مولانا فضل الرحمن کے بیان کی حقیقت اور پرسپشن
اگلے روز مولانا فضل الرحمن صاحب نے ایک بیان میں فرمایا کہ فوج کا ایک دن کا بجٹ، ملک کے تعلیم و صحت کے مجموعی سالانہ بجٹ سے زیادہ ہے۔.... مولانا کا یہ شکوہ بے جا ایسا شکوہ ہے جس کو اقبال نے اپنی مشہور نظم ”جواب شکوہ“ میں ایک شرط کے ساتھ مشروط کر دیا ہے۔ فرماتے ہیں:
شکوہ بے جا بھی کرے کوئی تو لازم ہے شعور
مولانا کو پہلے سوچ لینا چاہئے تھا کہ وہ جو دعویٰ کر رہے ہیں اس کا ثبوت بھی موجود ہے یا نہیں؟ پہلے ان کو تعلیم اور صحت کا سالانہ بجٹ معلوم کرنا چاہئے تھا اور پھر فوج کے بجٹ کی طرف آنا چاہئے تھا۔ اس بجٹ کو 365پر تقسیم کر کے دیکھنا چاہئے تھا کہ رقم کتنی بنتی ہے اور پھر حکم لگانا چاہئے تھا کہ یہ ایک دن کا بجٹ، ملک کے سالانہ تعلیمی اور طبی خرچے سے زیادہ ہے۔ صدر پرویز مشرف کے زمانے میں مولانا کی جماعت نے پانچ برس تک ایک صوبے پر حکومت کی۔ اس سے پہلے اور اس کے بعد بھی وہ ”حسب ِ ضرورت“ ملک کی فیڈرل حکومتوں میں شامل رہے ہیں۔ ان کو اپنے کسی سابق صوبائی وزیر خانہ سے ہی معلوم کر لینا چاہئے کہ پاک فوج کا روزانہ کا خرچ کیا ہے.... ان کا یہ بیان ان کے مذہبی قد کاٹھ، شرعی سراپا اور دینی علم و فضل کے مقابلے میں نہائت بونا اور ناقابل اعتبار لگتا ہے۔
ہم سب جانتے ہیں کہ حقیقت اور پرسپشن کے درمیان اگر مقابلہ ہو جائے تو کون جیتتا ہے۔ اگر کوئی شخص پانچوں وقت مسجد میں باجماعت نماز ادا کرتے دیکھا جاتا ہے تو اس کی شخصیت ایک پاک باز اور راست گو انسان کے طور پر دیکھنے والوں کی نظر میں ہوتی ہے۔ اسی شہرت کو پرسپشن کا نام دیتے ہیں اور اگر وہ ”پاک باز اور نمازی“ شخص اپنی نجی زندگی میں بلا کا عیار، دھوکے باز اور خیانت کار ہو تو یہ حقیقت وہ ہوتی ہے جو لوگوں کی نگاہ سے بوجوہ اوجھل رہ سکتی ہے۔ اس شخص کے کردار کی پرسپشن اور حقیقت کے درمیان180ڈگری کا یہ فرق وہی فرق ہے جو مَیں قارئین کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں کہ پرسپشن، بسا اوقات حقیقت سے زیادہ مضبوط اور قابل اعتماد ہوتی ہے، حالانکہ حقیقی نہیں، مصنوعی ہوتی ہے۔
