یوم الحاق پاکستان (2)
بھارتی فوج کشمیر میں اس وقت وہ تمام ممنوعہ ہتھیار استعمال کر رہی ہے،جو 2010ء میں جموں و کشمیر چھوڑ دو تحریک کے دوران استعمال کئے گئے تھے۔ سات سال قبل جموں و کشمیر چھوڑ دو تحریک شروع ہوئی تو بھارتی فوج اور سی آر پی ایف کو مہلک اور کیمیائی ہتھیاروں سے لیس کرتے ہوئے انہیں کروڑوں روپے مالیت کے دس ہزار سے زائد مرچی گرنیڈ فراہم کئے گئے ۔ اسی طرح اسرائیل کے تعاون سے فلسطین میں استعمال کئے جانے والے امریکی ساختہ مہلک ہتھیار بھی سیکیورٹی فورسز کو دیئے گئے جن میں سب سے خطرناک پمپ ایکشن گن (پی اے جی) تھی، جسے اگر نوے فٹ سے کم فاصلے سے فائر کیا جائے تو اس کی زد میں آنے والے شخص کی فوری جان جا سکتی ہے۔پی اے جی کے علاوہ پیپر بال لانچر(پی بی ایل) گنیں اور ٹیزر ایکس 26 پستول بھی تقسیم کئے گئے۔ اس طرح یہ بات بھی ریکارڈ پر ہے کہ جموں وکشمیر چھوڑ دو تحریک کے دوران ہی امریکی اسلحہ سازوں کے تیار کردہ خطرناک ہتھیاروں کی دو طیاروں پر مشتمل کھیپ سری نگر پہنچائی گئی، جس کی تصدیق سرینگر کے حساس ترین شمالی زون( ڈاؤن ٹاؤن) کے پولیس سربراہ شوکت حسین شاہ نے بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے بھی کی تھی۔ مقبوضہ کشمیر میں سیکیورٹی فورسز میں تقسیم کئے گئے ہتھیار پی اے جی کی بناوٹ عام شکاری بندوق کی طرح ہے، اس میں استعمال ہونے والے ہر کارتوس میں سخت ترین پلاسٹک کی 30گوٹیاں ہوتی ہیں،جو فائر کرنے پر نشانہ کے تقریباً 20 فٹ کے دائرے میں بکھر جاتی ہیں۔ یہ بندوق 300 فٹ تک نشانہ باندھ سکتی ہے۔ محکمہ صحت سے متعلقہ ماہرین کا کہنا ہے کہ کسی انسان کے جسم پر لگنے والی گولی کو آپریشن کے ذریعے نکالا جا سکتا ہے، مگر پی اے جی کے ریزے پورے جسم میں پھیل جاتے ہیں، جس کے لئے درجنوں آپریشن کرنا پڑ سکتے ہیں، اِس لئے یہ ہتھیار انتہائی مہلک تصور کیا جاتا ہے۔ پی اے جی کی طرح پی بی ایل میں مرچ اور دوسرے اجزا سے بنی گوٹیاں استعمال ہوتی ہیں۔ یہ بندوق ان گوٹیوں کو گیس کی مدد سے پھوڑتی ہے، جس سے گھنے دھوئیں کے بادل پیدا ہوتے ہیں اور ہجوم میں شامل لوگوں کا دم گھٹنے لگتا اور آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا جاتا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فورسز کو فراہم کئے گئے تیسرے خطرناک ہتھیار ٹیزر ایکس 26 پستول میں تانبے کی تار کے چھلے استعمال ہوتے ہیں۔ انگریزی کے حرف ڈبلیو کی بناوٹ کے یہ چھلے گولی کی رفتار سے چلتے ہیں، گیس کے دباؤ سے فائر ہونے والے ان چھلوں میں برقی رو پیدا ہوتی ہے، جس کی زد میں آنے والے کو بجلی کا شدید جھٹکا لگتا ہے اور وہ بے ہوش ہو جاتا ہے۔ ماہرین کے مطابق 21فٹ سے کم فاصلے سے اگر اسے فائر کیا جائے تو ان چھلوں کے لگنے سے انسان کی موت بھی ہو سکتی ہے۔
