قائد اعظمؒ کا پاکستان اب دور نہیں

قائد اعظمؒ کا پاکستان اب دور نہیں
قائد اعظمؒ کا پاکستان اب دور نہیں

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app




چیف جسٹس کے بروقت سو موٹو ایکشن، سپریم کورٹ کے فوری فیصلے اور پلانٹڈ انٹرویوکے بعد قران پاک کے سائے تلے ایک اور پریس کانفرنس کا انجام وہی ہوگا جو پہلی کانفرنس کا ہوا تھا۔گو کہ ملک ریاض کا سیاسی قد ذوالفقار مرزا والا نہیں، لیکن ملک کی پوری سیاسی قیادت ماسوائے چودھری نثار کے اس کے سامنے ننگی ہے ،اس لئے بعید نہیں کہ یہ پراپرٹی ٹائی ٹینک اپنے ساتھ اور بھی بہت ساروں کو ڈبو دے۔نہ صرف سیاسی اور فوجی لیڈر شپ، بلکہ میڈیا کے ٹائیکونوں سمیت ، دیگر بہت سارے سورماﺅںکو بھی۔
گو کہ اس وقت اتنی دھند ہے کہ کچھ نظر نہیںآرہا، کچھ سمجھ نہیں آرہا۔ملک ریاض کی باتیں سنیں تو لگتا ہے کہ ان سے زیادہ مظلوم کوئی ہے ہی نہیں۔جتنا ظلم ان پر سپریم کورٹ نے کیا ہے، شاید کسی دشمن ملک کی عدالت بھی نہ کرتی تو دوسری طرف وہ کسی تحقیقاتی کمیشن تک کو بھی قبول کرنے کو تیار نہیں،یعنی انہیں بھی ڈوگر کورٹ چاہیے۔کیونکہ موصوف کے مطابق یہاں ہر چیز خریدی جاتی ہے۔ ارسلان کی آڑ میں چیف جسٹس کی ذات اور عہدے کو متنازع بناکر بھی کہہ رہے ہیں کہ انہیں چیف جسٹس اور عدلیہ کے باقی ججوں پر اعتماد ہے ،لیکن کل یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ چیف جسٹس اور ان کے درمیان چونکہ معاملات ٹھیک نہیں تھے ،اس لئے وہ عدلیہ کے دیگر ججوں پر بھی اثر انداز ہوئے ہیں ،یعنی پورے ادارے کو ہی متنازع بنا کر اس کی ساکھ ہی ختم کررہے ہیں۔ چاہے سول بیوروکریسی ہو یا سیاسی لیڈر شپ ، حاضر سروس جنرل ہوں یا ریٹائرڈ پہلے ہی دولت کے زور پر انکے ساتھ تھے اور اب تو میڈیا کے بھی ایک بڑے اور با اثرحلقے کو اپنے ہم نوا بنا چکے ہیں۔ صرف سپریم کورٹ بچی تھی، جس کو گستاخی کی سزا مل رہی ہے ۔
 اس سزا کی اصل وجہ وہ ہو ہی نہیں سکتی جو یہ بتا رہے ہیں ۔اس کے پیچھے کہانی ہی کوئی اور ہے۔ شاید اصل حقیقت جاننے کےلیے ہمیں پھر کسی وکی لیکس کا انتظار کرنا پڑے گا۔ہو سکتا ہے کہ ملک ریاض بھی استعمال ہوئے ہوں یا ہو رہے ہوں ،کیونکہ پرویزمشرف کی طرح یہ حکومت بھی الیکشن سے پہلے چیف جسٹس کو ہٹانے کی کوشش کرے گی ۔پھریہ پہلی بار ہوا ہے کہ سپریم کورٹ نے ان مقتدر قوتوں کو بھی عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کیا ہے جو کسی کو جوابدہ نہیں تھے، بلکہ حکومتیں بناتے اور گراتے تھے۔جنھوں نے ریاست کے اندر ریاست بنا رکھی تھی۔بھلا ایسا چیف جسٹس کیسے قبول ہو سکتا ہے جوکمزوروں کو بھی انصاف دینے کی بات کرتا ہو ،بلکہ دلاتا بھی ہو،یعنی چیف جسٹس کوایک اور ریفرنس کا سامنا کرنا پڑئے ۔سمندر میں رہ کر اتنے سارے مگرمچھوں سے بیک وقت لڑنے کا انجام یہی ہو سکتا تھا ، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہی ہمارا مقدر ہے،کیا عام شہری اسی طرح کسی نہ کسی کا یرغمال بنا رہے گا؟
