سندھ کا مہاجر ووٹ

سندھ کا مہاجر ووٹ
سندھ کا مہاجر ووٹ

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

قومی انتخابات کے لئے پولنگ سر پر ہیں۔ سندھ میں پیپلز پارٹی، فنکشنل لیگ اور دیگر جماعتوں پر مشتمل گرینڈ ڈیمو کرٹک آلائنس (جی ڈی اے)، پاکستان مسلم لیگ ن ، متحدہ مجلس عمل، ایم کیو ایم، پاک سر زمین پارٹی، پاکستان تحریک انصاف، سنی تحریک، تحریک لبیک، اللہ اکبر تحریک، و دیگر سیاسی جماعتوں کے علاوہ سینکڑوں آزاد امید وار قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں کے لئے امیدوار ہیں۔

سندھ سے قومی اسمبلی کے لئے 61 عام نشستیں ہیں جب کہ صوبائی اسمبلی کی عام انتخابات میں 130نشستیں ہیں اور ووٹروں کی کل تعداد دو کروڑ چوبیس لاکھ ہے۔ صوبہ کے طول و عرض میں پارٹیاں کتنا ووٹ حاصل کرتی ہیں یہ تو 25 جولائی کو پولنگ کے بعد ہی سامنے آئے گا۔

البتہ سب کی نگاہیں مہاجر ووٹ کی طرف ہیں ۔ وہ یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ مہاجر ووٹ کتنا اور کس انداز میں تقسیم ہوتا ہے۔ مہاجر ووٹ کے سب ہی متمنی بھی ہیں۔ ایم کیو ایم کا خیال ہے کہ سارا ووٹ اسے ملے گا۔ پاک سر زمین پارٹی توقع رکھتی ہے کہ یہ ووٹ اسے ملنا چاہئے۔ کئی حلقوں میں پیپلز پارٹی بھی اس ووٹ کو حاصل کرنا چاہتی ہے۔ اسی طرح مسلم لیگ ن، متحدہ مجلس عمل، تحریک انصاف، اور دیگر جماعتیں بھی اس ووٹ کے حصول میں سرگرداں ہیں۔ 1988ء سے لے کر 2013ء تک ہونے والے انتخابات میں مہاجر ووٹ عمومی اکثریت میں ایم کیو ایم کے امیدواروں کو جاتا رہا ہے۔

22 اگست 2016ء کے بعد کی صورت حال جس میں ایم کیو ایم پاکستان وجود میں آئی اور ایم کیو ایم لندن ایک علیحدہ شناخت بن گئی ۔ اس کے بعد مہاجر ووٹ کی تقسیم یقینی تھی لیکن جوں جوں پولنگ کا دن قریب آرہا ہے ، مہاجر ووٹ کی بظاہر تقسیم نظر نہیں آتی ہے۔

چند ہفتوں قبل تک سیاسی مبصرین کے اندازے تھے کہ مہاجر ووٹ ایم کیوایم ، پاک سر زمین پارٹی، متحدہ مجلس عمل ، پیپلز پارٹی کے درمیاں تقسیم ہو سکتا ہے۔ اس میں ووٹوں کا ایک تناسب ایسا بھی تھا جسے سیاسی مبصرین ٹی وی کا ووٹ قرار دے رہے تھے کہ ووٹر گھر سے ہی نہیں نکلے گا اور ٹی وی کے سامنے بیٹھا رہے گا۔

