وزیراعظم صاحب کے لئے!

وزیراعظم صاحب کے لئے!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

عزت مآب! میاں محمد نوازشریف، وزیراعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان!
مَیں پاکستان کا ایک شہری، ایک ووٹر، ادیب، مصنف اور صحافی ہوں۔آپ کو مملکت خداداد پاکستان کا تیسری بار وزیراعظم منتخب ہونے پر مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
میری عمر 72سال ہے، مَیں نے 1947ءکے خونی واقعات، دنیا کی سب سے بڑی ہجرت، پناہ گیروں کے ساتھ ہونے والے ظلم، نام نہاد مہاجرین کے جائیدادوں پر قبضے، یونینسٹ جاگیرداروں اور ان کی لے پالک افسر شاہی، مسلم لیگ کے نیشنل گارڈز کے جعلی ورکر بن کر جس طرح ملک کی دولت کو لوٹا، عزتوں کی پامالی کی، پریشان مخلوق کی پریشانیاں کم کرنے کی بجائے زخموں پر نمک پاشی کی اور ان بے رحم ہاتھوں سے انسانیت نے جو دکھ اٹھائے، پون صدی گزرجانے کے باوجود ان دکھوں کا مداوا نہیں ہو سکا۔کوئی مسیحا نہیں آ سکا جو اس قوم کے زخموں کی مرہم پٹی کرسکے۔یہ ملک بڑی قربانیوں کے بعد معرض وجود میں آیا۔22 سال بعد ہماری کوتاہیوں کی وجہ سے ملک کا آدھا حصہ ناراض ہو کر علیحدہ ہوگیا۔ملک میں رشوت، بددیانتی،مہنگائی، کنبہ پروری، اقربانوازی، افراتفری عروج پر ہے۔ ہمسایہ ملک کے سینے میں پتھر کا اور بے وفائی کا دل ہے۔پانی روک کر ہمیں زندہ درگور کرنا چاہتا ہے۔کشمیر پر وہ قابض ہے، مگر ہمارے عوام ،ہماری مسلح افواج،ہمارا ایٹمی اثاثہ آپ کے ساتھ ہیں۔اللہ اور اللہ کے پیارے نبی کا سایہ آپ پر ہے۔قوم کی دعائیں آپ کے ساتھ ہیں۔اللہ نے آپ کو موقع دیا ہے،کچھ نیک کام کر جائیں، تاکہ رہتی دنیا تک ہر آنے اور جانے والا آپ کو دعائیں دیتا رہے۔
اللہ تعالیٰ نے آپ کو موقع دیا ہے۔اس ملک میں قدرتی وسائل کی کمی نہیں، خوشامدیوں، نام نہاد لکھاریوں، ادیبوں، صحافیوں کو دور رکھیں۔سادگی اپنائیں، افرادی قوت موجود ہے،میرٹ پر ہر کام کریں۔سفارش، اقربانوازی سے آپ کا زوال ہوگا۔قانون خداوندی کو ترجیح دیں۔ہماری قوم اپنے کردار اور قوت برداشت کے اعتبار سے دنیا کی کسی قوم سے پیچھے نہیں۔ہم خوب جانتے ہیں کہ آلام و مصائب انسانی زندگی کا ایک لازمی جزو ہیں۔ گزشتہ حکومتوں نے جو مسائل کی گٹھڑی عوام کے سروں پر رکھی، عیاشیوں، اللوں تللوں میں اس ملک کا جو حال کیا ،وہ توراندئہ درگاہ ہوئے، اب ذمہ داریاں آپ کے کندھوں پر ہیں، نبھائیں ۔اللہ آپ کا حامی و ناصر ہو۔
ابھی ایک سال پہلے کی بات ہے ، ایک نوجوان اپنی معذور ماں کو کندھوں پر بٹھا کر شوکت خانم ہسپتال لاہور سے نکل کر سڑک پر چل رہا تھا، اتفاق سے آپ بھی ادھر سے رائے ونڈ جا رہے تھے۔آپ نے ایک نوجوان کو بڑھیا کو کندھوں پر بٹھائے دیکھا تو گاڑی روک لی۔ڈرائیور سے کہا کہ معلوم کرو.... ڈرائیور نے نوجوان سے معلومات حاصل کیں۔معلوم ہوا کہ نوجوان کے پاس رقم کم ہے، اسے مردان پہنچنا ہے،اس لئے وہ رقم بچا رہا ہے، تاکہ گاڑی کا کرایہ محفوظ رہے۔ڈرائیور کی زبانی معلومات ملیں تو ساتھ والی گاڑی اور ڈرائیور کو کہا کہ وہ نوجوان کو گاڑی میں بٹھائے، لاہور سٹیشن لے جائے اور مردان کی دو ٹکٹیں اس نوجوان کے حوالے کرے اور ساتھ ایک ہزار روپیہ کا نوٹ نوجوان کے لئے دیا۔
