میزبانی کی انوکھی روایت

میزبانی کی انوکھی روایت
میزبانی کی انوکھی روایت

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

وہ آئیں گھر میں ہمارے خدا کی قدرت ہے!
کبھی ہم اُن کو…… کبھی اپنے گھر کو دیکھتے ہیں
خواتین و حضرات!مہمان نوازی ہماری مذہبی، معاشرتی اور ثقافتی روایات کا خاصہ ہے۔مہمان ہمارے گھر کا ہو، محلے کا یا ملک کا، اُس کی خاطر تواضع اوراستقبال سے لے کر الوداع تک محبت اور خلوص سے کی جاتی ہے۔اسی بات کا ذکر مرزا غالب نے اس طرح کیا ہے:
ہے خبر گرم اُن کے آنے کی
آج ہی گھر میں بوریا نہ ہوا


ہمارے مذہب سے بھی ہمیں بہت سی ایسی مثالیں ملتی ہیں جب میزبان نے خود بھوکا رہ کر مہمانوں کو کھانا پیش کیا اور چراغ گل کر کے یوں ظاہر کیا گویا وہ بھی مہمان کے ساتھ کھانے میں شریک ہے۔ظہورِ اسلام سے آج تک ہمیں ہر دور میں مسلمانوں کی مہمان نوازی کی بے شمار مثالیں ملتی ہیں۔اگر آج کے دور کی بات کریں تو آج بھی پاکستان میں ہمیں انفرادی سطح سے لے کر اجتماعی اور ملکی سطح پر ایسی بہت سی مثالیں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ بالخصوص جب کسی ملک کا سربراہ پاکستان تشریف لاتا ہے تو اُس کا استقبال ہماری مخصوص مہمان نوازی کے ساتھ کیا جاتا ہے۔مہمان کو اکیس توپوں کی سلامی دی جاتی ہے، گارڈ آف آنر پیش کیا جاتا ہے،مارچ پاسٹ، جنگی طیاروں کی فضائی سلامی، گلدستے پیش کرنا، سرخ قالین پر طیارے سے ائر پورٹ بلڈنگ تک استقبال،اہم شخصیات کا تعارف، خصوصی ڈنر اور ثقافتی شو وغیرہ پیش کرنا۔ دورے کے اختتام پر مہمان کو اُس کے دورے کی البم پیش کرنا بھی ہماری مہمان نوازی کی پُروقار روایت رہی ہے۔پاکستان میں غیر ملکی سربراہ کو خاص دِنوں بشمول یوم آزادی، یوم پاکستان اور ہارس اینڈ کیٹل شو کے موقع پر مہمان خصوصی کے طور پر مدعو کیا جاتا رہا ہے۔……لیکن وزیراعظم پاکستان عمران خان نے میزبانی کی ایک انوکھی اور دلچسپ روایت ڈالی ہے،جس سے مہمان کو سرکاری استقبال اور حکومتی خوش آمدید کے ساتھ ساتھ ذاتی، غیر روایتی اور دوستی سے بھرپور احساسات اور جذبات کا اظہار نظر آیا ہے۔یہ ہے عمران خان کا غیر ملکی مہمان کا ائر پورٹ پر استقبال کر کے اُنہیں وزیراعظم ہاؤس تک کار میں لے کر جانا اور کار کو خود چلانا، بطور ڈرائیور۔ اگرچہ ماضی میں بعض دوسرے وزرائے اعظم بھی ایسی ”حرکت“ کرتے رہے ہیں، لیکن ہم اسے ”پہلی دفعہ“ ہی شمار کریں گے، کیونکہ یہ نئی حکومت کا ”تکیہ کلام“ بن چکا ہے۔


