نگرانوں کی جانبداریاں اور قائدؒ کی ہدایات

نگرانوں کی جانبداریاں اور قائدؒ کی ہدایات
نگرانوں کی جانبداریاں اور قائدؒ کی ہدایات

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

پہلے بھی پنجاب اور سندھ کی نگران حکومتوں کو کوئی غیرجانبدارنہیں سمجھتا تھامگر نواز شریف کی آمد پر پنجاب حکومت کا بھانڈا تو مکّمل طور پر پھوٹ گیا ہے،پنجاب والے پروفیسر عسکر ی صاحب توقّع سے زیادہ کمزور نکلے،اور اصل نگرانوں کی تابعداری میں اس حد تک چلے گئے کہ غیر جانبداری کا نقاب اتار پھینکا اور الیکشن سے دس روز قبل ریلی نکالنے پر (جو انتخابی سرگرمیوں کا لازمی جزو ہوتا ہے اور تمام پارٹیاں جلوس اور ریلیاں نکال رہی ہیں )مسلم لیگ (ن)کے رہنماؤں اور ورکروں پر انسداد دہشت گردی کی دفعات کے تحت مقدمے درج کرا دیے۔

نگران وزیرِ اعلیٰ ،چیف سیکریٹری اور آئی جی نے آئین اور قانون کے مطابق فیصلہ کرنے کے بجائے کسی اور کی ہدایات کے آگے سر جھکا دیا۔پْرامن افراد کو گھروں میں گھس کر گرفتار کرنے کے احکامات یا اْن ورکروں کی پکڑ دھکڑ جنہوں نے کوئی جرم نہ کیا ہو Unlawfull احکامات کی تعر یف میں آتے ہیں۔

بانیٓ پاکستان اور بابائے قومؒ نے گورنر جنرل کی حیثیت سے چٹاگانگ اور پشاور میں سرکاری افسروں سے خطاب کرتے ہوئے بڑے واضح الفاظ میں انھیں ہدایت کی تھی کہ ’’حکومتیںآتی جاتی رہیں گی مگر تمہاری (سرکاری ملازموں کی)وفاداری صرف ریاستِ پاکستان کے ساتھ رہنی چاہیے، حکمران تمہیں کبھی غیر قانونی احکامات دیں تو تم ایسے احکامات ماننے کے پابند نہیں ہو‘‘۔

مسئلہ ذرا بھی مشکل نہیں تھا۔ چیف سیکریٹری اور آئی جی کو چاہیے تھا کہ وزیرِاعلیٰ کے بجائے ’’کہیں اور سے ‘‘ہدایات لینے کے بجائے معاملات اپنے ہاتھوں میں رکھتے۔

مسلم لیگی قیادت سے پرامن رہنے کی گارنٹی لیتے اور انھیں ریلی نکالنے سے نہ روکتے۔ میاں نوازشریف کو دیکھنے یا خطاب سننے کی اجازت نہ بھی ملتی توبھی لوگ ، شہباز شریف کا خطاب سن کر پرامن طور پرمنتشرہوجاتے۔مگر افسوس کہ پنجاب حکومت نے غیر جانبداری کا دامن چھوڑ دیا اور پکڑدھکڑ کا فرسودہ اور گھِسا پٹا طریقہ اپنا لیا۔
دعوے اور باتیں کرنا آسان ہے مگر قانون کی حکمرانی قائم کرنے کے لیے وقت کے حکمرانوں کو No کہنا مشکل۔ افسوس ہے کہ سب سے بڑے صوبے میں کوئی بھی سینئر افسر ایسا نہ نکلا جس نے قائدؒ کی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے غیرقانونی احکامات سن کر ناں کی۔پاکستانی قوم میں لاکھ خامیاں ہوں مگر یہ جذبوں سے سرشار اور بہادر قوم ہے جو بہادری کو پسند کرتی ہے اور دلیر لیڈروں کے ساتھ کھڑی ہوجاتی ہے۔

