مشاہیر کے خطوط بنام عطاء الحق قاسمی کی تقریب رونمائی
یہ ایک بڑی تقریب تھی بڑے لوگ تھے ظاہر ہے گفتگو بھی سننے اور سمجھنے والی تھی مجیب الرحمن شامی صاحب کو کئی بار روبرو بھی سنا مگر اس دن تو گفتگو کا رنگ ڈھنگ ہی کچھ اور تھا بات سے بات نکالتے ہوئے عطاء الحق قاسمی کی شخصیت اور کتاب کے حوالے سے وہ وہ نکتے ڈھونڈ نکالے کہ خود قاسمی صاحب ناک پہ انگلی رکھے خود کو ٹٹولتے رہے۔حقیقت ہے کہ جب شامی صاحب جیسے لوگ بولنے پہ آجائیں تو پھر تاریخ بولنے لگتی ہے دلچسپ انداز میں ثاقب نثار کے اس فیصلے کا ذکر کیا جس میں انہوں نے قاسمی صاحب پر جرمانہ عائد کیا اور انہیں ایک بددیانت شخص کے طور پر رسوا کیا عمومی طور پر کھلے لفظوں میں کہا جاتا ہے کہ ایک صاحب اسلوب قلم کار کی جتنی توہین بطور منصف ثاقب نثار نے کی مجھے یقین ہے کہ روزحشر اسی فیصلے کی وجہ سے انہیں سب سے زیادہ پریشانی اٹھانی پڑے گی مگر وقت گزر گیا جس شخص پر تہمت دھری گئی وہ اب بھی قابل احترام اور مداحوں کے جھرمٹ میں قہقہے لگاتا نظر آتا ہے مگر تہمت لگانے اور فیصلہ سنانے والا رونے کیلئے جگہ ڈھونڈتا ہے مگر جگہ نہیں ملتی یہ قدرت کے فیصلے ہیں جو کسی بھی تعصب اور ناانصافی کے ترازو میں نہیں تلتے۔
مجیب الرحمن شامی نے تاریخ کے ستم کا ذکر کرتے ہوئے عطاء الحق قاسمی کو چٹکیاں بھی کاٹیں۔۔۔مشاہیر کے خطوط بنام عطاء الحق قاسمی کی مرتبہ ڈاکٹر عائشہ کی تعریف کی اور اس کتاب کو قومی ورثہ قرار دیا ایک دو خطوط بھی سنائے مگر فرمائش کی کہ قاسمی صاحب کے وہ خطوط بھی سامنے آنے چاہئیں جو انہوں نے اپنی۔۔۔ مشاہیر۔۔۔ کو لکھے ہیں جس پر قاسمی صاحب نے کہا انشاء اللہ ایسی کتاب کبھی نہیں آئے گی۔
حسن نثار جلدی میں تھے مگر گفتگو تحمل سے کی انداز بیاں ایسا جیسے ایک عاشق اپنی معشوقہ کو پھول پیش کر رہا ہو حسن نثار عموماً ماحول کے الٹ گفتگو کرتے ہیں مثال کے طور پر اگر سبھی برسات کی بات کر رہے ہوں تو وہ آگ کی بات کرتے ہیں مگر یہاں انہوں نے قاسمی صاحب کے لیے عشق کی بات کی یارانے کی بات کی اور خوب کی۔حامد میر کو کسی تقریب میں پہلی بار سنا سکرین پہ وہ کڑویلے نظر آتے ہیں مگر یہاں بہت رسیلے نظر آئے کتاب میں موجود ایک خط میں اپنے دوحرفی ذکر پر بھی خوشی کا اظہار کیا سیاست اور ادبی گفتگو کو آپس میں رلا ملا دیا دکھ بھرے لہجے میں شاعروں اور ادیبوں کے مسائل کا ذکر کیا،ان کی تخلیقی صلاحیتوں کا اعتراف کیا مگر سوسائٹی اور حکمرانوں کی بے حسی کا نوحہ بھی پڑھا پرویز رشید کو مخاطب کرتے ہوئے نواز شریف پر برسے انکے ماضی کے بیانات اور حال کے بیانات کو نمایاں کیااور چند سوال اٹھائے پرویز رشید سہمے ہوئے سٹیج پر آئے اور کہا شکر ہے حامد میر مجھ پر حملہ آور نہیں ہوے مگر نواز شریف کے بارے حامد میر کی گفتگو کو اہم گفتگو قرار دیتے ہوئے کہا اگر ہال میں نواز شریف موجود ہوتے تو حامد میر کی گفتگو کو تحمل سے سنتے اور تالیاں بھی بجاتے سرائیکی چھور رؤف کلاسرا بھی بطور خاص اسلام آباد سے آئے تھے انہوں نے کتاب کی اہمیت کو نمایاں کیا اور یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ جو معاشرے کتاب کے ساتھ جڑ جاتے ہیں وہ سنور جاتے ہیں نکھر جاتے ہیں