ہم دیکھتے ہیں کہ جب کوئی سرکاری آفیسر سرکاری کار میں کہیں بھی جاتا ہے تو ہمیشہ کار کی پچھلی سیٹ پر بیٹھتا ہے(تن کر) اور ڈرائیور کار چلاتا ہے۔ڈرائیور کی سیٹ کے ساتھ والی نشست پر اُس کا اسسٹنٹ فائلیں لے کر بیٹھا ہوتاہے تو دوست ہمیشہ کار چلانے والے دوست کے ساتھ والی نشست پر بیٹھا ہوتا ہے۔یہ دوستی، محبت اور قریبی تعلقات کی علامت بھی ہوتی ہے۔آپ نے اکثر ایسے غیر رسمی مناظر دیکھے ہوں گے جب دو دوست کار میں آگے بیٹھے، ہنستے، مسکراتے ہاتھ پر ہاتھ مارتے نظر آتے ہیں۔عمران خان نے سعودی پرنس، قطری شہزادے اور ملائشیا کے وزیراعظم مہاتیر محمد کی کار خود چلا کر میزبانی کی ایک انوکھی، دلکش اور دوستی کی جو مثال قائم کی ہے اُسے سرکاری،غیر سرکاری،سفارتی، عالمی اور عوامی سطح پر خوب سہرایا گیا ہے۔اس ”انوکھی ادا“ کو عالمی سطح پر بھی میڈیا نے خاص جگہ دی۔ اس سے قبل اکثر دونوں ملکوں کے سربراہ ایک کار میں عقبی نشست پر نہایت سنجیدہ ہو کر، اکڑے بیٹھے ہوتے تھے۔ کبھی کبھی چہروں پر ہلکی سی مصنوعی مسکراہٹ پھیل جاتی، پھر خاموشی سے تمام تر سرکاری اور سفارتی آداب کے پیش نظر مختلف تقریبات میں حصہ لیتے۔عمران خان کا یوں بے تکلفی سے اور تمام تر سرکاری آداب و رسو مات کو پس ِ پشت ڈال کر دبی جذبات سے استقبال کرنا ایک منفرد اور غالباً پہلی روایت ہے، پہلے تو محض سنجیدہ ہو کر پُرتکلف طریقے سے ہاتھ ملایا جاتا ہے، یا زیادہ سے زیادہ گلے ملا جاتا ہے۔شاید اسی لئے احمد فراز نے کہا تھا۔


تم تکلف کو بھی اخلاص سمجھتے ہو فراز
دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا


ایک سربراہِ مملکت کا دوسرے سربراہ ممکت کے لئے خود کار ڈرائیو کرنا ایک خاص جذبات، اظہار اور تعلقات کے معنی رکھتا ہے۔یوں آنے والا اپنے آپ کو محض سرکاری مہمان ہی نہیں،بلکہ اُس ملک کا ذاتی دوست تصور کرنے لگتا ہے۔اس طرح کے استقبال سے اُس کے دِل میں اچھے تعلقات اور دوستی کے جذبات و خیالات قائم ہوتے ہیں اور اگر کوئی ماضی کا گلہ شکوہ ہو تو وہ از خود دور ہو جاتا ہے۔اس طرزِ عمل سے دُنیا کو بھی یہ تاثر جاتا ہے کہ یہ دونوں ملک آپس میں ترقی، امن اور دوستی میں یک دِل یک جان ہیں۔یوں وہ ان کو دو ملکوں کے درمیان ناچاقی اور بدگمانی پیدا نہیں کر سکتا۔ جیسا کہ ہمارا مکار پڑوسی ملک بھارت ایسا کرتا رہا ہے،جو محض پاکستان کو ورلڈکپ کے سیمی فائنل میں نہ پہنچنے کے لئے انگلینڈ سے ایک شرمناک منصوبہ بندی کے تحت ہار جاتا ہے۔عمران خان کا یہ عمل دُنیا کو مسلمان ممالک کے درمیان یکجہتی اور یگانگت کا پیغام بھی دیتا ہے۔ عمران خان کا غیر ملکی مسلمان سربراہان کو اپنے ساتھ اگلی سیٹ پر بٹھا کر لے جانا اور خود کار چلانا، جبکہ کار میں کوئی اور تیسرا شخص موجود نہیں، دشمنوں کے سینوں پر مونگ دُلنے کے لئے کافی ہے، تاہم ہمیں یہ اندیشہ بھی رہا کہ اس دوران دونوں سربراہان مملکت کسی بات پر قہقہہ لگا کر ہاتھ پر ہاتھ نہ ماریں۔کیا عجب کہ اس عمل کو مسلمان ممالک کی غیر مسلم ممالک کے لئے ایک سازش قرار دے دیا جاتا۔

مزید :

رائے -کالم -