مسلم لیگ(ن) کی برتری
نوے کی دہائی میں ہونے والے آخری انتخابات میں لوگوں نے پیپلز پارٹی کو ووٹ نہیں دیا تھا، کیونکہ وہ شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کے شوہر نامدار آصف علی زرداری کی کرپشن کی خبروں سے نالاں تھے ، چنانچہ لوگ 1997ء کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کو ووٹ ڈالنے کے گھروں سے نکلے ہی نہیں تھے۔
پیپلز پارٹی کے یہی حلقے ، جو اب پی ٹی آئی میں پناہ لے چکے ہیں ،سمجھتے تھے کہ جونہی نواز شریف کو کرپشن میں سزا سنائی جائے گی تو مسلم لیگ(ن) کا کارکن ان کی طرح مایوس ہو کر گھروں میں بیٹھ جائے گا اور گلیاں سنجیاں ہوجائیں گی، جس میں نیازی یار گھومے گا۔
تاہم سابق وزیر اعظم نواز شریف نے پانامہ کے نام پر اقامہ میں نکالے جانے کے بعد جس طرح جی ٹی روڈ کا شو لگایا اور بعد میں شیخوپورہ میں ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے پانچ ہزار روپے سے شروع ہو کر دس روپے کے نوٹ تک ہوا میں لہرا کر دعویٰ کیا کہ اگر ان کے خلاف دس روپے کی کرپشن بھی ہے تو نکال کر لائیں۔
تاہم بے نظیر بھٹو اپنی زندگی میں اور آصف علی زرداری آج تک ایسا کوئی دعویٰ کسی جلسے میں تو کجا غالباً نجی محفل بھی نہیں کرسکے ہوں گے۔ یہی وجہ ہے کہ لوگوں نے کرپشن کے پراپیگنڈے پر غصے میں بے نظیر بھٹو کو ووٹ نہیں دیا تھا اور اقامے کی آڑ میں کرپشن کے نام پر فیصلہ آنے پر غصے میں بھرے ہوئے نوازشریف کے ساتھ کھڑے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ نواز شریف کے ساتھ زیادتی ہے۔یہی تاثر اگلے عام انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کی برتری ثابت ہو رہا ہے۔
مسلم لیگ(ن) کی ایک اور برتری یہ ہے کہ شروع دن سے یہ جماعت ترقی کے ایجنڈے کو لے کر چلی ہے اور اس کی قیادت نے کارکردگی کی بنا پر لوگوں کے دِلوں میں گھر کیا ہے ۔
یہ نون لیگ ہی ہے، جو پاکستان میں ترقی کا معیار سمجھی جاتی ہے اور اس کی مخالف جماعتوں کا مقابلہ اس کے دور میں ہونے والی ترقی سے کیا جاتا ہے ۔
اس کی ایک جھلک 2013ء کے عام انتخابات میں جنوبی پنجاب میں دیکھنے میں آئی تھی، جس کے بارے میں تجزیہ کاروں کا خیال تھا کہ چاہے آسمان کیوں نہ گر پڑے ، جنوبی پنجاب کے لوگ پیپلز پارٹی کے سوا کسی کو ووٹ نہیں دے سکتے، لیکن جنوبی پنجاب کے عوام 2008ء سے 2013ء کے دوران ہونے والی تاریخ کی بدترین لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے اس قدر تنگ آئے ہوئے تھے کہ انہوں نے بھٹو، بے نظیر بھٹو اور پیپلز پارٹی سے اپنی تمام تر محبت کے باوجود مسلم لیگ(ن) کو اس لئے ووٹ دیا کہ وہ سمجھتے تھے کہ مسلم لیگ(ن) کی قیادت ہی وہ واحد قیادت ہے، جو ملک کو اندھیروں سے نکال سکتی ہے ۔
گزشتہ پانچ برسوں کی کارکردگی بتاتی ہے کہ مسلم لیگ(ن)نے نہ صرف ملک کو بجلی کے اندھیروں سے نکالا ہے،بلکہ اس کے ساتھ ساتھ عوامی فلاح و بہبود کے دیگر بہت سے ایسے کارنامے سرانجام دیئے ہیں کہ آج پاکستانی تو ایک طرف دنیا ان کی معترف نظر آتی ہے۔ مسلم لیگ(ن) کی برتری کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ 2013ء کے عام انتخابات میں لوڈ شیڈنگ دہشت گردی سے بھی بڑا ایشو قرار دیا جا رہا تھا اور آج لوڈ شیڈنگ کا کوئی ذکر ہی نہیں ہے۔
آج 2018ء کے عام انتخابات کا کوئی ایشو ہے تو وہ نواز شریف ہے ، ساری قوم نواز شریف کے حق میں اور مخالفت میں بٹ چکی ہے ، 2018ء کا انتخابی ایشو نواز شریف ہے اور اس کے باوجود کہ نواز شریف کو سزا ہو گئی ہے،لوگ اب بھی اس کا تذکرہ یوں کرتے ہیں جیسے ابھی ابھی ان کے پاس اٹھ کر گئے ہیں۔
مسلم لیگ(ن) کی ایک اور برتری یہ ہے کہ اس جماعت میں پاپولیریٹی بھلے نواز شریف سے نتھی ہو، لیکن اس جماعت میں پاکستان کی مڈل کلاس کے ایسے ایسے کمال کے لوگ ہیں جو اپنی اپنی جگہ کام کرنے کی انتہائی صلاحیت رکھتے ہیں ۔