شریکِ حیات کو بسترِ مرگ پر چھوڑکر وطن لَوٹنے اور جیلوں اور کال کوٹھڑیوں کو قبول کرنے کا فیصلہ آسان نہیں تھا، گلاّں کرنیاں سوکھیاں(باتیں کرنی آسان ہیں )اپنے اوپر آئے تو پھر پتہ چلتا ہے۔

نازو نعم میں پلے ہوئے نوازشریف کے لیے بیگم کلثوم نواز کو اس حالت میں چھوڑ کر نہ صرف خود بلکہ بے گناہ بیٹی کو ساتھ لے کر پھولوں کی سیج پر پاؤں رکھنے کے لیے نہیں درِ زنداں میں داخل ہونے کے لیے آنا بڑا مشکل فیصلہ تھا، بلاشبہ نواز شریف کا بہت بڑا امتحان جس میں وہ سرخرو ہوا۔

پاکستان آنے کا مطلب اوکھے پینڈے تے لمیّاں راتاں یعنی دشوارگذار راستوں کا انتخاب تھا ،پوری پاکستانی قوم اور باہر کی دنیا کی نظریں لندن کی جانب لگی تھیں کہ پاکستان کی سب سے بڑی پارٹی کا قائد کیا فیصلہ کرتا ہے ،اْدھر نواز شریف اور اس کی بہادر بیٹی مریم لندن چھوڑ کر سوئے دار چل پڑے اور اِدھر زندہ دلانِ لاہور تمام تر رکاوٹوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے سڑکوں پر آگئے ،کئی دنوں کی پکڑ دھکڑ اور کنٹینروں کی رکاوٹیں ان کا راستہ نہ روک سکیں۔ پنجاب کے نوجوان پر عزم تھے۔
راستے بند کیے دیتے ہو دیوانوں کے
شہر میں ڈھیر نہ لگ جائیں گریبانوں کے
ایک اینکر نے سہ پہر تین بجے کہا تھا کہ صرف لوہاری میں پچاس ہزار سے زیادہ لوگ ہیں۔ نواز شریف نے غیر معمولی بہادری کا مظاہرہ کیا تو پنجاب کے عوام نے اس کے ساتھ کھڑے ہونے کا فیصلہ سنا دیا۔

ہر سیاسی پارٹی کے کارکن ریلیاں نکال رہے ہیں اور اپنے لیڈروں کا استقبال کر رہے ہیں،صرف ایک پارٹی پر پابندی کیوں ؟ اس سے نہ امن وامان کی صورتِ حال پیداہونے کا خدشہ تھانہ ہی سرکاری املاک کو نقصان پہنچنے کا خطرہ مگر انتظامی افسرانInitiativeلینے سے گھبراتے ہیں۔ وہ عوام پر اعتبار کر یں، عوام ان کے اشاروں کا احترام کریں گے۔ مگر انھوں نے عوام پر اعتماد کے بجائے دفعہ 144اور پکڑدھکڑ جیسے فرسودہ طریقوں پر انحصار کیا۔

سوال یہ ہے کہ عدالت نے سابق وزیر اعظم اور ان کی بیٹی کو سزا سنائی ہے ، نیب یا ایف آئی اے نے گرفتارکرکے جیل بھیج دیا۔مگر اسٹیبلشمنٹ کا اس سارے پراسیس سے کیا تعلق تھا؟ ان کی دلچسپی کیوں تھی ؟۔انھوں نے خود ’’ گرفتاری آپریشن ‘‘کی کمان کیوں سنبھال لی؟انھوں نے نگران وزیرِاعلیٰ کو بے دست وپا کر کے چیف سیکریٹری اور آئی جی کو خود احکامات جاری کرنے کیوں شروع کردیے؟۔

میں اپنے گرائیں جنرل باجوہ صاحب کی توجہ مبذول کرانا چاہوں گا کہ وہ اس کا نوٹس لیں کہ ایک عدالتی پراسیس کی تکمیل میں ان کے باوردی افسران کی مداخلت کس لیے تھی اور کس کے حکم پر تھی ؟جنرل صاحب پشاورمیں ہارون بلور کے جنازے پر جو نعرے لگتے رہے وہ آپ نے بھی سنے ہونگے۔میں تو سنکر بے حد تشویش میں مبتلاہوگیا ہوں،اب پنجاب میں لوگوں کا موڈ دیکھ کر خوف آنے لگا ہے۔