باخبر حلقوں کے مطابق بھارتی فورسز جموں وکشمیر چھوڑ دو تحریک کی طرح برہان وانی کی شہادت کے بعد مظاہروں کو روکنے کے لئے بھی یہ تمام ہتھیار استعمال کر رہی ہیں۔پیپر گیس جیسی مہلک آنسو گیس کے استعمال سے سینے کے امراض میں بہت زیادہ شدت پیدا ہوئی ہے اور عمر رسیدہ افراد کے پھیپھڑے کام کرنا چھوڑ رہے ہیں ۔ ایک رپورٹ کے مطابق پچھلے کچھ عرصے میں پیلٹ گنوں کا شکار ہونے والوں کی کثیر تعداد بینائی سے محروم ہو چکی ہے۔ پیلٹ گولیاں اصل میں آہنی بال بیئرنگ جیسی ہوتی ہیں، جنہیں ہائی ولاسٹی سے فائر کیا جاتا ہے۔ نزدیک سے فائر کرنے پر یہ ٹارگٹ کو چھلنی کر دیتی ہیں۔ چہرے پر ایک ساتھ 400گولیاں لگیں تو اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس کی تباہی کس قدر مہلک ہو گی۔افسوسناک امر یہ ہے کہ بھارتی فوج مودی سرکار کی سرپرستی میں مہلک ہتھیار استعمال کرتے ہوئے کشمیریوں کی نئی نسل کو اپاہج بنا رہی ہے، لیکن اقوام متحدہ اورسلامتی کونسل جیسے اداروں نے مکمل خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ کشمیری عوام پاکستان سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ ان کا مقدمہ دُنیا کے سامنے صحیح انداز میں پیش اور ہندوستان کی ریاستی دہشت گردی کو عالمی سطح پر بے نقاب کرے گا۔ ماضی میں ہندوستان کی جارحانہ پالیسیوں کے مقابلے میں موجود ہ حکومت کی طرف سے فدویانہ رویہ اختیا رکیا گیا اور کلبھوشن یادو جیسے راکے ایجنٹوں کی گرفتاری جیسے مسائل پربھی خاموشی اختیا رکی جاتی رہی، جس کے بہت زیادہ نقصانات ہوئے اور کشمیریوں کا اعتماد مجروح ہوا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس وقت کشمیر کے تازہ ترین حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے وزیراعظم نواز شریف سمیت تمام سیاستدان و حکومتی ذمہ داران کشمیری و پاکستانی قوم کے جذبات کی صحیح معنوں میں ترجمانی کریں۔اگرچہ حکومت کی جانب سے کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے 19جولائی کو یوم الحاق کشمیر منانے کا اعلان کیا گیا،چونکہ کشمیری پاکستان کو اپنا اصل وکیل سمجھتے ہیں،لہٰذا اس ان کی طرف سے محض ایک دو بیانات اور رسمی احتجاج کافی نہیں ہے۔ ہندوستان سے ہر قسم کے سفارتی و تجارتی تعلقات ختم کرنے چاہئیں اور اسے واضح پیغام دینا چاہئے کہ وہ مقبوضہ کشمیر سے اپنی آٹھ لاکھ فوج نکالے اور کشمیریوں کو ان کا حق خود ارادیت دے اگر وہ ظلم و ستم سے باز نہیں آتا تو پاکستان اپنے کشمیری بھائیوں کو غاصب بھارتی فوج کے پنجہ استبداد سے نجات دلانے کے لئے ہر قسم کی قربانی دینے کے لئے تیار ہے ۔ کشمیریوں کی قربانیاں انتہا کو پہنچی ہوئی ہیں، اِس لئے ہر قسم کی مصلحت پسندی کو ترک کر دینا چاہئے اور دُنیا بھر میں اپنے سفارت خانوں کو متحرک کرکے ہندوستان کی ریاستی دہشت گردی کو بین الاقوامی سطح پر بے نقاب کرنا چاہئے۔ اسی طرح فی الفور او آئی سی اور سلامتی کونسل کا اجلاس بُلا کر اس مسئلے کو پوری قوت سے اٹھانے کی ضرورت ہے۔
امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے صدام حسین پر کیمیائی ہتھیاروں کی موجودگی کا الزام عائد کیا اور عراق پر حملہ کرکے لاکھوں انسانوں کے خون کی ندیاں بہا دی گئیں،لیکن مقبوضہ کشمیر میں مودی سرکار کی سرپرستی میں نہتے کشمیریوں کی نسل کشی کے لئے کیمیائی مواد استعمال کیا جا رہا ہے، مگر دُنیا کے نام نہاد امن کے ٹھیکیداروں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی اور کوئی بھارت کا ہاتھ روکنے کے لئے تیا رنہیں ہے۔ اس وقت سب سے زیادہ ذمہ داری پاکستان کی ہے کہ وہ سعودی عرب اور ترکی جیسے اسلامی ممالک سمیت چین کو ساتھ ملا کرکشمیریوں پر ظلم و ستم کے خاتمے کے لئے مضبوط کردار ادا کرے۔ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے قومی سطح پر ابھی تک وہ جرأت مندانہ کردار ادا نہیں کیا گیا جو کرنا چاہیے تھا۔ چاہئے تو یہ تھا کہ پاکستان میں بھی وہی کیفیت اور ماحول نظر آتا جو کشمیر میں ہے، لیکن صورتِ حال ایسی نہیں ہے۔ صرف چند ایک جماعتوں نے ملک گیر سطح پر پروگراموں کا انعقاد کیا اور برہان وانی و دیگر شہداء کی غائبانہ نماز جنازہ ادا کی گئی۔دفاع پاکستان کونسل کی طرف سے 19جولائی کو لاہور میں بڑی شہدائے کشمیر کانفرنس کا انعقاد کیاگیا، جس میں قومی مذہبی ، سیاسی و کشمیری قیادت شریک ہوئی۔ کشمیر کی تحریک اس وقت زبردست عوامی رخ اختیارکر چکی ہے۔بھارتی فورسز نے انٹرنیٹ اور موبائل سروس بند کر رکھی ہے۔ کشمیریوں کو خوف و ہراس میں مبتلا کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں، لیکن اس سب کے باوجود جو لوگ پہلے کبھی میدان میں نہیں نکلے تھے، وہ بھی آج پتھر اُٹھا کر بھارتی فورسز کا مقابلہ کر رہے ہیں اور کشمیر کے گلی کوچوں میں کرفیوکی پابندیوں کو پاؤں تلے روندتے ہوئے پاکستانی پرچم لہرا جارہے ہیں۔ یہ صورتِ حال بہت زیادہ حوصلہ افزا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستانی سیاست دان آپس کی لڑائیاں ترک کر کے مسئلہ کشمیرکو ترجیح دیں۔ کشمیریوں کے حقوق کے لئے پوری دُنیا میں آواز بلند کریں۔ پاکستان میں انڈین فلمیں اور اس کے چینل فوری طور پر بند کئے جائیں۔ اسی طرح کشمیریوں کے خون پر آلو پیاز کی تجارت کے سلسلے بھی ختم ہونے چاہئیں۔ ان سے کشمیریوں کا اعتماد مجروح ہوتا ہے اور تحریک آزادی کو نقصان پہنچتا ہے۔ کشمیری قوم ہندوستان کی غلامی میں رہنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ سیدہ آسیہ اندرابی کی دس منٹ کی وہ گفتگو سننے کے لائق ہے، جس میں انہوں نے سات منٹ تک رو رو کر کشمیرکی حالت زار بیان کی اور پاکستانیوں کو اپنی مدد کے لئے پکارا ہے۔ ان کی ایک ایک بات دلوں کو چیرنے والی ہے۔ آج کشمیر کی مائیں، بہنیں اور بیٹیاں پکا ر پکار کر کہہ رہی ہیں کہ آخر کب ان کی عزتیں و عصمتیں محفوظ ہوں گے اور کون بھارتی دہشت گردوں کو اس درندگی سے روکے گا؟۔۔۔ ہمیں ان کی پکار پر لبیک کہتے ہوئے ان کی ہر ممکن مدد کرنا ہے۔ پاکستانی حکمرانوں کو مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے امریکہ، برطانیہ و یورپ کی طرف نہیں دیکھنا چاہئے اور نہ ہی ان سے کسی قسم کی امیدیں وابستہ کرنی چاہئیں۔ یہ مسلمانوں کے خیر خواہ نہیں، بلکہ یہی تو ان مسائل کو پیدا کرنے والے ہیں۔ ہمیں خود اپنے قدموں پر کھڑے ہونا اور دل و جان سے اپنا فرض ادا کر کے اللہ تعالیٰ کی مدد پر بھروسہ کرنا ہے۔ اسی سے ان شاء اللہ آسمانوں سے رحمتیں و برکتیں نازل ہوں گے اور کشمیر، فلسطین سمیت مسلمانوں کے دیگر مسائل حل ہوں گے۔ (ختم شد)