اپنے حصے کی شمع

اپنے حصے کی شمع
اپنے حصے کی شمع

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مشہور ترک کہاوت ہے کہ شیر سے زیادہ جاہل آدمی سے ڈرو، کیونکہ تعلیم یافتہ اورہنر مند افراد خونخوار اور خوفناک شیر کو تو رام کر سکتے ہیں اور اسے پنجرے میں بند کر کے اس کے خوف اور ڈر سے نجات حاصل کر سکتے ہیں، لیکن جاہل آدمی کو راہ راست پر لانا بہت مشکل ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ جو قومیں شرح خواندگی میں آگے ہیں، وہی دوسرے شعبوں میں سبقت لے جاتی ہیں اور ترقی، خوشحالی، امن و ہم آہنگی اور اقوام عالم میں اپنی موجودگی کامضبوط احساس دلا سکتی ہیں.... خود ترکی ہی کی مثال لے لیں، آج کا ترکی اگر ترقی اور خوشحالی کے زینے طے کر رہا ہے تو یہ تعلیم کے شعبے میں انقلاب کی بدولت ہی ہے۔ آپ کو یہ پڑھ کر خوشگوار حیرت ہوگی کہ ترکی کی موجودہ حکومت نے اپنے اس سال کے مجموعی بجٹ کا 38فیصد حصہ تعلیم کے شعبے کی ترقی اور ترویج کے لئے مختص کیا ہے، یہی نہیں انٹرمیڈیٹ تک تعلیم لازمی اور سرکاری سکولوں میں مفت فراہم کرنے کا اعلان بھی کیا ہے۔ گزشتہ 10سال میں شرح خواندگی 80فیصد سے بڑھ کر 97فیصد تک جا پہنچی ہے اور موجودہ حکومت اسے 2015ءتک 100فیصد تک لانے کی کوشش کررہی ہے۔ ترکی کی 74ملین آبادی والے ملک میں کل سکول 67ہزار، جبکہ 167یونیورسٹیاں اعلیٰ تعلیم کے لئے موجود ہیں، 60سے زائد ریسرچ سنٹر اور پرائمری سکولوں میں بچوں کے داخلے کے اندراج کی شرح 100فیصد ہے۔ آج جو مثبت تبدیلی ترکی میں ہمیں نظرآرہی ہے۔ اس کے پیچھے ترک قوم کی 20سے 30سالہ محنت ہے، جو اس نے تعلیم اور سماجیات کے شعبے میں کی ہے۔
دوسری طرف وطن عزیز پاکستان میں شعبہ تعلیم کا بجٹ گزشتہ کئی سال سے بڑھنے کی بجائے کم ہوتا رہا ہے اور گزشتہ سال 2011ءمیں مجموعی بجٹ کا 1.3فیصد حصہ تعلیم کے لئے مختص کیا گیا، جبکہ اس سال بھی کوئی خاطر خواہ رقم تعلیم کے شعبے کی ترقی کے لئے مخصوص نہیں کی گئی۔ یہ امر باعث اطمینان ہے کہ امسال خیبرپختونخوا حکومت نے تعلیم کے لئے بجٹ کا 4فیصدحصہ مخصوص کرنے کا اعلان کیا ہے، دیگر صوبوں میں اس کی شرح 2فیصد سے بھی کم ہے۔ وفاقی حکومت نے اس سال کے بجٹ کا اہم حکومتی ہدف بجلی اور ملازمت کی فراہمی کو قرار دیا ہے۔
جب سے وفاقی سطح سے تعلیم کا محکمہ ختم کر کے صوبوں کے حوالے کیا گیا ہے، تب سے اس حوالے سے کوئی واضح صوبائی پالیسی اور حکمت عملی سامنے نہیں آسکی۔شرح خواندگی کے اعتبار سے 204ممالک کی فہرست میں پاکستان کا نمبر 185واں ہے، جس کی مجموعی شرح خواندگی حکومتی اعداد و شمار کے مطابق تقریباً 60فیصد ہے۔ پاکستان کی آبادی 18کروڑ سے زائد ہے، یعنی ترکی سے دوگنا سے بھی زیادہ اورہمارے ہاں تقریباً 1لاکھ 75ہزار 8سو سکول اور تقریباً 128اعلیٰ تعلیم کے لئے یونیورسٹیاں دستیاب ہیں، 100سے زائد ریسرچ سنٹر اور ڈراپ آﺅٹ کی شرح50فیصد ہے، جو بہت خطرناک صورت حال کا پتہ دیتی ہے۔
اس تجزیے اور تقابلی جائزے سے واضح ہوتا ہے کہ اگر ترجیح درست ہو تو منزل پانا آسان ہو جاتا ہے اور ہدف آسانی سے حاصل کیا جاسکتا ہے اور اگر ترجیحات درست نہیں ہوں تو منزل کہیں دور چلی جاتی ہے۔ بلاشبہ مجموعی قومی ترقی سوچ، طرز فکر، امن،روا داری اور خوشحالی کے حصول میں تعلیم کا کردار انتہائی اہم ہے، لیکن اس کے ساتھ معیشت کی ترقی، سائنس و ٹیکنالوجی اور جدید علوم و فنون کا حصول، معاشرتی ہم آہنگی، سیاسی استحکام قانون کا احترام، اداروں کی کارکردگی اورمجموعی قومی اقدار، ثقافت، تہذیب و تاریخ کاپرچار بھی قوموں کی پیشرفت میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ مذہب، زبان اور مشترکہ ورثہ بھی اتحاد اورہم آہنگی و یگانگت پیدا کر سکتے ہیں۔