اس تصویر کا دوسرا رُخ بھی مَیں نے کسی مبلغ سے سنا تھا کہ اگر کوئی شخص نمازیں اور دیگر مذہبی وظائف لوگوں کی نگاہوں سے چھپ چھپ کر ادا کرتا ہے اور ظاہراً تھڑوں پر بیٹھ کر تاش کھیلتا اور سمگلنگ کا کاروبار کرتا ہے تو اس کے کردار کا پرسپشن منفی صفات کا حامل سمجھا جائے گا، مثبت کا نہیں۔ اسی مبلغ نے آخر میں یہ نصیحت بھی کی تھی کہ انسان کو محض دیانت اور نکو کاری پر عمل پیرا ہی نہیںہونا چاہئے، بلکہ دیانت دار اور صاحب ِ کردار ہونے کی شہرت بھی رکھنی چاہئے.... جو لوگ پبلک لائف کے شعبے میں جاتے ہیں ان کو حقیقت اور پرسپشن دونوں کی ضرورت ہوتی ہے۔
ابھی حال ہی میں ایک نجی ٹیلی ویژن چینل پر ساری دُنیا نے نظارا کیا کہ حقیقت اور پرسپشن میں کتنا بُعد ہوتا ہے۔ ملک ریاض کے انٹرویو سے پہلے پبلک میں مبشر لقمان صاحب اور مہر بخاری صاحبہ کا امیج پبلک میں کیا تھا اور محض چند منٹوں کی ٹیلی ویژن فوٹیج نے اس میں کیا تبدیلی پیدا کر دی، اس کا حال اور حشر ہم دیکھ چکے ہیں۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ جب تک حقیقت واضح نہ تھی اور پردے میں مستور تھی، تب تک ان دونوں ٹی وی اینکرز کی پرسپشن بالکل مختلف تھی۔
افواجِ پاکستان کا المیہ یہ ہے کہ اس کے متعلق حقائق اور پرسپشن میں ہمیشہ مبالغہ اور غلو سے کام لیا جاتا رہا ہے۔1947ءسے لے کر نئی ہزاری کے آغاز تک اس کی پرسپشن میں تعریف و توصیف کا پہلو حد درجہ مبالغہ آمیز رہا.... آپ دُنیا بھر کی تاریخ جنگ و جدل کا مطالعہ کر لیں، آپ کو وہ ”مورال بوسٹر“ نظر نہیں آئیں گے، جن کو ہم پاکستانیوں نے بالخصوص1965ءکی پاک بھارت جنگ میں استعمال کیا۔ قوم کے شاعروں، صورت گردں اور افسانہ نویسوں نے اپنی مسلح افواج کی ستائش میں زمین و آسمان کے قلابے ملا دیئے جبکہ دوسری جنگ عظیم میں جب ہٹلر نے سارے یورپ کو فتح کر لیا تھا تب بھی جرمن عوام اس کی مدح سرائی میں کسی غلو سے کام نہیں لیا کرتے تھے اور جب 30اپریل 1945ءکو اس نے خود کشی کر لی تو تب بھی جرمنوں نے ہٹلر کے امیج کو اپنی یادوں سے کسی حرفِ غلط کی طرح نہیں مٹایا۔ لیکن پاکستانیوں نے جس طرح1965ء میں قومی نغموں، ترانوں، شہادت کی انفرادی داستانوں، دشمن کی شکست کے افسانوں اور اپنی فتوحات کے شادیانوں کا ڈھنڈورا پیٹا وہ عارضی مورال بوسٹر تھا، لیکن افسوس کہ دوامی مورال ڈسٹرائر تھا۔ پھر چھ برس بعد 1971ءکی جنگ میں مشرقی پاکستان کے سقوط نے 1965ءکی ”فتح“ کے غبارے سے جب ہوا نکالنا شروع کی تو دن بدن نکلتی چلی گئی۔.... ایوب خان کا پہلا مارشل لاءاگر قوم کے لئے نجات دہندہ بن کے آیا تو چوتھا مارشل لاءکلنک کا ٹیکہ بن گیا۔ اب تو افواج پاکستان کو کوسنا ایک فیشن بن گیا ہے۔.... مولانا فضل الرحمن کا بیان ہمیں اس تناظر میں دیکھنا چاہئے....