انتخابی مہم کو جس انداز میں محدود کیا گیا اور راتوں رات امیدواروں کے بینر اور پینا فلیکس تک اتار لئے گئے، اس کے بعد مہاجر ووٹ کچھ مختلف انداز سے سوچنے لگا۔ ایسا لگتا ہے کہ انہیں 22 اگست کے بعد کی صورت حال میں وہ ایم کیو ایم ہی قبول ہے جس کا انتخابی نشان پتنگ ہو۔
ویسے بھی کراچی حیدرآباد اور دیگر شہروں میں رہنے والا اردو داں طبقہ ایوب خان کے دور سے حکمران وقت یا ایسٹبلشمنٹ مخالف ووٹ رہا ہے۔ مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح نے کراچی اور ڈھاکہ سے صدارتی انتخابات میں ایوب خان کو شکست دی تھی، حیدرآباد میں اس وقت کے حکومت کے حامی عناصر کے تمام تر حربوں کے باوجود ایوب خان اور مادر ملت کے ووٹ برابر رہے تھے۔ کراچی میں گوہر ایوب کے جشن فتح کے موقع پر لیاقت آباد میں فائرنگ کے واقعات نے مہاجروں کو ایوب حکومت سے مزید بر گشتہ کر دیا تھا۔
سندھ میں سیاسی صورت حال اور مہاجر ووٹ کے بارے میں ابتداء سے نہ سہی لیکن 1970ء سے سمجھنا ضروری ہے۔ 1970ء کے انتخابات میں سندھ میں عمومی طور ہر غیر سندھی ووٹ اور خصوصی طور پر مہاجر ووٹ کی بھاری اکثریت پیپلز پارٹی کے خلاف تھی۔ مہاجر ووٹ مسلم لیگ کونسل، مسلم لیگ قیوم، کنونشن مسلم لیگ، جماعت اسلامی، جمیعت علماء پاکستان ، پیپلز پارٹی اور آزاد امیدواروں کے درمیاں تقسیم ہوا تھا۔ 1970ء کے انتخابی نتائج کے مطابق ترپن لاکھ سے زائد رجسٹرڈ ووٹوں میں سے تیس لاکھ ووٹ ڈالے گئے تھے ۔

پیپلز پارٹی نے صوبائی اسمبلی کے لئے ساٹھ عام نشستوں میں سے28حاصل کی تھیں اسے گیارہ لاکھ سے زائد ووٹ ڈالے گئے تھے جو کل ووٹ کا انتالیس اعشاریہ ایک تھا۔ بقایا اٹھارہ لاکھ اکاون ہزار ووٹ پیپلز پارٹی مخالفت میں ڈالے گئے تھے ۔

اس وقت سندھ کراچی مہاجر پنجابی پٹھان متحدہ محاذ نے بھی انتخابات میں حصہ لیا تھا اور اسے کل ڈالے گئے ووٹوں میں سے صرف اڑتالیس ہزار ووٹ ملے تھے جس کا مطلب یہ ہوا کہ محاذ مہاجروں کو اپنی جانب راغب کرنے میں ناکام رہا تھا۔ 1970ء میں مہاجروں نے پیپلز پارٹی کے قومی اسمبلی کے اردو داں امیدواروں جنرل اکبر خان (راولپنڈی سازش کیس والے) ، مجتبی حسین فاروقی، کمال اظفر، جسٹس رٹائرڈ نور العارفین کو اتنی تعداد میں ووٹ نہیں ڈالا تھا کہ ان کے مخالف امیدوار کامیاب نہیں ہوتے۔

البتہ صوبائی اسمبلی کی کراچی سے 15نشستوں میں سے 8 پر پیپلز پارٹی کے امیدوار کامیاب ہوئے تھے ۔ کامیاب ہونے والوں میں اردو بولنے والے امیدوار بھی تھے ۔
چوں کہ 1970ء میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی پولنگ کے درمیان دس روز کا وقفہ تھا ، اس لئے قومی اسمبلی میں کامیابی اور ناکامی صوبائی اسمبلیوں کی پولنگ پر اثر انداز ہوئی تھی۔ قومی اسمبلی کے انتخابات کے بعد بھٹو مرحوم نے لطیف آباد میں اس میدان میں جلسہ کیا تھا جسے آج باغ مصطفے کہا جاتا ہے۔

ان کی تقریر کا ایک جملہ مہاجر نوجوان لے اڑے تھے کہ بھٹو نے مہاجروں کو چیلنج کر دیا اور نعرہ لگایا گیا تھا کہ ’’ اب تو گھوڑے کی ٹاپ چلے گی‘‘۔ راتوں رات فضاء گرم ہو گئی اور محاذ کے سربراہ نواب مظفر حسین خان پیپلز پارٹی کے امیدوار سید قمر الزمان شاہ کے مقابلے میں کامیاب ہو گئے تھے ۔