سیڑھیاں درجہ بدرجہ طے کی جاتی ہیں.... ایک دوسری ترک کہاوت کے مطابق آپ جتنے بھی غلط راستے پر آگے نکل چکے ہوں، واپسی کا راستہ ہمیشہ کھلا رہتا ہے اورواپس آنے میں مزید دیر نہیں کرنی چاہیے۔ اردو کی مشہور کہاوت ہے کہ صبح کا بھولا اگر شام کو لوٹ آئے تو اسے بھولا ہوا نہیں کہتے۔جہاں تک پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کا تعلق ہے تو یہ امر باعث صدشکر ہے کہ قدرت نے اس خطہ جہان کو انواع و اقسام کی نعمتوں اور خوبیوں سے نوازا ہے، آئیے ذرا ان نعمتوں کا ذکر کرتے ہیں....پاکستان دنیا کے ان چند ممالک میں سے ایک ہے جس کی 63فیصد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے، یہ نوجوان محنتی، جفا کش، ذہین اور کچھ کر گزرنے کا جذبہ و عزم رکھتے ہیں۔ ان کی سرپرستی اور ان کو اپنی ذہانت و قابلیت کالوہا منوانے کے لئے پلیٹ فارم درکار ہے، ان کی تعلیم و تربیت اور حوصلہ افزائی ضروری ہے۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہے، قدرت نے ہمیں زرخیز زمین اور بہترین نہری نظام سے نواز رکھا ہے، ہمارا کسان محنتی اور جفاکش ہے۔ یہاں ہر قسم کی فصل، پھل،سبزی، لائیو سٹاک اورہر قسم کا موسم ہے، اگر زراعت اور کسان و زمیندار پر ہی بھرپور توجہ دی جاتی توہمارا ملک اور ہم خودکفالت کی منزل حاصل کر کے خود اپنے پاﺅں پر کھڑا ہو سکتے ہیں۔
پاکستانیوں کا شمار دنیا میں زیادہ سے زیادہ خیرات دینے اور فلاحی کاموں میں حصہ لینے والے ممالک کے باشندوں میں ہوتا ہے۔ یہاں بہت سے لوگ فلاحی ادارے چلا رہے ہیں، لوگ اپنی زکوٰة، خیرات اور صدقات سے ہزاروں بچوں، بچیوں، غریبوں اور مساکین کے کام آرہے ہیں، اگر فلاحی اداروں اور تنظیموں کا دائرہ کار وسیع کر کے ا سے لوگوں کی بحالی اور غربت کے خاتمے اور ملازمت کے مواقع پیدا کرنے میں تبدیل کر دیا جائے تو اس سے بہت سے فوائد حاصل کئے جاسکتے ہیں، نیز ہر سیاستدان اور بڑے زمیندار، صنعتکار، کاروباری اور امیر شخص پر لازم ہو کہ وہ فلاحی کاموں میں اپنی جیب سے مخصوص رقم خرچ کر کے مفاد عامہ کے منصوبے چلائے تو اس سے بھی معاشرے میں غربت کو ختم کر کے بھائی چارے اور رواداری کو فروغ دیا جاسکتا ہے۔ میڈیا اور عدلیہ کا کردار پاکستان میں جمہوریت اور آزادی رائے کے ساتھ ساتھ انصاف کو فروغ دینے میں اہم رہا ہے۔ خوش قسمتی سے یہ 2ادارے آج آزادی اور خود مختاری سے اپنا کردار ادا کررہے ہیں، ضرورت اس بات کی ہے کہ باقی ادارے، جیسے مقننہ اور انتظامیہ کے علاوہ بھی دیگر اداروں کو آزاد و خود مختار ہو کر قومی ترقی میں اپناکردار ادا کرنا ہوگا۔
صنعت و حرفت اور فنی تعلیم کا حصول بھی مجموعی قومی ترقی میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ توانائی کے بحران پر قابو پاکر اس مشکل کوحل کر دیا جائے توہمارے بہت سے شعبے، جیسے ٹیکسٹائل، کھیلوں کا سامان، آلات جراحی، گھریلو صنعت و دستکاری اور دیگر برآمدات میںاضافہ کیاجاسکتا ہے۔ بعض اوقات بیرون ملک سے آنے والے لوگ اور ماہرین، جن میں ہمارے ترک دوست بھی شامل ہیں،بڑے حیران ہوتے ہیںکہ تمام طبعی خدوخال، موسم، وافر وسائل، زرخیز زمین اور ذہین قوم ہونے کے باوجود پاکستان پسماندہ کیوں ہے؟پانی، کوئلہ، سورج کی گرمی، گیس اور قدرتی وسائل ہونے کے باوجود توانائی کی کمی اور لوڈ شیڈنگ کیوں ہے؟؟63فیصد نوجوان ہونے کے باوجود ان کی توانائیوں کو بروئے کار کیوں نہیں لایا جارہا؟؟؟

