کپتان، بلاول سے گبھرا گئے، انتخابی مہم تیز!

کپتان، بلاول سے گبھرا گئے، انتخابی مہم تیز!
کپتان، بلاول سے گبھرا گئے، انتخابی مہم تیز!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ہمارے ملک میں پانی کا جو بحران ہے یا مزید سامنے آرہا ہے، اس حوالے سے اہم مسئلہ کی طرف توجہ دلانے کو جی چاہتا تھا، لیکن صبح صبح سیر کے بعد واپسی ہوئی تو ایک ساتھی نے معصومیت سے سوال کرکے توجہ ہی بٹادی اور آج پھر سیاسی حوالے ہی سے کچھ عرض کرنے کی جسارت کرلی ہے، ہمارے ساتھی نے دریافت کیا ’’کیا کپتان کو بھی کوئی خدشہ یا خطرہ ہے کہ وہ اب فتح کو مشکوک بنا رہا ہے‘‘ کسی اور نے لقمہ دیا کپتان خود ہی اپنی حزب اختلاف ہے، کسی دوسرے کو ضرورت نہیں کہ ان پر اعتراض کرے، وہ خود ہی اپنے پر بوجھ لاد لیتے ہیں بات یہ تھی کہ ہمارے کپتان نے یکایک عوام سے اپیل کردی کہ وہ 25 جولائی کو صبح صبح گھروں سے باہر نکلیں، یہ تو خیر والی بات ہے، لیکن ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ غلط غلط خبریں آرہی ہیں، اب ان کی اس سے کیا مراد اور ان کو کیا نظر آیا، یہ تو ہم بتانہیں سکتے لیکن تعجب ضرور ہے کہ کہاں کپتان وزیر اعظم بن چکے اور کہاں ان کو اب خطرناک خبریں ملنا شروع ہوگئی ہیں، اس سے پہلے بھی ان کے ایک بیان سے ہمیں حیرت ہوئی، وہ بلاول بھٹو زرداری پر طنز کرتے اور ان کو ’’بے بی بلاول‘‘ کہتے تھے، بلاول کی ایک دو ریلیوں کے بعد ہی ان کو نہ معلوم کیا خیال آیا کہ انہوں نے ’’بے بی بلاول‘‘ کو چیلنج کیا اور کہا ’’میرے مقابلے میں جلسہ کرکے دیکھو‘‘ اس کا تو یہی مطلب لیا جاسکتا ہے کہ کپتان بلاول کی ریلیوں سے متاثر ہوئے ہیں۔
کپتان درحقیقت طوفانی قسم کی انتخابی مہم چلا رہے ہیں، ان کا ایک قدم مشرق اور دوسرا مغرب میں ہوتا ہے، ایک نجی طیارہ اور ایک ہیلی کاپٹر ان کی صوابدید پر ہے وہ ایک سے اترتے اور دوسرے پر سوار ہو جاتے ہیں، تاہم گزشتہ دنوں ان کو کچھ مایوسی کا سامنا کرنا پڑا کہ ان کا پسندیدہ ٹھنڈا اور خوبصورت مقام (وادی نتھیا گلی) کچھ متاثر کن یاکپتان کے درجہ کے مطابق توجہ نہ دے سکا کہ انتخابی جلسے میں تحریک انصاف کی توقع سے کہیں کم لوگ تھے اور کچھ ایسا ہی حال جہلم کا بھی تھا، اس جلسے میں تعداد کا ذکر سوشل میڈیا پر تو سات سو حاضرین کا ہے، تاہم ٹیلیویژن پر جو نظر آیا اس کے مطابق کچھ زیادہ لوگ تھے اگرچہ پنڈال میں خالی کرسیاں واضح طور پر دکھائی دے رہی تھیں، اس ’’کامیاب جلسے‘‘ کا اندازہ کپتان کے پیچھے موجود قومی اسمبلی کے امیدوار فواد چودھری کے چہرے کے بدلتے ہوئے رنگ سے ہورہا تھا، جو اچک اچک کر جلسہ گاہ کی طرف دیکھ رہے تھے، کپتان اپنے جوشیلے لہجے ہی سے خطاب کرتے چلے جارہے تھے، شاید وہ محسوس ہی کرنا نہیں چاہتے تھے۔
جہاں تک انتخابی مہم کا تعلق ہے تو عام تاثر کپتان ہی کے حق میں تھا کہ ان کے لئے میدان خالی تھا لیکن اب صورت حال قدرے مختلف نظر آئی کہ مسلم لیگ (ن) نے بھی اپنی روائت کو برقرار رکھا اور ساق وزیر اعظم محمد نواز شریف کی سزا اور گرفتاری کے بعد جو مختصر وقفہ آیا، اس کی کمی مسلسل جلسوں سے پوری کی گئی اور محمد شہباز شریف ضلع ضلع گھوم کر پر جوش خطاب کررہے ہیں۔
