بلوچستان امن وامان کیس ، بدامنی میں ملوث اداروں کے خلاف مقدمات کا حکم ، سیکرٹری دفاع افسران کو بلا کر فیصلے پر عمل درآمد کرائیں : سپریم کورٹ

بلوچستان امن وامان کیس ، بدامنی میں ملوث اداروں کے خلاف مقدمات کا حکم ، ...
بلوچستان امن وامان کیس ، بدامنی میں ملوث اداروں کے خلاف مقدمات کا حکم ، سیکرٹری دفاع افسران کو بلا کر فیصلے پر عمل درآمد کرائیں : سپریم کورٹ

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک) سپریم کورٹ نے بلوچستان امن وامان کیس میں کہاہے کہ ایف سی پر شہریوں کو اُٹھائے جانے کا الزام ہے ، عوام کے جان ومال کا تحفظ ریاست کی ذمہ داری ہے ۔عدالت نے کہاکہ لاپتہ افراد کے کیس میں ملوث اداروں کے خلاف مقدمہ درج کرائے جائیں،لاپتہ افراد کامعاملہ ختم ہوناچاہیے اور سیکرٹری دفاع تمام افسران کو اپنے پاس بٹھا کر عدالتی فیصلے پر عمل درآمد کرائیں ۔لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے اداروں کی بے حسی توقعات کے برعکس ہے،چاروں ایجنسیاں کوشش کریں تو معاملہ آسانی سے حل ہوسکتاہے۔فیصلے میں کہاگیاکہ لاپتہ افراد کی بازیابی نہ ہوسکی تو یہ بڑا بریک ڈاﺅن ہوگا۔جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہاکہ بلوچستان کے وزیرداخلہ آٹھ سال سے اشتہاری ہیں ۔عدالت نے سیکرٹری داخلہ کو ہدایت کی ایک ہفتے کے اندر لاپتہ افراد کو بازیاب کراکرعدالت میں پیش کریں اور بعد ازاں سماعت نو جولائی تک ملتوی کردی گئی اور آئندہ سماعت کوئٹہ میں ہوگی ۔قبل ازیں سماعت کے دوران عدالت نے ہدایت کی ہے کہ لاپتہ افراد کو کہیں سے بھی ڈھونڈ کرلائیں ۔عدالت نے اعلیٰ اختیاراتی کمیٹی کی رپورٹ مسترد کرتے ہوئے سیشن جج کو لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے مانیٹرنگ سیل کے لیے نامزد کرنے کی ہدایت کردی ۔جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہاکہ بلوچستان کامسئلہ جذبات سے نہیں ، ہوش سے ٹھیک ہوگا، خلجی عارف کاکہناتھاکہ کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ وہی حالات کو ٹھیک کرسکتے ہیں اور اپنے آپ کو قانون سے بالاتر سمجھتے ہیں ۔چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ کے روبرواٹارنی جنرل عرفان قادر نے اعلیٰ اختیاراتی کمیٹی کی رپورٹ پیش کی جس کے مطابق آئی ایس آئی ، ایم آئی ، سیکٹر انچارج اور دیگر متعلقہ حکام نے وزارت داخلہ میں اجلاس کیے ، ہومین رائٹس کمیشن کی رپورٹ کے مطابق آٹھ ہزار افراد لاپتہ ہیں جبکہ صوبائی سطح پر ٹاسک فورس بھی بنائی گئی جس کو فراہم کی 118افراد کی لسٹ میں سے 71افراد گھروں کو واپس پہنچ گئے ہیں جبکہ33افراد کے کیسز زیرالتواءہیں ۔عدالت نے رپورٹ مسترد کرتے ہوئے کہاکہ بلوچستان میں پولیس بغیر اجازت کنٹونمنٹ میں داخل نہیں ہوسکتی ،یہ حالات ہوں گے توتحقیقات خاک ہوں گی ۔عدالت نے لاپتہ افراد کی مانیٹرنگ کے لیے سیشن جج کو نامزد کرنے کی ہدایت کردی ۔عدالت کے استفسار پر اٹارنی جنرل نے بتایاکہ غیر قانونی طورپر سرحد پار کرنے والوں کا ریکارڈ موجود نہیں جس پر جسٹس خلجی عارف نے کہاکہ رپورٹ مفروضوں پر مبنی ہے ، کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ و ہی حالات ٹھیک کرسکتے ہیں اور اپنے آپ کو قانون سے بالاتر سمجھتے ہیں ۔اٹارنی جنرل نے کہاکہ ایسے حالات پر قابوپانے کے لیے مشترکہ کاوش ضروری ہے ، آپ کے جذبات کی قدر کرتاہوں ۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہاکہ بلوچستان کا معاملہ رپورٹ اور جذبات سے حل ہونے والا نہیں ، ہوش سے کام لیناہواگا، ہم یہاں ٹھنڈے دماغ سے بیٹھے ہیں ۔عدالت نے کہاکہ رپورٹ میں کوئی نئی بات نہیں ،ہمیں آئین اور قانون مقدم رکھناہے ۔چیف جسٹس نے کہاکہ آئی جی ایسے شخص کو لگایاجاتاہے جو بلوچستان کا واقف ہی نہیں ، سرٹیفکیٹ اِس بات کا ثبوت ہے کہ مشینری ناکام ہوگئی۔پولیس اور ایف سی سمیت کوئی لاپتہ افراد کی ذمہ داری قبول کرنے کو تیار نہیں ۔عدالت نے خفیہ ایجنسیوں کے وکیل سلمان راجہ سے استفسار کیاکہ آیابلوچستان کے حالات میں کوئی بیرونی طاقتیں ملوث ہیں جس پر اُنہوں نے بتایاکہ بیرونی ہاتھ ملوث نہیں ۔چیف جسٹس نے کہاکہ اگر کوئی بیرونی عناصر ملوث ہیں تو سامنے آئیں ، اور کام ہی کیاہے ۔عدالت نے کہاکہ ہم کسی کا لحاظ اِس وجہ سے نہیں کرسکتے کہ وہ وزیر ہے ، آٹھ بچوںکو بازیاب کراکرپیش کریں اور ظفراللہ زہری کی ضمانت منسوخ کردیں گے ۔جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہاکہ یہاں سرکاری نہیں چلارہے ، ہدایات جاری کرتے ہیں اور بلوچستان کا وزیرداخلہ آٹھ سال سے اشتہاری ہے اور بعد ازاں سماعت نوجولائی تک کے لیے ملتوی کردی گئی۔