تاجروں کی احتجاجی تحریک
اسلام آباد میں تاجروں کے ایک بڑے اجتماع میں حکومت کی ”معاشی پالیسیوں، کساد بازاری، مہنگائی اور کاروبار دشمن اقدامات“ کے خلاف شدید احتجاج کیا گیا۔ اعلان ہوا کہ ”ہارن بجاؤ، حکومت جگاؤ“ تحریک شروع کر دی گئی ہے، اور اُس وقت تک اسے ختم نہیں کیا جائے گا، جب تک مطالبات منوا نہیں لیے جاتے۔ خبروں میں بتایا گیا ہے کہ لاہور اور صوبے کے کئی دیگر شہروں سے بڑی تعداد میں تاجر صاحبان بسوں،ٹرکوں، ویگنوں اور گاڑیوں کے قافلوں کی صورت دارالحکومت پہنچے،مختلف شہروں میں مظاہرے بھی کیے۔ احتجاجی وزیراعظم ہاؤس تک پہنچنا چاہتے تھے، لیکن انتظامیہ نے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کر کے یہ منصوبہ ناکام بنا دیا۔تاجروں کا مطالبہ تھا کہ مُلک بھر میں بند کاروبار فوری طور پر کھول دیے جائیں۔شادی ہالوں، ہوٹلوں اور تعلیمی اداروں کی بندش کا فیصلہ واپس لیا جائے۔احتجاجی تاجر گاڑیوں کے ہارن بجا کر شور مچا رہے تھے۔سیرینا ہوٹل کے قریب مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان انجمن تاجران کے صدر محمد اجمل بلوچ نے کہا کہ31 جولائی تک ہمارے مطالبات تسلیم نہ کئے گئے تو ہم بھرپور انداز میں ملک گیر احتجاج شروع کر دیں گے۔انہوں نے وزیراعظم کے مشیر صحت کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ مرض کا علاج تو کر سکتے ہیں، لیکن بھوک کا نہیں۔این سی او سی کو غلط مشورے دینے سے باز رہیں۔انجمن تاجران کے سیکرٹری جنرل نعیم میر نے خطاب کے دوران یہ انکشاف بھی کیا کہ دُنیا بھر میں ہر قسم کا کاروبار کھل چکا ہے، ہر قسم کی سرگرمی جاری ہے، لیکن پاکستان میں حکمرانوں کی نااہلی نے تاجروں کا جینا دوبھر کر رکھا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ یہی صورت رہی تو کروڑوں لوگ بیروزگار ہو جائیں گے۔حکمران سارے کام چھوڑ کر اِس مسئلے کا حل نکالیں۔ تاجر رہنماؤں نے یہ مطالبہ بھی کیا کہ جو کاروبار کھلے ہیں ان کے اوقات بڑھائے جائیں،شام سات بجے کے بجائے دس بجے رات تک کام کی اجازت ہونی چاہئے۔ہفتے میں تعطیل بھی صرف ایک روز کے لیے ہو، اور تاجروں کو کم از کم چار ماہ کا کرایہ معاف کیا جائے۔ہر ضرورت مند تاجر کو دس لاکھ تک بلا سود قرضے کی فراہمی کا مطالبہ بھی کیا گیا۔
اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ کورونا وائرس نے دُنیا بھر کی معیشتوں کو متاثر کیا ہے۔بڑے مضبوط ممالک کے بھی پسینے چھوٹ گئے ہیں، اور ان کے لیے اپنی معیشتوں کو سنبھالنا مشکل ہو رہا ہے۔ پاکستان بھی ان ممالک میں شامل ہے، جو اِس عالمی وبا کی زد میں ہیں۔یہاں معمولاتِ زندگی بھی متاثر ہوئے ہیں،کاروباری سرگرمیوں کو بھی بلا خوف و خطر جاری رکھنا ممکن نہیں رہا۔اس صورتِ حال سے تاجروں، صنعت کاروں، کاروباری طبقوں کے ساتھ ساتھ مزدوروں محنت کشوں اور عام شہریوں کو بھی شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔اِس عالمی وبا کی نوعیت اور ماہیت ایسی ہے کہ جس کی مثال انسانی تاریخ میں نہیں ملتی۔ یہ ایک انسان سے دوسرے انسان کو منتقل ہوتی ہے۔اس کی کوئی دوا ابھی تک دریافت نہیں ہوئی،نہ ہی کوئی حفاظتی ویکسین تیار کی جا سکی ہے۔