نگران وزیراعلیٰ کے بلند بانگ دعوے اور حالیہ کارکردگی

نگران وزیراعلیٰ کے بلند بانگ دعوے اور حالیہ کارکردگی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

پنجاب کے نگران وزیراعلیٰ ڈاکٹر حسن عسکری رضوی نے کہا ہے کہ انتخابی مہم اور پولنگ ڈے پر بہترین سیکیورٹی انتظامات یقینی بنائیں گے، سرکردہ سیاسی رہنماؤں کو باکس سیکیورٹی فراہم کی جائے گی،ضابط�ۂ اخلاق پر عملدرآمد کے حوالے سے سیاسی جماعتوں اور امیدوروں کے ساتھ مشاورت کا عمل بھی جاری رہے گا۔ساہیوال، سرگودھا،فیصل آباد ڈویژنوں میں قائم مجموعی طور پر14ہزار سے زائد پولنگ سٹیشنوں کی ڈیجیٹل مانیٹرنگ کا میکانزم تشکیل دیا گیا ہے اور سی سی ٹی وی کے ذریعے کلوز مانیٹرنگ کی جائے گی، ہوائی فائرنگ اور آتش بازی کی کسی صورت اجازت نہیں دی جائے گی، پولنگ ڈے پر بجلی کی بلا تعطل فراہمی ضروری امر ہے، انہوں نے کہا کہ صوبہ بھر کے سول سرونٹس اپنی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کا غیر جانبدارانہ مظاہرہ کریں اور الیکشن جیسی قومی خدمت میں حصہ بٹائیں، کیونکہ آزادانہ اور شفاف انتخابات ڈیوٹی ہی نہیں،بلکہ قومی ذمے داری ہے، وہ فیصل آباد میں تینوں ڈویژنوں کے کمشنروں اور آر پی اوز کے اجلاس سے خطاب کر رہے تھے۔
ڈاکٹر حسن عسکری رضوی نے اِس طرح کے سنہری خیالات کا اظہار کوئی پہلی مرتبہ نہیں کیا، وہ جب سے اِس منصب پر فروکش ہوئے ہیں، ہر دوسرے تیسرے روز اِسی طرح کے قیمتی خیالات کا اظہار کرتے رہتے ہیں وہ یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ اُن کی کارکردگی اتنی اعلیٰ ہو گی کہ مخالفین بھی اس کی داد دیئے بغیر نہیں رہ سکیں گے۔ ممکن ہے اُن کے ارادے اِسی طرح ہی بُلند ہوں ،لیکن13جولائی کو اُن کی انتظامیہ نے لاہور اور پنجاب میں جس حُسنِ کارکردگی کا مظاہرہ کیا اُس کی داد کسی صورت نہیں دی جا سکتی،جو کام تھوڑی سی محنت اور اس سے بھی کم دانش کے استعمال بہت بہتر طریقے اور خوش اسلوبی سے کیا جا سکتا تھا وہ پنجاب کی انتظامیہ نے اتنے بُرے، بھدے اور محلِ نظر انداز میں کیا کہ اُن کی حکومت کے حامی بھی حیران و ششدر رہ گئے اور یہ سوال کرتے پائے گئے، ’’یہی شہکار ہے تیرے ہُنر کا‘‘۔ پورے لاہور کو کنٹینر لگا کر ایک ایسے شہر میں تبدیل کر دیا گیا جو ٹکڑیوں میں بٹ گیا اور پوری کی پوری آبادیاں ایک دوسرے سے کٹ کر رہ گئیں۔یہ سب کچھ ایک ریلی کو روکنے کے نام پر ہوا جو مسلم لیگ(ن) اپنے قائد نواز شریف کے استقبال کے لئے ایئر پورٹ تک (یا اس کے قریب کسی علاقے تک) نکالنا چاہتی تھی، بیرونِ شہر سے آنے والے تمام راستے بند کر کے لاہور کو محصور شہر بنا دیا گیا،موبائل اور انٹرنیٹ سروس بارہ گھنٹے تک بند رکھی گئی۔ یہ سب کچھ لاہور شہر میں ہو رہا تھا،جبکہ لاہور ایئر پورٹ پر جہاں نواز شریف کا طیارہ اُترنے والا تھا اُنہیں گرفتار کر کے دوسرے طیارے میں سوار کرنے کا پورا انتظام تھا، اس لحاظ سے باہر کا کوئی ایونٹ ایئر پورٹ کے اندر کے انتظامات کو کسی طرح متاثر نہیں کر سکتا تھا، لیکن کرفیو جیسی صورتِ حال پیدا کر کے اُن کی حکومت نے اپنی بے تدبیری پوری طرح واضح کر دی۔ اب اگر پولنگ ڈے پر بھی ایسے ہی کسی انتظامات کا تصور اُن کے ذہن میں ہے تو پیشگی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ کیسے انتظامات ہوں گے۔
