19سالہ لڑکا، 22سالہ لڑکی قتل
نوجوان کی آنکھیں‘ کان‘ ہونٹ‘ زبان کاٹنے کے بعد اسکے سینے میں تین گولیاں داغ دی گئیں
چند یوم قبل ذرائع ابلاغ پر ایک نوجوان نامعلوم 22سالہ دوشیزہ کی نعش نہر اپر جہلم سرائے عالمگیر کے علاقہ سمبلی سے برآمد ہونیکی خبریں وائرل ہوئیں بعد ازاں ایک طے شدہ منصوبے کے تحت مذکورہ نوجوان دوشیزہ کو قتل کرنیوالے عزیز واقارب نے یہ مشہور کر دیا کہ لڑکی کا دماغی توازن درست نہ تھا اور اس نے نہر میں چھلانگ لگا کر موت کو سینے سے لگا لیا کہتے ہیں کہ قتل چھپ نہیں سکتا خواہ اسے کتنا ہی کیوں نہ چھپایا جائے ایک دن کسی بے گناہ کا خون ضرور رنگ لاتا ہے دوسرے یوم اسی نہر سے دو ر دراز واقعہ مچھیانہ کے قریب ایک ایسے 19سالہ نوجوان کی نعش ملی جس کی دونوں آنکھیں چاقوکے ساتھ نکال دی گئیں جبکہ اسکے دونوں کان‘ ہونٹ اور زبان بھی تیز دھار آلے کے ساتھ کاٹی گئی تھی واقعہ کی اطلاع ملتے ہی مورخہ 10جولائی 2020کو ریسکیو 1122 کے عملہ نے نعش نہر اپر جہلم سے نکالی اور پوسٹ مارٹم کے لیے عزیز بھٹی شہید ہسپتال پہنچا دیا گیا جہاں پر دو دن پانی میں رہنے والی اس نعش کا باریک بینی سے ڈاکٹروں نے پوسٹ مارٹم کیا اور اپنی رپورٹ میں واضع طور پر لکھا کہ مذکورہ نوجوان کے کان‘ زبان‘ ہونٹ اور آنکھیں تیز دھار آلے کے ساتھ کاٹے گئے اور نکالی گئیں جبکہ مقتول کے سینے میں تین فائر آر پار بھی ہو چکے تھے نعش ملنے کی جگہ سے تھوڑی دور فاصلے پر ایک 70سی سی موٹر سائیکل نہر کے کنارے پڑا ہوا ملا یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ مقتول خلیل انجم عمر 19سال سکنہ گاؤں بیگہ تھانہ کنجاہ کا رہائشی ہے نامعلوم نعش برآمد ہونے پر مقتول خلیل انجم کے بھائی موقع پر پہنچے اور اپنے چھوٹے بھائی کی نعش کی شناخت کر لی مقتول کے بھائی ندیم عباس ولد غلام عباس سکنہ بیگہ نے 6جولائی کو لاپتہ ہونے والے اپنے بھائی کی گمشدگی کی رپورٹ درج کرانے کیلئے تھانہ کنجاہ رابطہ کیا مگر ایس ایچ او رانا عامر سعید نے مقدمہ درج کرنے سے انکار کر دیا اور انہیں طفل تسلیاں دیکر کہا کہ آپ بھی ڈھونڈو ہم بھی ڈھونڈیں گے جس کسی کو اطلاع ملی وہ ایک دوسرے کو مطلع کر دیگا جس گھر کا چشم و چراغ لاپتہ ہو گیا ہو اس گھر پر ایک قیامت ٹوٹ پڑتی ہے مگر ایس ایچ او کنجاہ رانا عامر سعید جسے گجرات پولیس کا سب سے شریف ترین انسپکٹر تصور کیا جاتا ہے نے گمشدگی کی رپورٹ درج کرنے سے انکارکر کے محکمانہ طو رپر ایک جرم کا ارتکاب کیا اور دوسرا جرم اس نے قتل ہونیوالے نوجوان کے مقدمہ قتل کا اندراج زیردفعہ 174ض ف درج کیا جبکہ پوسٹ مارٹم رپورٹ کے علاوہ نوجوان کی نعش چیخ چیخ کر اس امر کی گواہی دے رہی تھی کہ نوجوان کو بدترین تشدد کا نشانہ بناکر اسکی آنکھیں نکالی گئیں‘ کان‘ ہونٹ کاٹنے کے بعد سینے میں گولیاں مار کر قتل کرنے کے بعد اسکی نعش نہر اپر جہلم میں پھینک دی گئی مورخہ 6جولائی کو ہی نہر اپر جہلم سرائے عالمگیر کے علاقہ سمبلی سے بائیس سالہ دوشیزہ جس کا نام بعد میں سمیرا کوثر دختر امانت علی ڈاکخانہ خاص