مولانا کو یہ خبر تو ہو گی کہ حال ہی میں نیب(NAB) کے چیئرمین نے کہا تھا کہ پاکستان میں روزانہ پانچ ار ب روپوں کی کرپشن ہو رہی ہے۔ مولانا سے پوچھا جائے کہ کیا یہ کرپشن افواج پاکستان کر رہی ہیں؟.... پانچ ارب روپے روزانہ کو اگر سالانہ رقم میں تبدیل کریں تو یہ1725ارب روپے بنتی ہے۔ ذرا حساب لگائیں کہ ملک کے17کروڑ عوام اگر سالانہ 1700ارب کی کرپشن کریں تو ہر مرد و زن، بچے، بوڑھے اور جوان کے حصے میں کتنے کروڑ کی”روزانہ کرپشن“ آئے گی۔ کیا فوج نے قوم کو مجبور کیا ہے کہ وہ یہ ”دھندا“ اختیار کرے؟.... مولانا کو اس جانب بھی توجہ فرمانی چاہئے۔
گزشتہ65برسوں کے بجٹوں کے اعداد و شمار پر نظر ڈالیں.... آپ کو پتہ چلے گا کہ فوج کا اس سال (2012-13ئ) کا میزانیہ، گزشتہ تمام میزانیوں سے کم ہے۔ مولانا فوج کے بجٹ کو ملک کی صحت اور تعلیم کے مقابل نہ لائیں۔ کل کو وہ یہ استدلال بھی کر سکتے ہیں کہ پاکستان میں اسلام کی تعلیم و ترویج کے لئے جو بجٹ رکھا گیا ہے وہ فوج کے ایک ڈویژن کے بجٹ سے بھی کم ہے۔ تعلیم و صحت اور افواج کے درمیان کوئی قدر مشترک نہیں۔ دونوں اپنی اپنی جگہ ایک جداگانہ حیثیت اور اہمیت کے حامل شعبے ہیں۔ ان کی اہمیت اور اُن کی ضروریات میں بُعد المشرقین ہے۔ مولانا کو چاہئے تھا کہ وہ اپنے سب سے بڑے دشمن، بھارت کا ذکر کرتے اور بتلاتے کہ بھارت کا دفاعی بجٹ، پاکستان کے دفاعی بجٹ کا کتنے گنا ہے۔ ان سے یہ بھی پوچھا جا سکتا ہے کہ بھارت کے تعلیم اور صحت کے شعبوں کا بجٹ کتنا ہے اور پاکستان کے تعلیم و صحت کے شعبوںکے بجٹ کا حجم کیا ہے۔
مولانا کے اس بیان سے ملک کے دشمنوں کو ہی تقویت ملے گی، دوستوں کو نہیں۔ مولانا ایک نہائت زیرک اور معاملہ فہم سیاست دان سمجھے جاتے ہیں۔ یکجائی سیاسیات کے علی الرغم ہرجائی سیاسیات پر یقین کامل رکھتے ہیں۔ ان کے ظاہری سراپا کو ان کے”علوم باطنی“ کا آئنہ دار نہیں کہا جا سکتا ہے۔ ان کی شہرت بطور ایک عالم دین کے نہیں، بطور ایک ایسے سیاست دان کے سمجھی جاتی رہی ہے،جو ہمیشہ حکمران پارٹی کے ساتھ مل جاتے رہے ہیں۔ ان کے ہاں دین اور سیاست میں کوئی جدائی نہیں اس لئے انہوں نے دونوں کے ”وصل“ کو اصل مقصودِ زیست بنایا ہوا ہے۔ نجی ٹیلی ویژن چینلوں کے صاحبان ِ اختیار کو کسی مذہبی مسئلہ پر کسی مشکل کا حل دریافت کرنا ہو یا کسی دینی نقطہ نظر کی وضاحت درکار ہو تو وہ مفتی منیب الرحمن صاحب کی طرف زیادہ رجوع کرتے ہیں۔ یہ بات باعث صد افسوس ہے کہ پاکستان کی مذہبی جماعتوں کا پرسپشن، علوم سیاسیات پر اُن کی دسترس کے کیف و کم سے عبارت ہے نہ کہ علوم دینیہ پر ان کے عبور اور شہرت سے.... پاکستان کی کسی ایک مذہبی جماعت کا تصور کریں توآپ کو حقیقت اور پرسپشن کے معانی کا فرق معلوم ہو جائے گا!