افسر ریاست کے ملازم ہوتے ہیں، حکومتوں کی سیاسی ترجیحات سے اُن کا کوئی تعلق نہیں ہوتا اور نہ ہونا چاہئے، وہ ریاست کے خزانے اور عوام کے ٹیکسوں سے تنخواہ لیتے ہیں۔ اُن کا کام عوام کے لئے آسانیاں پیدا کرنا ہے، مشکلات پیدا کرنا نہیں،وہ صرف اُن احکامات کے پابند ہوتے ہیں جو قانونی طور پر اُنہیں دیئے جاتے ہیں،غیر قانونی احکامات کی بجا آوری اُن کے لئے ضروری نہیں ہوتی اور اگر اُنہیں کوئی ایسا حکم دیا جائے تو وہ سلیقے سے معذرت کر سکتے ہیں،لیکن13جولائی کو اُن کی انتظامیہ نے ثابت کیا کہ وہ پوری طرح جانبدار ہے اور ایسے احکامات کی بجا آوری میں جُتی ہوئی ہے، جو غیر قانونی ہیں،ان تلخ تجربات کے بعد اب ڈاکٹر حسن عسکری کی قانون کی عملداری کی باتوں پر یقین تو نہیں آتا تاہم وہ چونکہ حاکم ہیں اِس لئے اُن کے حکم کو مرگِ مفاجات کے طور پر لینا بھی مجبوری ہے۔ ممکن ہے وہ جو کہہ رہے ہیں،اسے درست ثابت کر دکھائیں،لیکن اب تک اُن کے کسی بھی عمل سے اِس کی شہادت نہیں ملتی۔
پنجاب میں ایسی شکایات عام مل رہی ہیں کہ آج بھی بعض امیدواروں اور اُن کے حامیوں کو پُراسرار ٹیلی فون کالوں کے ذریعے ہراساں کیا جا رہا ہے،ناپسندیدہ امیدواروں کے حامیوں کو اُن کے ’’اپنے مفاد میں‘‘ مشورہ دیا جا رہا ہے کہ وہ اِس امیدوار کی حمایت ترک کر کے کسی بھی دوسری جماعت کے امیدوار کی حمایت کریں۔ اس طرح جو ’’ترجیحات‘‘ بتائی جا رہی ہیں اُن کا مقصد یہ ہے کہ یہ لوگ اُن جماعتوں کو ووٹ دے کر اپنا ووٹ ضائع کر دیں، جن کی جیت کا تو کوئی امکان نہیں، لیکن سینکڑوں کی تعداد میں ان امیدواروں کو انتخابی مہم چلانے کی کھلی آزادی ہے۔وہ اپنی تقریروں میں ایسے وعدے بھی کر رہے ہیں،جو ظاہر ہے اِسی صورت ہی پورے ہو سکتے ہیں،جب اُن کی حکومت بنے یا کم از کم وہ کسی حکومت کا حصہ بنیں، لیکن ان ہونہاروں کے ’’چکنے چکنے پاتوں‘‘ سے ہی پتہ چل رہا ہے کہ تین چار سو میں سے ایک دو کی کامیابی کا بھی امکان نہیں ایسے میں کوئی اُن سے پوچھے کہ وہ جس ’’اسلامی بلاک‘‘ بنانے کا وعدہ کر رہے ہیں اُس کی عملی شکل کیا ہو گی؟ اور ان کا کوئی ایک رکن خارجہ پالیسی پر کس طرح اثر انداز ہو گا اُن کی تقریروں سے پتہ چلتا ہے کہ وہ ایک شارٹ ٹرم ضرورت کے تحت تخلیق کئے گئے ہیں،اس کے بعد وہ سب کچھ بھول بھلا کر اپنی دوسری سرگرمیوں میں پہلے کی طرح مگن ہو جائیں گے۔ الیکشن کمیشن اور نگران حکومتوں کا فرض تھا کہ وہ اِن معاملات پر توجہ دے کر انتخابات کو شفاف، غیر جانبدار اور آزادانہ بنانے کی کوشش کرتیں،لیکن اُن کے اقدامات سے یہ انتخابات اپنے انعقاد سے پہلے ہی اتنے متنازع بن چکے ہیں کہ ان کے نتیجے میں بننے والی پارلیمینٹ اور حکومت کا وقار ابھی سے سوالیہ نشان بنتا نظر آتا ہے۔ اس سب کچھ کے باوجود ڈاکٹر حسن عسکری اگر بلند بانگ دعوے کر رہے ہیں تو اگلے چند دن میں ان کی اصلیت بھی سامنے آ جائے گی،دیکھیں انہوں نے سول افسروں کو غیر جانبداری کی، جو تلقین کی ہے اس کا اظہار اب کِس صورت میں ہوتا ہے۔

مزید :

رائے -اداریہ -