اس کے ساتھ ہی پیپلز پارٹی نے اپنی حکمت عملی تبدیل کی، آصف علی زرداری نے اپنے صاحبزادے بلاول بھٹو زرداری پر مکمل اعتماد کیا اور انہوں نے ایک طویل ریلی کی شکل میں انتخابی مہم شروع کردی ابتدا میں حالت یہ تھی کہ ’’ جنگل میں مورناچا کس نے دیکھا‘‘ کہ ٹی، وی کوریج نہیں ہورہی تھی اور بالآخر پی پی کو بھی جیب ڈھیلی کرنا پڑی، جب (Paid Political Contents) چلے تو کوریج بھی باہر آگئی اور دیکھا گیا کہ بلاول کو عوام کی طرف سے پرجوش جواب ملا، ان کی ریلیاں کامیاب ہوئیں اور ان کے خطاب سے لوگ متاثر ہوئے کہ انہوں نے کسی بھی لمحے کوئی بدتہذیبی نہیں کی، طنز بھی کی تو شائستہ تھی، بلکہ وہ مسلسل یہ کہتے چلے آرہے ہیں کہ گالی کی زبان اچھی نہیں، یہ خلاف تہذیب ہے ہم نے بعض حضرات سے پوچھا تو ان کا جواب مثبت تھا وہ قائل ہوئے کہ بلاول کو عوامی مقبولیت حاصل ہے، تاہم تبادلہ خیال میں یہ رائے تھی کہ بلاول نے ذرا تاخیر کی ہے کہ رائے وہندگان متاثر تو ضرور ہوئے ہیں لیکن اس سے انتخابی نتائج پر زیادہ فرق پڑنے کا امکان نہیں کہ میڈیا اب تک بھی صرف مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف ہی کو اہمیت دے رہا ہے، اگرچہ بلاول کی طوفانی انتخابی مہم بھی بہت متاثر کن ہے، ایک ثقہ رائے یہ بھی ہے کہ آصف علی زرداری نے بلاول بھٹو کو تاخیر سے کھلے میدان میں اتارا ہے، اگرچہ آصف علی زرداری کے پاس اس کا بھی جواز ہے لیکن نتائج کے اعتبار سے یہی رائے بہتر لگی کہ کچھ تاخیر ہوگئی، بہر حال بلاول کی مہم نے پیپلز پارٹی کو اس حد تک فائدہ تو پہنچایا ہے کہ جو جیالے گھروں میں بیٹھ گئے تھے وہ ان کی تقریر سننے اور ان کو دیکھنے آئے تو روائتی رنگ میں بھی رنگے گئے بلاول بھٹو زرداری کی اس انتخابی مہم کا فائدہ مسلم لیگ (ن) کو ہوگا کہ جو ووٹ (ن) مخالف اور تحریک انصاف کو جارہے تھے وہ اب پیپلز پارٹی کو واپس آجائیں گے اور تحریک انصاف والوں کی تعداد گھٹ جائے گی، یوں بھی الیکشن کمشن کی طرف سے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کے حوالے سے نوٹس لے کر کپتان کو طلب کرنے کے فیصلے سے بھی بہت سے کلیجے ٹھنڈے ہوئے اور عوام نے بھی اس عمل کو پسند کیا ہے، اگرچہ کپتان اس نوٹس کو درخور اعتنا نہیں سمجھ رہے اور نہ ہی انہوں نے ہیلی کاپٹر کیس میں ’’نیب‘‘ کو کوئی اہمیت دی ہے۔
اس وقت عام تاثر اور عوامی سطح پر جو نتائج اخذ کئے جارہے ہیں، وہ کچھ زیادہ مختلف نہیں کہ سندھ میں گو پیپلز پارٹی کے خلاف محاذ بن گئے لیکن نتائج اس کے حق میں ہوں گے اور کراچی سے بھی قومی اسمبلی کی تین سے پانچ تک نشستیں مل سکیں گی، پنجاب میں حالات اچھے نہیں تھے تاہم بلاول کی انتخابی مہم نے بعض ’’الیکٹ ایبل‘‘ کی کامیابی کے امکان میں اضافہ کردیا ہے اور یہاں سے بھی کچھ حصہ مل جائے گا اور کے پی کے سے دال دلیا ہوگا، بلوچستان سے بھی ایک آدھ نشست مل ہی جائے گی، یوں نتائج سندھ، پنجاب، کے،پی، کے اور بلوچستان جیسے ہی ہوں گے، آگے جو فیصلہ ہوگا وہ 25جولائی کی شب سامنے آجائے گا۔

مزید :

رائے -کالم -