سرکاری ملازمین پر لٹکتی تلوار
ایک طرف وزیر اعظم عمران خان کہتے ہیں گھبرانا نہیں ہے اور دوسری طرف وہ عوام پر پریشانی اور خوف کے بم مسلسل پھینکے جا رہے ہیں۔ اب ایسی اطلاعات سامنے آ رہی ہیں کہ اگلا نشانہ سرکاری ملازمین ہونگے۔ اس حوالے سے بعض پریشان کن خبریں مسلسل سامنے آرہی ہیں جن کے تحت پچپن سے ساٹھ سال کے تمام سرکاری ملازمین کو جبری ریٹائرمنٹ دینے کا اعلان کردیا جائے گا اور صرف اتنا ہی نہیں، زبردستی ریٹائر کرنے کے بعد گورنمنٹ ملازمین کی پنشن کے حوالے سے بھی کٹوتی کے حربے اختیار کیے جاسکتے ہیں، اس ضمن میں 3 علیحدہ علیحدہ کمیٹیاں تشکیل دی جائیں گی۔ گریڈ 1 تا 16 الگ کمیٹی ہوگی گریڈ 17 تا 19 علیحدہ اورگریڈ 20 تا 22 کے لیے تیسری کمیٹی کام کرے گی۔یہ کمیٹیاں اپنی اپنی سفارشات مرتب کرکے ملازمین کی قبل از وقت ریٹائرمنٹ بمع اخراجات کم کرنے کی تجاویز حکومت کو پیش کریں گی۔ یہ کہا جارہا ہے کہ یہ سب پرانے ملازمین کو گروپوں کی صورت میں نوکریوں سے قبل از وقت گریجویٹی دے کر ریٹائر کیا جائے گا اور آئندہ کے لئے آئی ایم ایف کے ایجنڈے کے تحت کسی بھی سرکاری ملازم کو پنشن ایبل نوکری نہیں دی جائے گی۔ ایسا کرنے سے لاکھوں سرکاری ملازمین گھروں کو چلے جائیں گے اور ملک میں پہلے سے جاری بے روزگاری کا طوفان حقیقی معنوں میں سونامی بن کر معاشی اور معاشرتی تباہی مچا دے گا۔ ایک سرکاری ملازم گورنمنٹ جاب صرف اسی بنا پر کرتا ہے کہ ریٹائر ہونے کے بعد اسے پنشن، گریجویٹی، جی پی فنڈ اور بینوولیٹ فنڈ تو مل جاتا ہے اور اسی سے وہ اپنے بچوں کی شادی کراتا ہے، گھر بناتا ہے، یا پلاٹ خریدتا ہے یا اپنی باقی ضروریات زندگی پوری کرتا ہے۔
2003 ء میں پنجاب سرونٹس ہاؤسنگ فنڈ اسکیم (پی ایس ایچ ایس ایف) کا منصوبہ متعارف کرایا گیا تھا جس کے تحت سرکاری ملازمین کو ریٹائرمنٹ پر گھر دیے جانے تھے مگر 2018 ء میں معاملہ مکان سے پلاٹ پر آگیا کیونکہ گھر حکومت کے بجٹ سے باہر ہوگئے تھے۔ سرکاری ملازموں نے اس کے لیے کئی سالوں تک اپنی تنخواہ سے ماہانہ کٹوتی کروائی لیکن اب پریشانی یہ ہے کہ پتا نہیں پلاٹ بھی نصیب ہوتا ہے یا نہیں۔ اس سال کے بینوولیٹ فنڈ کے آرڈر بھی ابھی تک جاری نہیں ہوئے۔ اگر ایک سرکاری ملازم ہے جس کی شادی آئیڈیل عمر یعنی چھبیس سال کی عمر میں ہوجاتی ہے۔ تو جب وہ پچپن سال کی عمر میں ریٹائر کیا جائے گا تو اس کے بچے کالج یا یونیورسٹی میں پڑھ رہے ہونگے۔ تو وہ اپنے بچوں کی اعلیٰ تعلیم کے اخراجات کیسے برداشت کرے گا؟ جب پانچ سال کا فرق آئے گا تو جو رقم سرکاری ملازمین کو جی پی فنڈ سے ملتی ہے وہ تیس سے پینتیس فیصد کم ہو جائے گی۔ اس رقم پر شروع کا مارک اپ بہت کم ہوتا ہے اور جب وہ 16 لاکھ تک پہنچتا ہے تب وہ تیزی سے بڑھنا شروع کر دیتا ہے اور آخری پانچ سالوں میں وہ سب سے تیزی کے ساتھ بڑھتا ہے۔ اب اگر حکومت ریٹائرمنٹ کی عمر پچپن سال مقرر کرتی ہے تو تمام سرکاری ملازمین کو بہت نقصان ہوگا کیونکہ ریٹائرمنٹ پر ملنے والی مجموعی رقم اور گریجویٹی سے ہی سرکاری ملازمین اپنے بچوں کی شادیاں کراتے ہیں یا اپنا گھر بناتے ہیں۔ اب وہ اتنی کم رقم کا کیا کرے؟ کیا وہ پیسے بینک میں جمع کرائے؟ ہر گز نہیں کیونکہ ہر بینک میں منافع صرف تین سے چار فیصد ہے اور وہ بھی ہر مہینے کم ہوتی جا رہی ہے۔