سیاستدان ہوں یا کوئی اور ....ہر کوئی یہی سمجھتا ہے کہ عوام اتنے بیوقوف ہیں کہ جویہ کہیں گے، وہ مان لیں گے ۔ ملک ریاض کی دولت کو دیکھتے ہوئے 34کروڑ کوئی بڑی رقم نہیں تھی اس کے لئے۔اس سے کئی گنا زیاد تو وہ سیاستدانوں پر انوسٹ کرتا رہتا تھا ۔ جو معمولی ٹھیکیدار سے کھرب پتی بن سکتا ہے، اتنا بھولا بھالا نہیں کہ ارسلان اسے بلیک میل کرسکے ۔ جس کے صدراور وزیر اعظم تک تعلقات ہیں، وہ اتنابے بس نہیں کہ ارسلان اس کا کچھ بگاڑ سکے ۔ تو پھر اسے یہ سب ٹوپی ڈرامہ کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ اس ٹوپی ڈرامے میں سب سے زیادہ نقصان ہوا ہے تو بے چارے غریبوں کا ہوا ہے۔ایک طرف تو لاکھوں غریب جن کی یہ کفالت کرتا تھا، پتہ نہیں اب ان کا کیا بنئے گا ۔ سب سے بڑا نقصان ہوا ہے، اس ملک کے 98 فیصد عام پاکستانیوں کا جن کا آخری سہارا ،آخری اُمید تھی سپریم کورٹ ....لیکن افسوس کہ اس کو بھی متنازع بنا دیاگیا ہے۔ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا۔ یہ ملک ان کا بھی ہے، صرف مقتدر قوتوں کا نہیں، بلکہ مقتدر قوتیں تو صرف اسے لوٹتی ہیں اور لوٹ کھسوٹ کا پیسہ یورپ امریکا پہنچا دیا جاتا ہے، جبکہ غریب نے یہاں ہی جینا ہے اور یہاں ہی دفن ہونا ہے۔ غریب کی آخری اُمید کو بجھنا نہیں چاہیے۔
یوں لگتا ہے کہ یہ کوئی اور ہی معاملہ ہے ۔ شاید قدرت کو کچھ اور ہی منظور ہے۔چاہے عدلیہ کے خلاف سازش ہو یابیٹے کے بدلے بیٹے کا انتقام ہو یا دولت کے بل بوتے پر انصاف خریدنے کی کوشش یا نگران وزیر اعظم بننے کی تمنا یاوہ سب سچ ہو جو یہ کہہ رہا ہے لیکن ٹارگٹ چیف جسٹس صاحب ہیں ،نہ کہ ارسلان۔ اب تک چونکہ کوئی بھی ایسی خبر نہیں جس کی وجہ سے چیف جسٹس کی ذات پر کوئی حرف آتا ہو، بلکہ عدلیہ کا کوئی بھی جج اس میں ملوث ہو، اس لئے اُمید ہے کہ عدلیہ اور چیف جسٹس کا وقار تو برقرار رہے گا، لیکن ملک ریاض اینڈ کمپنی کا انجام اگر ذوالفقار مرزا جیسا نہ بھی ہوا تو زیادہ مختلف نہیں ہوگا، کیونکہ اکثر اُلٹ جاتیں ہیں تدبیریں“....چیف جسٹس کو معزول کرنے سے پہلے کون کہہ سکتا تھا کہ جنرل پرویز مشرف کا انجام ایسا ہوگا۔ ملک ریاض انتہائی دولت مند بااثر شخص سہی، لیکن اختیارات اور طاقت میں پرویزمشرف سے زیادہ نہیں۔اس کی دولت حسنی مبارک، قذافی اور زین العابدین سے بھی زیادہ نہیں۔