بھٹو نے کوئی چیلنج نہیں کیا تھا بلکہ انہوں نے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ اگر حیدرآباد کے شہریوں نے قومی اسمبلی میں پیپلز پارٹی کے امیدوار سید بدیع الحسن زیدی کو منتخب کرایا ہوتا تو وہ آج زیدی کو سندھ کے وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے نامزد کردیتے۔ ان کا کہنا تھا کہ تعصب کی بنیاد پر ایک شخص اسمبلی میں کیا کر سکے گا۔ بس ان کے اسی جملہ کو چیلنج سمجھا گیا تھا ۔
سندھ میں پیپلز پارٹی نے حکومت بنائی تھی جس کے بعد سندھی زبان کی تعلیم، فروغ اور استعمال کا بل 1972 ء پیش کیا گیا تھا۔ اردو زبان کے اخبار جنگ نے اپنی لوح کے برابر میں ’’ اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے‘‘ شائع کیا تھاجس کے بعد ہنگاموں اور حکومت اور پولس کی سخت کارروائیوں نے مہاجروں کو پیپلز پارٹی سے متنفر کر دیا ۔

خلیج تو پہلے سے موجود تھی۔ پولس کارروائیوں کے نتیجے میں کراچی اور حیدرآباد میں ہلاکتیں ہوئی تھیں ، لوگوں نے اپنے گھروں پر سیاہ پرچم لہرائے ہوئے تھے اور معاملہ اتنی شدت اختیار کر گیا تھا کہ بھٹو مرحوم کو اس مسلہ پر قوم سے خطاب کرنا پڑا تھا۔ 8 جولائی 1972ء کو صدر پاکستان کی حیثیت سے انہوں نے خطاب میں کہا تھا
’’ دونوں زبانوں کے حامیوں کو چاہئے کہ وہ ایک ساتھ رہنے کا سبق سیکھیں‘‘ْ ’’ میں آپ سب سے اپیل کرتا ہوں کہ اپنے کام اور اپنی ڈیوٹی پر واپس آجائیں اور ایک دوسرے کا خون بہانا بند کریں۔میں نے پرانے اور نئے سندھیوں کے نمائندوں کو دعوت دی ہے کہ وہ 10 جولائی کو راولپنڈی میں مجھ سے ملاقات کریں۔ میں ان (لیڈروں) کو اس وقت تک جانے نہیں دوں گا جب تک وہ ایک متفقہ حل میرے سامنے نہیں رکھیں گے‘‘۔

ملاقاتیں ہوئیں ، افہام و تفہیم پیدا کیا گیا لیکن عمل نہیں کرایا گیا۔ اس کے برعکس سیاست حاوی رہی۔ 1977ء میں پیپلز پارٹی کی حکومت کے خلاف انتخابات میں دھاندلی کی بنیاد پر پاکستان قومی اتحاد (پی این اے) کی تحریک اور مارشل لاء کے نفاذ کے نتیجے میں پیپلز پارٹی حکومت کے خاتمہ کی وجہ سے پیپلزپارٹی اور مہاجروں کے درمیاں تلخی عروج پر پہنچی تھی اور خلیج وسیع تر ہو گئی تھی۔

1988ء کے انتخابات میں جو ایم کیو ایم کے لئے پہلے انتخابات تھے، ایم کیو ایم مہاجروں کی نمائندہ جماعت بن کر ابھری تھی اور یہ سلسلہ 2013ء کے انتخابات تک جاری تھا۔ ایم کیو ایم کے پیپلپز پارٹی یا مسلم لیگ کے ساتھ سیاسی تعلقات کبھی ہموار اور اکثر ناہموار ہی رہے۔

قومی اسمبلی میں تیسری بڑی جماعت اور سندھ اسمبلی میں دوسری بڑی جماعت ہونے کے باوجود ایم کیو ایم، حکومتوں کا حصہ رہنے اور بلدیاتی اداروں پر حکمرانی کرنے کے باوجود اپنے شہروں کی حالت بہتر نہ کر سکی اور مہاجروں کو درپیش اجتماعی مسائل حل نہیں کرا سکی۔ مہاجروں کے مسائل میں 1970ء کے بعد پیپلز پارٹی کی حکومت کے قیام کے بعد سے اضافہ ہی ہوتا چلا گیا ۔

