ترکی میں مظاہرے: سروے اور تجزیے
ترکی کے شہر استنبول کے تقسیم سکوائر کے قریب گنیری پارک (تفریحی پارک) کو ختم کرنے اور اس کی جگہ شاپنگ مال کی تعمیر کے خلاف مظاہرے تاحال جاری ہیں۔یہ مظاہرے 31مئی کو شروع ہوئے تھے اور ان کا اولین مقصد حکومت کو گنیری پارک (تفریحی پارک) کو ختم کرنے سے روکنا تھا،تاہم مظاہرین پر ترک پولیس کے تشدد، آنسو گیس اور ظالمانہ سلوک سے صورت حال گھمبیر ہوتی چلی گئی۔آہستہ آہستہ ان مظاہروں میں شدت آ گئی اور یہ ملک کے طول و عرض میں پھیل گئے اور دارالحکومت انقرہ، ازمیر اور دوسرے شہروں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مظاہرین کے اندر کچھ شرپسند عناصر بھی شامل ہوگئے اور صورت حال کو مزید گھمبیر بنا دیا۔
اب صورت حال یہ ہے کہ گزشتہ شب ضلعی حکومت نے پولیس اور امن و امان قائم کرنے والے اداروں کی مدد سے تقسیم سکوائر کو صاف کیا ہے اور ان دو ہفتوں کے دوران جمع ہونے والے ملبے کو ہٹا کر متنازعہ سائن بورڈز، بینرز، فلیکس اور غیر ضروری رکاوٹیں بھی ہٹا دی ہیں۔اس آپریشن کے دوران انتظامیہ کو مظاہرین کی طرف سے معمولی مزاحمت کا سامنا کرناپڑا، لیکن پولیس کے بار باراس اعلان اور یقین دہانی کے بعد کہ ان کا مقصد تقسیم سکوائر کی صفائی ستھرائی ہے اور وہ گنیری پارک (تفریحی پارک) میں خیمہ زن مظاہرین کو نہیں روکیں گے اور نہ ہی انہیں تنگ کریں گے۔اس وضاحت کے بعد مظاہرین نے زیادہ مزاحمت نہیں کی ہے اور سکوائر کی صفائی ستھرائی کا کام ہونے دیا،تاہم یہ مظاہرے اب تک جاری ہیں، لیکن ان کی شدت میں بتدریج کمی آتی جارہی ہے اور عوام، میڈیا، سماجی رہنما اور سول سوسائٹی ان مظاہروں کو ختم کرنے پر زور دے رہی ہے۔
آج ہی کے آنڈی سوشل سروے کی رو سے عوام کی اکثریت ان مظاہروں سے تنگ آ چکی ہے اور ان کو فوری ختم کرنے پر زور دے رہی ہے۔ترکی میں کئے گئے اس آنڈی کے تازہ سروے کے مطابق 82.8فیصد ترک عوام کا کہنا ہے کہ یہ مظاہرے فی الفورختم ہونے چاہئیں اور انہیں جاری نہیں رہنا چاہیے۔24.3 فیصد ترک عوام کا کہنا ہے کہ یہ مظاہرے جائز ہیں اور مظاہرین کے مطالبات مان لئے جانے چاہئیں، جبکہ 52.5فیصد ترکوں نے مظاہرین کے مطالبات کو غیر منطقی اور غیر ضروری قرار دیا ہے۔ اس سروے کے مطابق 92.4فیصد عوام ان مظاہروں اور مظاہرین کے مطالبات سے واقفیت، آگہی اور خبر رکھتے ہیں، جبکہ 7.2فیصد ترک عوام ان مظاہروں اور مظاہرین کے مطالبات سے بے خبر ہیں۔یہ سروے ترکی کے 21صوبوں میں 3643لوگوں سے بالمشافہ کئے گئے ہیں اور ان میں تمام طبقات کے لوگ شامل ہیں۔
اس سروے میں جب لوگوں سے یہ سوال پوچھا گیا کہ اگر آئندہ ہفتے ہی ترکی میں انتخابات ہوں تو وہ کس پارٹی کو اپنا ووٹ دیں گے؟....اس سوال کے جواب میں 49.6فیصد ترکوں کا کہنا ہے کہ وہ اپنا ووٹ اس بار بھی برسر اقتدار جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی(اے کے پارٹی) ہی کو دیں گے،جبکہ 23.3فیصد ترک عوام کا کہنا ہے کہ وہ اپنا ووٹ حزب اختلاف اور اپوزیشن پارٹی جمہوریت خلق پارٹی (جے ایچ پی) کو دیں گے۔15.9فیصد عوام کا کہنا ہے کہ وہ اپنا ووٹ نیشنل پیپلزپارٹی (ایم ایچ پی) کو اور 7.5فیصد ترک عوام کا کہنا ہے کہ وہ اپنا ووٹ پیس اینڈ ڈیمو کریٹک پارٹی(بی ڈی پی) کو دیں گے۔یوں اس سروے سے ظاہر ہوتا ہے کہ موجودہ پارٹی سے عوام گزشتہ 10سال سے خوش ہیں اور اس کی کارکردگی کو دیکھتے ہوئے دوبارہ بھی اپنا ووٹ اسی جماعت کو دیں گے۔یوں ترک عوام نے اپنی رائے میں ان مظاہروں کے بارے میں حکومت کا موقف پسند اور مظاہرین کے رویوں کو ناپسند کیا ہے۔
اس سروے کی یہ بات بھی بہت اہم ہے کہ حالیہ مظاہروں سے ترکی کے بین الاقوامی تشخص، معیشت، سیاحت اور سرمایہ کاری پر بہت بُرا اثر پڑا ہے۔ایک اندازے کے مطابق اب تک تقریباً 50ملین ڈالر سے زائد کا نقصان ہو چکا ہے، اگر یہ مظاہرے جاری رہتے ہیں تو ترکی کی ترقی، معیشت، اقتصادیات، سیاحت اور بیرونی سرمایہ کاری کی کاوشوں پر بھی منفی اثر پڑے گا اور بیرونی دباﺅمیں اضافہ ہوگا اور اندرونی خلفشار اور کشمکش بڑھے گی،اس لئے ضروری ہے کہ جلد از جلد اس مسئلے کو حل کیا جا ئے، تاکہ ترکی کا حالیہ برسوں میں ابھرنے والا بہتر تشخص برقرار رکھا جا سکے۔ ٭