کون ڈوبتا ہے ،کون رہتا ہے ،یہ بعد کی بات ہے، لیکن اس سکینڈل نے چیف جسٹس کو ایک بار پھر عوام کے سامنے سرخرو کر دیا ہے۔ اپنے ہی بیٹے کے خلاف سو مو ٹو ایکشن لے کرانہون نے حق ادا کردیا ہے۔ چند ماہ پہلے وزیر اعظم کے بیٹے پر بھی الزام لگا تھا، لیکن گیلانی صاحب نے چیف جسٹس صاحب کے بالکل برخلاف کیا تھا۔ ان کے خلاف ایکشن لینے کے بجائے اے این ایف کے سب افسران ہی تبدیل کر دئیے تھے۔کتنا اچھا ہوتااگرگیلانی صاحب بھی چیف جسٹس صاحب کی طرح کیس پر اثر انداز نہ ہوتے۔اگر ارسلان مجرم ثابت ہو جاتے ہیں اورانہیں عدالت سے سزا بھی ہو جاتی ہے تو یہ ایک نئے پاکستان کی بنیاد ہوگی۔اس سے قوم کی تقدیر بدل جائے گی۔ سول سوسائٹی کے لئے اس سے بہتر اور کیا ہو سکتاہے کہ موجودہ تعفن زدہ ماحول میں کہ کسی بڑے کا بیٹا بھی قانون کی گرفت میں آسکتا ہے ۔ اگر ایسا ہوا تو پھر بڑوں کے بیٹے بھی سوچیں گے کہ وہ قانون سے بالا تر نہیں ہیںکبھی، نہ کبھی وہ بھی قانون کی گرفت میں آ سکتے ہیں۔ایک عام شہری بھی کسی بڑے کے خلاف عدالت میں جا سکتا ہے کہ انصاف صرف بڑوں کے لئے نہیں، بلکہ ان کو بھی مل سکتا ہے ۔
صرف گیلانی صاحب ہی نہیں چودھری برادران بھی اپنے بیٹے کو بچانے کے لئے اس جماعت سے بغل گیر ہوگئے، جس سے نفرت کی بنیاد پر ہی سیاست کر رہے تھے ۔ یہ نفرت کوئی دو چار مہینوں یا سالوں کی نہیں تھی، بلکہ چودھری ظہور الٰہی، بھٹو کے بد ترین مخالفین میں سے تھے۔ اسی نفرت کے سبب انہوں نے وہ قلم ضیاءالحق سے مانگاتھا جس سے بھٹو کی پھانسی کے پروانے پر دستخط کئے گئے تھے۔ اس نفرت کا اظہار گزشتہ الیکشن میں بھی دیکھنے میں آیا تھا۔الیکشن سے پہلے پیپلز پارٹی او رمحترمہ بینظیر بھٹو کے خلاف پرویز الٰہی کی تقریں اوراشتہارات ابھی بھی عوام کے ذہنوں میں ہیں، لیکن بیٹے کو چھڑوانے کے لئے پیپلز پارٹی کی حکومت کو کندھا پیش کردیا ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر پاکستان ٹوٹنے کی بنیاد ایوب دور میں پڑی تھی تو پاکستان کی ترقی کی بنیاد بھی اسی کے دور میں پڑی۔ اس بات کی بھی تاریخ گواہی دیتی ہے کہ ایوب کی نیک نامی میں پہلا داغ ان کے ہی بیٹے گوہر ایوب کی وجہ سے لگا تھا۔ کاش اگر اُس وقت ایوب بطور صدر اپنے صاحبزادے کی حرکتوں کا نوٹس لے کر اسے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی طرح عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کروادیتے تو آج ہم دنیا کی کرپٹ ترین قوموں میں سے ایک نہ ہوتے اور نہ ہی قانون حکمرانوں، امیروں اورطاقتورں کے گھر کی لونڈی بنتا۔
گوکہ اس وقت کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہے، لیکن اُمید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے ۔شاید ایک لمبی لڑائی کے نتیجے میں ایک نئے پاکستان کی بنیاد پڑے، اسی راستے سے گزر کر ہمیں قائد اعظم کا پاکستان ملے.... ایک جدید مسلم ویلفیئر اسٹیٹ....جہاں جرنیلوں، وڈیروں، جاگیرداروں، سرمایہ داروں کی نہیں،بلکہ قانون کی حکمرانی ہو ،جہاں سول سوسائٹی طاقتور ہو،جہاں ہر ایک کی جان مال محفوظ ہو اور غریب کو بھی سستا اور فوری انصاف ملے۔  ٭

مزید :

کالم -