ایسی خبریں آ رہی ہیں کہ آئندہ چند ہفتوں کے اندر اندر ایسی ویکسین دستیاب ہو سکتی ہے،جو اِس وائرس کے حملے سے محفوظ رکھ سکے گی،لیکن جب تک ایسا نہیں ہوتا، اس سے تحفظ کے لیے احتیاطی تدابیر اختیار کرنا پڑیں گی۔ دُنیا بھر میں صحت عامہ کے ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ اس وائرس سے بچاؤ کے لیے ماسک استعمال کرنا، اور ایک انسان کا دوسرے انسان سے چار سے چھ فٹ کا فاصلہ برقرار رکھنا ضروری ہے۔ اسی کو مدنظر رکھتے ہوئے مختلف سرگرمیوں پر پابندی عائد کی گئی ہے۔پاکستان میں اس وائرس کو ایک حد تک کنٹرول کر لیا گیا ہے۔اس کی تباہ کاری اندازوں اور پیش گوئیوں سے کم رہی ہے، اور عام پاکستانی اس پر اطمینان کا سان بھی لے رہا ہے، لیکن اِس کا مطلب یہ نہیں کہ وبا ختم ہو گئی ہے، اور حسب ِ معمول تمام سرگرمیوں کا آغاز کیا جا سکتا ہے۔تاجروں اور کاروباری اداروں کی جو بھی مشکلات ہوں، انسانی زندگی کی حفاظت ان سے بڑھ کر ہے، اس کی اولیت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
دُکھ کی بات یہ ہے کہ تاجر حضرات نے جو مظاہرہ کیا، اس میں حفاظتی تدابیر کا کوئی خیال نہیں رکھا گیا۔ نہ تو تمام شرکا نے ماسک پہنے ہوئے تھے، نہ ہی وہ سماجی فاصلہ برقرار رکھ پا رہے تھے۔ ایک دوسرے سے جڑے ہوئے اور ایک دوسرے پر چڑھے ہوئے حضرات کورونا وائرس کے سہولت کار بنے نظر آ رہے تھے۔ اگر وہ تمام قواعد و ضوابط کی پابندی کے ساتھ اپنے احتجاجی اجتماع کا اہتمام کرتے تو ان کی بات میں وزن پیدا ہو سکتا تھا۔وہ یہ کہہ سکتے تھے کہ جس نظم و ضبط کا مظاہرہ وہ کر رہے ہیں کاروبار کھلنے کے بعد بھی وہ اس پر عمل پیرا ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں،اس لیے حکومت معمول کی سرگرمیاں بحال کرنے کا لائحہ عمل بنائے۔ان کے بے لگام مظاہرے نے ان کے مقدمے کو کمزور کیا ہے۔اُنہیں یہ سمجھنا چاہئے کہ حکومت کو ان کے کاروبار سے کوئی مخاصمت نہیں ہے۔ وزیراعظم عمران خان تو اِس حوالے سے تنقید کی زد میں بھی رہے ہیں کہ وہ مکمل لاک ڈاؤن کے خلاف اپنے نقطہ نظر کا برملا اظہار کرتے ہیں۔ان کے اصرار ہی کی وجہ سے ایک حد تک کاروباری معمولات بحال ہوئے ہیں۔ عیدالاضحی اور محرم الحرام کی مجالس کی آمد آمد ہے، اِس دوران پُرہجوم اجتماعات اس وائرس کو ایک بار پھر نیا حوصلہ دے سکتے ہیں،یہ زیادہ شدت کے ساتھ حملہ آور ہو سکتا ہے۔ ایسے میں اگر تاجر حضرات بھی اپنے معاملات کو اپنی مرضی کے مطابق چلانا چاہیں تو اہل ِ پاکستان کا اجتماعی مفاد اس کی اجازت نہیں دے سکتا……جان ہے تو جہان ہے…… زندگی ہو گی تو کاروبار بھی ہو سکے گا۔ تاجروں کو ”ہارن بجانے، نعرے لگانے اور ہنگامہ اٹھانے“ کے بجائے ٹھنڈے دِل سے حالات کا جائزہ لینا چاہیے، اور اپنے اپنے کاروبار کو ایس و پیز(قواعد و ضوابط) کے مطابق جاری رکھنے کا عہد کرنا چاہیے۔ اس حوالے سے قابل ِ عمل تجاویز پیش کی جائیں گی تو قدم آگے بڑھ سکیں گے،بصورتِ دیگر تو ہارن بجانے سے کام نہیں چلے گا۔ تاجر حضرات کو خود جاگنے اور اپنے گاہکوں کی صحت کی حفاظت کے لیے اقدامات کرنا پڑیں گے۔