اب سرکاری ملازم کے پاس دو ہی راستے بچتے ہیں یا تو وہ خود کوئی کاروبار کرے یا کسی کے کاروبار میں سرمایہ کاری کرے لیکن جب سے نئی حکومت آئی ہے بزنس سیکٹر کا تو بیڑا ہی غرق ہو چکا ہے۔ ایسے میں بھی ریٹائرڈ سرکاری ملازمین کو بڑی دشواریوں کا سامنا ہوگا۔ عموماً پچپن سال کا انسان تجربہ کار اور کافی حد تک صحت مند بھی ہوتا ہے،ایک انسان جس نے بیس پچیس سال ملازمت کی ہے، وہ کام کو اچھی طرح جانتا ہے اور کام کرنے کی صلاحیت ہونے کے با وجود اگر آپ اسے جبری ریٹائرمنٹ دے دیں گے تو وہ انسان بالکل ناکارہ ہو جائے گا۔فارغ بیٹھ کر وہ ڈیپریشن کا شکار ہو جائے گا اور اسی فکر میں کھو کر وہ اپنی ذہنی صلاحیت اور جسمانی تندرستی سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے گا۔ پوری دنیا میں ریٹائرمنٹ کی عمر بڑھائی جا رہی ہے اور یہاں الٹی گنگا بہہ رہی ہے۔ ہم زیادہ تر یورپی قوانین دیکھتے ہیں تو یورپ کے بیشتر ممالک میں ریٹائرمنٹ کی عمر 65 سال ہے۔ ریٹائرمنٹ کی عمر 55 سال کرنا ایک بہت عاجلانہ فیصلہ ہوگا کیونکہ بلا شبہ معاشرے میں ہر طرف افسردگی اور ذہنی دباؤ پھیل جائے گا اور بڑھتی بے روزگاری میں بھی بہت بڑا اضافہ ہو جائے گا۔ پرائیویٹ نوکریوں سے ویسے ہی لوگ جان چھڑا کر بھاگتے ہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ اس ملازمت کا پکا نہ ہونا ہے یعنی جب مالک کا دل کیا یا کمپنی کو گھاٹا ہوا تو آپ کبھی بھی فارغ ہو سکتے ہیں، دوسری اس میں سہولیات بھی بڑے نصیب والوں کو ملتی ہیں، تیسری یہ مالک کی مرضی ہے وہ آپ سے کتنا کام لیتا ہے چاہے چودہ گھنٹے لے لے چاہے بارہ گھنٹے اور کبھی کبھی چھٹی والے دن بھی آپ رگڑے جاتے ہیں۔
معاوضہ بھی بہت کم ملتا ہے،آج کل کے حالات میں ویسے ہی بہت لوگ اپنی نوکریوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ بے روزگاری بھی مسلسل بڑھتی جا رہی ہے۔ 2020ء کی رپورٹس کے مطابق ایک کروڑ چالیس لاکھ ساٹھ ہزار لوگ بے روزگار ہو چکے ہیں جو کہ پاکستان کی کل آبادی کا 6.3 فیصد ہے۔ اب اگر حکومت اس مجوزہ پالیسی پر عمل درآمد کرتی ہے تو ملک میں ایک خوفناک قسم کی غیر یقینی صورتحال پیدا ہو جائے گی اور پھر بڑھتی بے روزگاری کے ساتھ کرائم ریٹ بھی بڑھ جائے گا اور ملکی حالات بری طرح درہم برہم ہو جائیں گے۔ڈاکٹر حفیظ شیخ کو وزارت خزانہ سونپنے کے بعد جب ڈاکٹر رضا باقر کو گورنر سٹیٹ بینک مقرر کیا گیا تو سب کو اندازہ تھا کہ اب پاکستان کی معیشت بھی مصر کی طرح برباد ہوگی اور ان کے آتے ساتھ ہی پاکستان 6 ارب ڈالر کے آئی ایم ایف پروگرام میں داخل ہو گیا تھا، یہ خدشات اسی وقت پیدا ہوگئے تھے کہ معاہدے کی ایسی شرائط کیا ہیں جو سامنے نہیں لائی گئیں، وزیر اعظم عمران خان کے ایک تازہ بیان نے ان تمام خدشات کو ایک بارپھر سے بیدار کردیا ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ معیشت کی بحالی کے لیے غیر روایتی اقدامات کرنا ہونگے، ان کے اس“ فرمان“ کی سادہ تشریح یہ ہے کہ ایسا کچھ کیا جاسکتا ہے جو ماضی میں نہ ہوا ہو، نیا پاکستان بننے کے بعد کئی خدشات تلخ حقیقت کا روپ دھار چکے ہیں،
سو اچھی توقع رکھنا آسان نہیں، اس حکومت نے سابق گورنر سٹیٹ بنک ڈاکٹر عشرت حسین کو اصلاحات لانے کی ذمہ داری سونپی، موصوف بھی اپنے لوگوں سے کہیں زیادہ عالمی مالیاتی اداروں کے وفادار ہیں،فرماتے ہیں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں سالانہ انکریمنٹ لگانے کا سلسلہ ختم کیا جائے، تنخواہوں میں اضافے کی بجائے الاؤنسز میں معمولی اضافہ کیا جائے،ڈاکٹر عشرت نے حکومت کو اپنی سفارشات بھجواتے ہوئے یہ بھی کہا ہے کہ سرکاری ملازمین کو دسمبر سے ہی اضافی رقم دینے سے انکار کردیا جائے، یہ سب کچھ آئی ایم ایف کی ہدایت پر ہو رہا ہے، اس حکومت کی گورننس پر پہلے ہی سوالیہ نشان لگ چکے ہیں، اب تو لوگ کہہ رہے ہیں کہ اس سے تو کہیں بہتر پیپلز پارٹی کی حکومت تھی، جس نے زراعت کے شعبے پر خاص توجہ دی تھی اور سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں بڑا اضافہ کیا،لوگوں کو ملازمتوں سے نکالنے کی بجائے تحفظ فراہم کیا، غریب کو بھی دو وقت کا کھانا مل جاتا تھا۔