حقیقت اور پرسپشن کا ایک واقعہ اب تک یاد ہے.... میرے شہر پاک پتن میں، شہر کے مضافات میں ایک محلہ ہوا کرتا تھا جس کا نام ”پیر کریاں“ تھا۔ اب بھی شائد یہی نام ہو، لیکن اب پاک پتن کے مضافات تبدیل ہو کر کہاں سے کہاں نکل گئے ہیں۔ وہاں مَیں اپنے پرائمری سکول کے زمانے کے ایک استاد، جناب محمد اسماعیل صاحب کو ملنے گیا۔ وہ حقہ کشی کے شیدائی تھے اور ان کا ڈرائنگ روم(بیٹھک) ہمہ وقت یارانِ تمباکو نوشاں کی گفتگو سے ہمہماتا رہتا تھا۔ مَیں نے جا کر سلام کیا اور بان کے بنے ہوئے ایک مونڈھے پر جا کر بیٹھ گیا۔
میرے ساتھ ایک دھان پان اور بڑی ہی نستعلیق قسم کے ادھیڑ عمر کے ایک حضرت نگاہیں نیچے کئے بیٹھے تھے۔ ریش مبارک رخ پر ” ڈلکیں“ مار رہی تھی۔ ماسٹر اسماعیل صاحب نے حقے کی نَے ان کی طرف اور روئے سخن میری طرف کرتے ہوئے پوچھا: ”جیلانی صاحب! آپ ہی فیصلہ کریں کہ کیا ان مولانا کو پانچویں شادی کی ضرورت ہے؟“
مَیں یہ سن کر ہکا بکا رہ گیا۔ مجھے یوں حیران دیکھ کر ماسٹر صاحب نے مزید تفصیل بتائی کہ مولانا کا دل میرے محلے کی ایک استانی پر آیا ہوا ہے اور یہ اسی سلسلے میں آئے ہیں کہ مَیں ان کی سفارش کروں“۔
میری رگ ظرافت جو پھڑکی تو مَیں نے مولانا سے دریافت کیا۔ ”حضرت! اگر سوئے ادب نہ ہو تو کیا پانچویں زوجہ یکمشت اسلام میں جائز ہے؟ آپ تو جامع مسجد پیر کریاں کے خطیب اور پیش امام ہیں؟“
”مَیں ایک بیوی کو طلاق دینا چاہتا ہوں“ مولانا صدیق نے فرمایا: ” شوق سے دیں.... کون روکتا ہے آپ کو.... لیکن آپ آب ِ حیات کی سطح ہموار کیوں رکھنا چاہتے ہیں....“.... مَیں نے ان کو مزید گھیرنا چاہا۔ ”شکل سے تو آپ بڑے بھولے بھالے لگتے ہیں۔ لیکن اسلام کے تعددِ ازدواج کی گنجائش سے غلط فائدہ کیوں اُٹھانا چاہتے ہیں؟”مَیں نے ابھی اپنا فقرہ بمشکل ختم کیا تھا کہ استاد محترم اسماعیل صاحب نے حقے کی نَے مولانا سے اپنی طرف کھینچ لی اور کہا :
”اوہ! جیلانی صاحب! آپ مولانا کی شکل و صورت پر نہ جائیں، فرمودہ اقبال کو یاد کریں:
ا میدِ حور نے سب کچھ سکھا رکھا ہے واعظ کو
یہ حضرت دیکھنے میں سیدھے سادے بھولے بھالے ہیں۔
مولانا کا پرسپشن کیا تھا اور حقیقت کیا تھی....مَیں واپس جاتے ہوئے دیر تک سوچتا رہا۔ ٭