وہ شہباز شریف ہوں یا رانا ثناء اللہ، خواجہ سعد رفیق ہوں یا احسن اقبال ، خواجہ آصف ہوں یا شاہد خاقان عباسی۔۔۔مسلم لیگ (ن) نے ثابت کیا ہے کہ ا س کے اندر معاشرے کا بہترین ٹیلنٹ سمویا ہوا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ نواز شریف کے وزیراعظم ہاؤس سے باہر ہونے کے باوجود ایک دن بھی کسی کو احساس نہیں ہوا کہ مُلک میں شاہد خاقان عباسی نہیں،بلکہ کوئی اناڑی حکومت چلا رہا ہے ۔
اس کا فائدہ یہ ہوا ہے کہ مسلم لیگ(ن) ایک فعال سیاسی جماعت کے طور پر اپنے آپ کو منوانے میں کامیاب ہوئی ہے اور اس کی حالت پیپلز پارٹی جیسی نہیں ہے کہ بے نظیر بھٹو کے جاتے ہی کیا لیڈر کیاورکر ، بھاگ کر پی ٹی آئی میں گھس گئے کہ انہیں معلوم تھا کہ ان کی ’لٹو تے پھٹو‘ کی پالیسی اب کہاں چل سکے گی۔
مسلم لیگ(ن) کی ایک اور برتری شہباز شریف ہیں ۔ انہوں نے جس جانفشانی سے پنجاب میں کام کیا اور یہاں پر ترقی کے نئے معیار قائم کئے ، ان سے ان کی نہ صرف پنجاب میں،بلکہ پنجاب سے باہر دیگر صوبوں میں بھی پذیرائی ہوئی ہے ۔
شہباز شریف کے بارے میں سوچا سمجھا عوامی تاثر یہ ہے کہ انہیں سیاست آتی ہو یا نہ آتی ہو، لیکن گورنینس ضرور آتی ہے ۔
یہی وجہ ہے کہ انہوں نے چھوٹی سی کابینہ کے ساتھ بے پناہ کام کر دکھائے۔ میٹرو بس جیسا منصوبہ پاکستان میں کھڑا کردینا ان ہی کا خاصہ ہے وگرنہ اس منصوبے کے ساتھ جو کچھ پشاور میں ہوا ہے ، سب کے سامنے ہے۔
اسی طرح سالڈ ویسٹ مینجمنٹ کو جس طرح انہوں نے ہینڈل کیا وہ کراچی اور سندھ کی سیاسی نمائندگی کرنے والوں کے منہ پر ایک طمانچہ ہے، چنانچہ مسلم لیگ (ن) کی برتری یہ ہے کہ انہوں نے نوا زشریف کی جگہ ان کی بیٹی کو وزارتِ عظمیٰ کے لئے فیلڈ کرنے کے بجائے شہباز شریف کو کیا،جو پوری مسلم لیگ (ن) میں سب سے بڑھ کر مستحق ہیں ۔ اس اعتبار سے پارٹی کے اندر میرٹ کی بالادستی کے تاثر نے اس قدر جگ ہنسائی کے باوجود عوام میں مسلم لیگ (ن) کی قدروقیمت کو کم نہیں کیا ہے ۔
مسلم لیگ(ن) کی برتری یہ ہے کہ جب سے نواز شریف کی قیادت میں پاکستان نے ایٹمی دھماکہ کیا ہے تب سے لوگوں میں اپنے دفاع کے حوالے سے ایک نیا نفسیاتی تاثر پیدا ہوا ہے کہ اگر بھارت سمیت کسی نے بھی پاکستان پر حملہ کرنے کی کوشش کی تو فکر کی کوئی بات نہیں ، ہمارے پاس ایٹم بم ہے ، ہم دشمن کو ملیا میٹ کردیں گے۔
اس تاثر سے ہماری اسٹیبلشمنٹ کے حوالے سے کھل کر باتیں ہونے لگی ہیں، خاص طور پر جب سے نواز شریف نے اعلان کیا کہ ان کا مقابلہ پی ٹی آئی یا پیپلز پارٹی سے نہیں ہے، بلکہ اسٹیبلشمنٹ سے ہے ، تب سے لوگوں میں اسٹیبلشمنٹ کے کردار پر کھل کر بات ہونے لگی ہے۔ اس صورتِ حال سے اسٹیبلشمنٹ کو اس طرح کھل کھیلنے کا موقع نہیں مل رہا جو ایٹمی دھماکے سے قبل ملتا تھا ۔
چنانچہ عوامی سوچ میں تبدیلی کے اس عمل نے مسلم لیگ(ن) کو صحیح معنوں میں چیمپئن بنا دیا ہے اور نواز شریف مرد بحران بن کر میدان میں ڈٹے ہوئے ہیں ۔ وہ جیل میں بیٹھ کر اسی طرح دِلوں پر راج کر رہے ہیں، جس طرح بھٹو نے چالیس برس تک قبر میں لیٹ کر کیا ہے۔
مسلم لیگ(ن) کی برتری یہ ہے کہ اس جماعت نے 2013ء میں عوام سے کئے گئے وعدے پورے کئے ہیں۔
کام کرکے دکھایا ہے ، ڈینگی جیسے موذی مرض کا قلع قمع کیا ہے ، اورنج لائن ٹرین کا منصوبہ کھڑا کیا ہے،پکیاں سڑکاں سوکھے پینڈے پروگرام کے تحت دیہاتوں میں میٹل روڈ بچھا دیئے ہیں ، ایک سو ارب کے امدادی پیکیج سے زراعت کو کھڑا کردیا ہے ، شہروں میں نوجوانوں کو اپنے روزگار کی طرف راغب کیا ہے ۔ تبھی لوگ نواز شریف پر اعتماد رکھتے ہیں اور مسلم لیگ (ن) کی برتری کو مانتے ہیں۔