اس لیے کہ وطنِ عزیز کے بارے میں بھارت اور دیگر دشمنوں کے خطرناک عزائم بہت واضح ہیں۔ ہمارے ازلی دشمن کی فوج کو تعداد اور اسلحے میں جو برتری حاصل ہے وہ ہماری پاک فوج عوام کی پر جوش حمایت اور مدد سے پوری کرتی ہے لیکن اگر پنجاب کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کے خلاف جنگ شروع کردی جائے تو کیا وہ مدد اور حمایت برقرار رہیگی؟ کیا اِسوقت فوج متنازعہ بننے کی متحمل ہو سکتی ہے؟سوال یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کو ایک مقبول جماعت کے خلاف جنگ چھیڑنے کی ضرورت کیا ہے؟کونسی ایسی مجبوری ہے جسکی بناء پر ایسا کیا جارہا ہے؟یہ جنرل یحییٰ کی بدروحوں یا مشرف کی باقیات کی خواہش تو ہو سکتی ہے ادارے کی ضرورت ہرگز نہیں، ادارے کی ضرورت سوفیصد غیر سیاسی اور غیر جانبدار،رہنا ہے۔میں ملک کی سالمیت کے نام پر جنرل باجوہ سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ مداخلت کر کے اسے ختم کرائیں تاکہ پوری قوم خصوصاً پنجاب ، آزاد کشمیر اور جی بی جیسے حساّس علاقوں میں فوج کے بارے میں عوام کے اندر منفی جذبات پروان نہ چڑھیں۔دہشت گردی کے عفریت نے پھر سراٹھالیاہے فوج کے تمام وسائل ،وقت اور صلاحیتیں دہشت گردی کو کچلنے اور سرحدوں کی حفاظت کے لیے استعمال ہونی چاہئیں۔ چند افراد اپنی انا کی خاطر ملک کو نقصان پہنچانے کے درپے ہیں۔ مگر کسی شخص یا ادارے کی انا سے ملک کی سالمیت اور وقار کہیں زیادہ اہم ہے۔
جنرل مشرف نے فوج کو سیاست میں ملوّث کر لیا تو وہ پارٹی بن گئی اور پوری قوم کی حمایت اور تعاون سے محروم ہو گئی۔کچھ مہینوں بعد جنرل کیانی نے فوج کو سیاست سے الگ کرلیا تو فوج کو پھر پوری قوم کی حمایت حاصل ہو گئی۔ جنرل کیانی جانتے تھے کہ فوج کی سب سے بڑی طاقت اسلحہ نہیں قوم کی حمایت ہے،اس سرمائے کی ہر قیمت پر حفاظت کی جانی چاہیے۔

باجوہ صاحب! پاک فوج ہمارا قومی ادارہ ہے الیکشن سے پہلے آپ فوج کو مکّمل طور پر غیرجانبدار رہنے کی واضح ہدایات دیں۔سروس کے دوران کئی مواقع ایسے آئے جب راقم کو بھی غیرقانونی احکامات موصول ہوئے مگر اللہ تعالیٰ نے استقامت عطافرمائی اور ناچیز نے وہ احکامات نہ مانے۔پکڑ دھکڑ کے سلسلے میں صرف دوواقعات کا ذکر کرتاہوں۔

میں کوہاٹ میں ڈی آئی جی تھاجب بے نظیر بھٹو صاحبہ کا راولپنڈی میں جلسہ تھا اور کوہاٹ سے بھی ان کے ورکر جلسے میں شرکت کے لیے جارہے تھے۔اچانک پشاور سے ہدایت ملی کہ ’’اوپر والوں‘‘ کاحکم ہے کہ کوہاٹ سے ورکروں کو راولپنڈی نہ جانے دیاجائے مختلف جگہوں پر ناکے لگا کر انھیں روک لیا جائے۔

