوں نے جمہوری اقدار کی پاسداری نہ کی تو ترکی کو ناٹو سے نکالا بھی جا سکتا ہے۔۔۔ یورپی یونین کے اراکین کی تعداد 28 تھی جو برطانیہ کے الگ ہو جانے کے بعد اب 27رہ گئی ہے۔ ترکی ایک طویل عرصے سے یورپی یونین کا رکن بننے کے لئے ہاتھ پاؤں مارتا رہا ہے اور آج بھی اس کا ذوق و شوق کم نہیں ہوا ۔ سوموار کو یورپی یونین کی طرف سے اس تنظیم کی خارجہ اور سیکیورٹی امور کی انچارج فیڈریکا موغورینی (Federica Mogherini) نے ایک بیان میں ترکی کو خبردار کیا ہے کہ ’’یونین کے ہر رکن پر لازم ہے کہ وہ اپنے ملک کے قوانین کی پیروی کرے اور صورت حال جو بھی ہو، اِن قوانین کے دائرے سے باہر نہ نکلے‘‘۔۔۔ فیڈریکا کو یہ ’’چتاؤنی‘‘ دینے کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ صدر اردوان نے ایسے بیانات بھی دیئے ہیں جن میں ملک میں سزائے موت کی بحالی کا ذکر کیا گیا ہے۔ یورپ کے کسی بھی ملک میں سزائے موت دینے کا کوئی قانون رائج نہیں۔ ترکی میں بھی یہی قانون مروج ہے لیکن اس فوجی بغاوت میں جن افراد (فوجیوں، پولیس والوں، ججوں اور میڈیا سے وابستہ لوگوں) کو حراست میں لیا گیا ہے، ان سب کو موت کے گھاٹ اتار دیئے جانے کا قانون نافذ کرنے کی حمائت کی جا رہی ہے۔ تاہم ابھی یہ معاملہ زیر غور ہے لیکن ترک پارلیمنٹ میں چونکہ AK پارٹی کی اکثریت ہے اس لئے اگر پارٹی چاہے تو 9000 (فوجیوں، ججوں، میڈیا پرسنز) 8000پولیس اہلکاروں اور 30صوبائی گورنروں کو پھانسی پر لٹکا سکتی ہے یا فائرنگ سکواڈ کے سامنے کھڑا کرکے ہلاک کر سکتی ہے۔
اسی طرح ناٹو اراکین کی تعداد بھی 28 ہے اور ترکی اس کا ایک اہم رکن ہے۔ جان کیری بار بار خبردار کررہے ہیں کہ اردوان حکومت کو برداشت اور رواداری کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور اندھا دھند مقدمے چلا کر سخت سزائیں نہیں دینی چاہئیں۔ تین روز پہلے ترک حکومت نے ایک بیان جاری کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ بغاوت کرنے والے معاشرے کا کینسر ہیں جن کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا ضروری ہو گیا ہے۔۔۔ اسی بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے امریکی وزیر خارجہ نے یہ بھی کہا تھا کہ ان کی بات ترک وزیر خارجہ سے ہوئی ہے اور انہوں نے یقین دلایا ہے کہ وہ جمہوری اقدار کی پاسداری کریں گے۔ لیکن کیری نے ساتھ ہی یہ بھی کہا: ’’ہم ترک ایکشن کو مانیٹر کر رہے ہیں۔ ہمیں معلوم ہوا ہے کہ ہزاروں لوگ گرفتار کر لئے گئے ہیں اور ان کو گرفتار کرنے میں نہایت عجلت کا مظاہرہ کیا گیا ہے۔ آنے والے ایام میں ہماری مانیٹرنگ اور تجزیئے کا یہ لیول ایک اہم رول ادا کرے گا۔ مجھے امید ہے کہ ہم تعمیری اقدامات کی طرف بڑھیں گے اور ماضی کے تاریک ایام کا رخ نہیں کریں گے۔‘‘
جان کیری کو یہ سخت اور کڑوا کسیلا بیان جاری کرنے کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ ترک قیادت اپنے بیانات میں اس امر کا انکشاف کر چکی ہے کہ امریکہ کو اس کُو کی پیشگی اطلاع تھی جسے اس نے ہمارے ساتھ شیئر نہیں کیا۔۔۔ دوسری وجہِ نزاع فتح اللہ گولن کا کیس ہے جس کے بارے میں ترک حکومت کا کہنا ہے کہ اگر امریکہ، ترکوں کا دوست ہے تو اس ’’ترک دشمن گولن‘‘ کو اپنے ملک سے نکال کر ہمارے حوالے کرے۔
دیکھتے ہیں اس فوجی بغاوت کے فیصلے کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ لیکن ایک بات بہت واضح ہے کہ ترک افواج میں باہمی دشمنی کی دڑاڑیں اتنی وسیع ہو گئی ہیں کہ ان کو مستقبل قریب میں نہ پاٹنا ممکن ہوگا اور نہ ان کو بھرا جا سکے گا۔ فوج کے سینئر افسروں کو اگرسیک بھی کرنا تھا تو ان پر مقدمہ چلایا جاتا، ان کے جرائم کی شہادتیں سامنے لائی جاتیں، ملک کے باغی عناصر سے ان کے روابط کے ثبوت فراہم کئے جاتے اور پھر ان کو عدالت کی طرف سے جو سزا دی جاتی، اس پر عمل کیا جاتا۔ کوئی ثبوت/ شہادت ملنے سے پہلے اور کسی معروضی عدالتی فیصلے کا انتظار کرنے سے قبل، درجنوں جرنیلوں کی جو تضحیک اور تذلیل کی گئی ہے، وہ پوری ترک فوج کے مورال پر شدید طورپر اثر انداز ہوگی۔ ان زیرِ حراست سینئر افسروں نے مختلف یونٹیں اور فارمیشنیں کمانڈ کی ہوں گی جو آج بھی ترکی کے طول و عرض میں مقیم ہوں گی۔ اپنے سابق کمانڈنگ افسروں اور فارمیشن کمانڈروں کی یہ توہین اور یہ درگت دیکھ کر ان کے سینوں میں بغاوت کرنے کے ارمان دم نہیں توڑیں گے بلکہ زیادہ توانا ہوں گے۔۔۔۔ یہ توانائی آج نہیں تو آنے والے کل یا پرسوں میں بڑی شدت سے باہر نکلے گی اور پورے معاشرے کے امن و امان کو تہہ و بالا کر دے گی۔۔۔ خدا کرے ایسا نہ ہو لیکن ہم جو کچھ دیکھ رہے ہیں وہ ایسا ہونے ہی کے شواہد ہیں!