اور سدھر بھی جاتے ہیں جن معاشروں نے کتاب اور کتاب لکھنے والوں کو سروں پر بٹھایادنیا نے ایسے معاشروں کے سامنے سر جھکا دیا مگر جو معاشرے کتاب سے دور ہوگئے زندگی سے دور ہوگئے زمانے بھر میں بے کس مجبور ہو گئے اورروشنی سے محروم ہوگئے اگر ہم معاشرے میں روشنی چاہتے ہیں تو پھر ہمیں ادیب اور کتاب کے کلچر کو عام کرنا ہوگا ادیب کی اہمیت کو سمجھنا ہوگا اور کتاب کو ہر وقت بغل میں رکھنا ہوگا۔گل نوخیز اختر اور ابرار ندیم نے بھی خوب رنگ جمایا۔ البتہ نجیب جمال نے کتاب کے خطوط پر تفصیلی گفتگو کی مختلف خطوط کو بہت اہم قرار دیاخط لکھنے والے کی ادبی ثقافتی سیاسی سماجی اہمیت پر روشنی ڈالی بعض ادیبوں کے حال ذار کا بھی ذکر کیا ان کی گفتگو میں بعض مواقع پر جلال اور جمال نظر آیا شامی صاحب کی گفتگو کا مختصر ذکر اوپر آچکا مگر احمد ندیم قاسمی مرحوم کے حوالے سے انہوں نے جو گفتگو کی اس سے میری ہی نہیں بہت سے لوگوں کی آنکھیں نہیں تو دل بہرحال بھر آئے بتا رہے تھے جب بڑے قاسمی صاحب کو مجلس ترقی ادب پنجاب کا سربراہ بنایا گیا تو جس سرکاری گاڑی میں وہ گھر سے دفتر آتے جاتے تھے وہ ایک چھکڑا گاڑی تھی سردیوں میں تو گزارا ہوجاتا مگر گرمیوں میں اس گاڑی میں سفر دورخ کے سفر جیسا تھا سو میں اور عطاء الحق قاسمی کسی طرح اس وقت کے بڑے صاحب تک پہنچ گئے میٹنگ میں موجود سیکرٹری اطلاعات نے گاڑی کی تبدیلی کی درخواست پر اعتراض اٹھایا تو میں نے کہا۔۔۔کیا آپ سمجھ سکتے ہیں کہ برصغیر کا بڑا شاعر افسانہ نگار اسی سال کی عمر میں اس منصب پر اگر بیٹھا ہوا ہے اور جون جولائی کی گرمی میں اس۔۔۔ چھکڑے۔۔۔ میں سفر کر رہا ہے تو اس کی کیا مجبوری ہو سکتی۔۔۔؟یاد رکھیے کل اگر یہ شخص مر گیا تو ہمارے پاس اس جیسا کوئی دوسرا شخص نہیں ہوگا اور آپ بہت افسوس کریں گے۔۔۔
شامی صاحب بتا رہے تھے پھر واقعی بڑے قاسمی صاحب انتقال کر گئے تو اسی سیکرٹری اطلاعات نے فون کر کے مجھ سے اپنی غلطی پر ندامت کا اظہار کیا۔
مشاہیر کے خطوط بنام عطاء الحق قاسمی کتاب کے بارے میں ہر مقرر کی رائے تھی یہ کتاب انتہائی اہم ہے یہ ایک تاریخ ہے جس میں بڑی بڑی شخصیات اپنے خطوط کے ذریعے اپنا تعارف پیش کرتی نظر آتی ہیں۔اس کتاب میں بعض خطوط نوحے جیسے ہیں جنہیں پڑھتے ہوئے آنکھیں بھیگ جاتی ہیں بڑے بڑے تخلیق کاروں کی زندگی کے چھپے ہوئے راز کھلتے نظر آتے ہیں اور سب سے بڑی بات کہ بعض ادیبوں نے عطاء الحق قاسمی کو خط لکھتے ہوئے جس طرح اپنا دکھ درد بیان کیا ہے وہ غیر معمولی بات ہے اور بعض نے جس طرح عطاء الحق قاسمی کی تحریروں ادب دوستی سماجی رویوں کی تعریف کی ہے یہ عطاء الحق قاسمی کا ہی اعزاز ہے۔