کوٹلہ قاسم تحصیل کھاریاں ضلع گجرات معلوم ہوا اور اسکے محبوط الحواس ہونے کا واویلا کیا گیا صد آفرین گجرات کی سپیشل برانچ پر جنہوں نے انتہائی باریک بینی سے ایک ہی یوم میں قتل ہونیوالے لڑکی اور لڑکے کی نعشیں برآمد ہونے پر تفتیش کا دائرہ کار وسیع کیا تو معلوم ہوا ہے کہ لڑکی اور لڑکے نے اپنے اپنے موبائل سے آخری کال ایک دوسرے کو کی تھی ایسے معلوم ہوتا ہے کہ جیسے مقتولہ کے ورثاء نے انتہائی ہوشیاری اور چالاکی کے ساتھ پہلے لڑکی کو قتل کیا اور بعد ازاں لڑکے کو قتل کرکے اسی نہر میں ہی بہا دی یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ سید توصیف حیدر ڈی پی او جو پنجاب کے ماہر تفتیشی افسران میں سرفہرست ہیں اور ایسے معاملات کی تہہ تک پہنچنا انکا طرہ امتیاز ہے ان ہوشرباانکشافات کے سامنے آنے پر انتہائی متفکر ہو گئے اور حکم جاری کیا کہ بائیس سالہ دوشیزہ اور 19سالہ لڑکے کے قاتلوں کو فوری طور پر گرفتار کیا جائے بدقسمتی کی انتہا یہ ہے کہ ایس ایچ او کنجاہ کی طرف سے محکمانہ غفلت کے باوجود وہ ابھی تک تھانہ کنجاہ کے ایس ایچ او تعینات ہیں گجرات کے دو درجن سے زائد تھانہ جات میں ڈی پی او سید توصیف حیدر بطور ایس ایچ او تو کام کرنے سے قاصر رہے یہ تو ایس ایچ او حضرات کی ذمہ داری ہے کہ وہ فوری طو رپر نہ صرف ایسے واقعات کی رپٹ درج کریں اور اغوا کنندگان کی بازیابی کو یقینی بنایا جائے اگر پولیس متحرک ہوتو کسی کو جرات نہیں کہ وہ کسی بیگناہ یا گنہگار کا قتل کرے بدقسمتی کی یہ انتہا ہے کہ گجرات کے درجنوں پولیس اسٹیشنوں میں سے چند ایک ایس ایچ او اپنے کپتان کی عزت کی خاطر اپنی جان تک خطرے میں ڈال لیتے ہیں جن میں کڑیانوالہ تھانہ کے ایس ایچ او راجہ احسان اور ڈنگہ کے ایس ایچ او فراست چھٹہ سرفہرست ہیں محکمہ پولیس کو ایسے ہی افسران پر فخر بھی کرنا چاہیے بلکہ دیگر ایس ایچ اوز کو بھی ان ایس ایچ اوز کی طرح کام کرنے کی ہدایات دی جائیں ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر کی سیٹ ایک ایسی سیٹ ہے جسے لوگ بڑی آرام دہ اور بااثر قرار دیتے ہیں مگر حقیقت میں یہ کانٹوں کی سیج ہے جس پر بیٹھ کر اپنا دن کا سکون اور رات کا چین بھی عوام کی خاطر قربان کر دیا جاتا ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ حساس اداروں کی اس مکمل رپورٹ اور واضع پوسٹ مارٹم کی نشاندہی کے بعد ایک نعش جسے دیکھتے ہی ایک اندھا بھی یہ یقین کر سکتا ہے کہ اس شخص کو قتل کیا گیا ہے تو پھر اسکے قتل کا مقدمہ درج کرنے کی بجائے اسے گول مول کرنے کی کیا ضرورت تھی مگر گجرات پولیس کے سربراہ سید توصیف حیدر ڈی پی او‘ اور پی آر او برانچ کی مداخلت پر واقعہ کا گزشتہ روز 302کا مقدمہ درج کر لیا گیا ہے اب وقت آ گیا ہے کہ سید توصیف حیدر ڈی پی او گجرات میں نکمے‘ راشی‘ پولیس افسران کو ایسا سبق سکھائیں کہ وہ ساری زندگی یاد رکھیں کسی نے تو اپنے حصے کا حق ادا کرنا ہے سمیرا کوثر اور خلیل انجم کا قتل موجودہ ڈی پی او سید توصیف حیدر کے ہوتے ہوئے کبھی بھی رائیگاں نہ جائیگا۔
٭٭٭