میں نے اوپر والوں کو جواب دیا کہ چند روز پہلے اے این پی کا بھی راولپنڈی میں جلسہ تھا اْس وقت بھی کوہاٹ سے لوگ گئے تھے۔اگر ایک پارٹی کے ورکروں کو اجازت دی گئی تھی اور انھیں روکا نہیں گیا تھا تو دوسر ی پارٹی کے ورکروں کو بھی نہیں روکا جائیگا،پولیس مکمل طورپر غیر جانبدار رہیگی۔جنرل مشرف نے جب ججوں کو نظر بند کر کے ایمرجنسی لگادی تو ردِّ عمل سے بچنے کے لیے ہر جگہ پکڑدھکڑ کے احکامات پہنچ گئے۔میں کوہاٹ میں ڈی آئی جی تھا۔

ہمارے ضلعوں کے ایس ایس پی صاحبان نے مجھ سے فون پر پوچھنا شروع کردیا کہ ’’سر ! ملٹری ایجنسیوں کے افسروں نے لسٹیں دی ہیں کہ ان لوگوں کو گرفتار کرنا ہے۔(لسٹوں میں کچھ وکلاء اور کچھ سیاسی ورکر شامل تھے)میں نے تمام ایس ایس پی صاحبان کو کسی بھی گرفتاری سے منع کر دیا اور واضح طور پر ہدایت کی کہ ’’ کسی پرامن شخص کو یا ایسے شخص کو جس نے کوئی جرم نہیں کیا، ہرگز گرفتار نہ کیا جائے‘‘ میڈیا حیران تھاکہ کوہاٹ ڈویڑن میں کوئی ایک بھی گرفتاری نہیں ہوئی۔

کئی دنوں بعد ڈسٹرکٹ بار کے صدر ملنے آئے،گرفتار نہ کرنے کا شکریہ اداکرتے ہوئے پوچھا کہ اوپر سے حکم کے باوجود آپ نے گرفتاریاں کیوں نہ کیں ؟میں نے کہا اوپر والوں سے بڑی اتھارٹی کے حکم پر! پوچھنے لگے وہ کون ہے؟ میں نے جواب دیا۔’’اس کا نام ہے بابائے قوم محمد علی جناحؒ ‘‘2014کے دھرنوں میں پی ٹی آئی اور عوامی تحریک کے کارکنوں کو روکنے کے لیے جگہ جگہ کنٹینر لگادیے گئے جس سے عام لوگ ایک عذاب میں مبتلا ہوگئے تھے،اْسی دوران کسی شہری نے فون کرکے مجھ سے پوچھا (میں اْن دنوں موٹروے پولیس کا آئی جی تھا)کہ ’’ہم بڑے پریشان ہیں سَارے رستے بند کردیے گئے ہیں ،کیا موٹروے بھی بند کردی گئی ہے؟‘‘ میں نے کہا ’’بالکل نہیں موٹروے تو ملک کی لائف لائن ہے یہ کھلی رہیگی‘‘اْس نے یہی بات پاس کھڑے کسی صحافی کو بتادی۔

اس نے میرے حوالے سے خبر شایع کردی ،شائد ٹی وی پر بھی یہی بات چل گئی۔اِس پر وزیرِداخلہ نے بڑی ناراضگی کا اظہارکیا اوروزیراعظم کے سامنے میری پیشی کرا دی۔

میں نے وہاں جاکر بھی یہی موقف اختیار کیا کہ کنٹینروں سے راستے بند کرنے سے عوام عذاب میں مبتلا ہیں ان حالات میں موٹروے کسی صورت بند نہیں ہونی چاہیے (اسکی تفصیل پھر کبھی لکھوں گا)۔ دوسری جانب خاموشی رہی اور موٹر وے مکمل طور پر کھلی رہی۔ (بشکریہ:۔ ایکسپریس، لاہور)

مزید :

رائے -کالم -