آپ کہیں گے کہ یہ سب ممکن ہے، لیکن ہمارے پاس دیانتدار، محب وطن قیادت کی کمی ہے۔ عرض یہ ہے کہ وطن عزیز کی قیادت اسی ملک سے انہیں لوگوں سے اور اسی سرزمین سے سامنے آئے گی، اگر ہمیں انفرادی طور پر اپنے ووٹ کے حق کا صحیح ادراک اور اہمیت کا پتہ چل جائے تو یقینا ہم دوبارہ ووٹ کاسٹ کرتے وقت کئی بار ضرور سوچیں گے، لیکن ہمارا ووٹر تو زیادہ تر ان پڑھ اور ذات برادریوں کی وجہ سے ووٹ دیتا ہے، اسے اپنی اس متاع عزیز اور سرمایہ کی قیمت کا احساس شاید زیادہ نہیں ہے۔ اگر ہم ایک ایسی قیادت سامنے لانے کی خواہش رکھتے ہیں ،جو ملک کو ترقی اور خوشحالی کی شاہراہ پر چلا دے تو ہمیں اس کا آغاز اپنی ذات سے کرناہوگا، اپنے ووٹ کا صحیح استعمال کرنا ہوگا اور سب سے اہم بات اپنی نوجوان نسل کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنا ہو گا، وہ تعلیم جو معاشرے میں مثبت تبدیلیاں ، ورنہ صرف تنقید سے کام یونہی، چلتا رہے گا، جیسے گزشتہ 65سال سے چل رہا ہے، لہٰذا تبدیلی کا آغاز اپنی ذات اور سوچ سے اپنے آپ اور اپنے گھر سے کرنا ہوگا، اپنے حصے کی شمع جلانی ہوگی۔

مزید :

کالم -