پیشہ وارانہ تعلیمی اداروں میں داخلے کوٹہ سسٹم اور محدود نشستوں کی وجہ سے نا ممکن ہوگئے، سرکاری ملاز متوں کے سلسلے میں تو سندھ پبلک سروس کمیشن کے اشتہارات میں تنبیہ کی جاتی تھی کہ کراچی، حیدرآباد اور سکھر کے امیدوار درخواست جمع نہیں کرائیں۔

چھوٹی سرکاری ملازمتوں کے حصول میں ان کی مادری زبان آڑے آئی۔ کراچی میں دوسری یونی ورسٹی قائم نہ کرائی جاسکی۔ حیدرآباد میں سرکاری جنرل یونی ورسٹی، میڈیکل کالج، انجینئرنگ کالج کے قیام کے مطالبات کبھی پورے نہیں ہو سکے۔
حیدرآباد کے حیدر چوک پر اکابرین تحریک پاکستان کی تصاویر کے معاملے پرقوم پرستوں کے ساتھ کشیدگی، بلدیہ کے دفتر سے سندھ یونی ورسٹی کے طلباء کے ایک جلوس پر فائرنگ کے بعد کشیدگی، اس وقت کے میئر افتاب احمد شیخ پر17 جولائی 1988 ء کو قاتلانہ حملہ کے بعد فسادات کی صورت حال، 30 ستمبر 1988 ء کو حیدرآباد میں شہریوں کا قتل عام جو پاکستان کی تاریخ کا بدترین واقعہ کہلاتا ہے، پیپلز پارٹی حکومت کی جانب سے پکہ قلعہ آپریشن، وغیر ہ ایسے واقعات تھے جن کی وجہ سے سندھ کے دائمی شہریوں کے درمیاں خلیج بڑھتی ہی رہی ۔

ہونا یہ چاہئے تھا کہ پیپلز پارٹی اکثریتی حکومتی پارٹی کی حیثیت سے اس خلیج کو پاٹتی لیکن پارٹی کے وزراء اور رہنماء ہر مہاجر کو ایم کیو ایم کا حصہ سمجھ کر معاملات کرنے لگے جس میں امتیازی سلوک نمایاں ہوتا ہے ۔

ایم کیو ایم نے خود بھی خلیج کو پاٹنے کے لئے کوئی قابل ذکر قدم اٹھانے کی کوشش نہیں کی۔ پیپلز پارٹی کے اکابرین تو الزام لگاتے ہیں کہ ایم کیو ایم تو ان کی وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو کمزور کرنے میں حصہ ڈالتی رہی جس کی وجہ سے پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم صرف سیاسی ضرورتوں کے تحت ایک دوسرے سے ہاتھ ملاتے رہے، ان کے دل کبھی آپس میں نہیں ملے۔

اس کا اجتماعی وسیع نقصان ایم کیو ایم کے ووٹروں کو ہی ہوا جسے مہاجر ووٹ کہا جاتا ہے۔ اس نقصان کا ازالہ کیوں کر اور کب تک ممکن ہے ؟ سیاسی رہنماؤں کی حکمت اور دانش ہی رہنمائی کر سکے تو بہتر ہوگا۔

پیپلز پارٹی گلے لگا نے کی بجائے دیوار سے لگانے میں دلچسپی رکھتی ہے اور ایم کیوایم پاکستان سمیت تمام سیاسی جماعتیں اورآازاد امیدوار مہاجر ووٹ کے حصول میں تو گہری دلچسپی رکھتے ہیں لیکن انہیں درپیش مسائل حل کرانے میں عمومی سرگرمی کے ساتھ بوجوہ دلچسپی کا مظاہرہ نہیں کرتے ہیں۔ ایسی صورت میں خلیج پٹنے کا سامان ہی پیدا نہیں ہوتا ہے۔ شاعر نے کہا ہے :
غم و غصہ و رنج و اندوہ و حرما ں

مزید :

رائے -کالم -