قوم میں خدا کے فضل و کرم سے اتنی قوت اور طاقت ہے کہ وہ طوفانوں کو روک سکتی ہے۔عوام کا سرمایہ حیات صرف دو چیزیں ہیں۔ایمان اور قناعت، لیکن ڈر ہے کہ ملک جن بحرانوں کا شکار ہے، عوام اپنی زندگی کے لمحات انتہائی کرب سے گزار رہے ہیں۔ان مشکلات کو دیکھ کر موقع پرست لوگ ان پسے ہوئے عوام کے اس سرمایہ ¿حیات کو تباہ نہ کردیں ۔ آپ کی وساطت سے معزز ارکان اسمبلیوں سے میری درخواست ہے کہ اس مشکل وقت میں وہ آپ کا ساتھ دیں اور عوام کے سرمایہ حیات، ایمان، قناعت کی حفاظت کریں:
خدا تجھے کسی طوفاں سے آشنا کردے
 کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں
        اقبالؒ
خدا کرے ہمارے دلوں میں قوم پرستی اور حب الوطنی کے جذبات کا ایک طوفان پیدا ہو جائے۔ لوڈشیڈنگ، مہنگائی، بے روزگاری، بڑے بڑے اداروں کی تباہی، دہشت گردی، بے اطمینانی اور عذاب الٰہی کی تمام تر ذمہ داری اس بے تدبیر ،عاقبت نااندیش اور گمراہ سابقہ قیادت پر ہے۔انہوں نے ہمیں ذلت و بیچارگی کے عمیق غاروں میں دھکیل دیا ہے۔ان لوگوں کو معاف نہ کیا جائے ۔اب ان لوگوں کو سزا ملنی چاہیے۔ان کو ،ان کے کارناموں کو قوم کے سامنے پیش کیا جائے، آئین شکنوں کو مت معاف کریں۔ان کو سزا دی جائے۔اگر ان میں شرم و حیا کی کوئی رمق باقی ہے تو ان کو عرق انفعال میں غرق ہو جانا چاہیے۔
محترم! اللہ کرے کہ آپ کے زیر سایہ انتظامی مشینری اور ایڈمنسٹریشن آپ کی خوشنودی کی بجائے اللہ اور اللہ کے رسول کے احکامات کو مشعل راہ بنائے۔ملک و قوم کی فلاح کے لئے کام کریں اور آپ بھی سابقہ لغزشوں کی معافی مانگتے ہوئے اللہ سے رجوع کریں۔ اس دنیا سے جانے سے پہلے اللہ کے بندوں کے لئے ایسے نیک کام کر جائیں کہ قبر میں آپ کو راحت نصیب ہو۔وزیر کا مطلب خادم ہوتا ہے۔آپ کے وزیر بھی دنیا میں نیک نامی پائیں کہ برائیوں سے بچے رہیں۔یہ دنیا کی لذتیں، اقربانوازی، کنبہ پروری کسی کام نہیں آئیں گی۔
محترم وزیراعظم صاحب! پون صدی ہورہی ہے، پاکستان میں حکومتیں تو بدل رہی ہیں، نظام میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ رشوت، بداعتمادی ، بے ایمانی، مہنگائی، بے روزگاری ، افراتفری، لوٹ مار، عصمت دری، خودکشیاں اس ملک کا مقدر بن چکی ہیں، اگر کسی ملک میں عدالتیں آزاد ہوں، قانون کی حکمرانی ہو، ادارے اپنے اپنے دائرہ اختیار میں رہ کر کام کررہے ہوں تو وہ قومیں کبھی زوال پذیر نہیں ہوتیں۔
محترم جناب! آپ کے وزراءجب دورے پر جائیں، آپ جائیں تو ان کی تعداد مختصر کریں، سادگی اپنائیں، اپنے اعمال اور چلن کو ملک کا وقار بنائیں۔آپ غیر ممالک کے پاکستانیوں کو پاکستان میں سرمایہ لگانے کی دعوت دے رہے ہیں۔آپ خود، آپ کا خاندان، آپ کے دوست احباب، آپ کے پارٹی ممبران، رکن پارلیمنٹ ،آپ کے وزرائ، آپ کے حلیف اس ملک کے مختلف جماعتوں کے سربراہان،دوسری جماعتوں کے وہ لوگ، جن کی ملک سے باہر جائیدادیں، فیکٹریاں اور کاروبار ہیں، انہیں اپنے ملک میں سرمایہ لگانے کی ترغیب دیں۔ملک میں نظام تعلیم کو درست کریں۔انڈسٹریاں لگیں گی تو ملک میں خوشحالی آئے گی۔ تمام سیاسی پارٹیوں کو ایمانداری اور خلوص دل کے ساتھ ایک میز پر اکٹھے ہو کر اور ملک کے تمام اندرونی وبیرونی مسائل پر کھل کر بحث کریں، گلے شکوے کریں، تنقید کریں ،لیکن ملک کی سالمیت، قوم کی خوشحالی کے لئے منصوبہ بندی کریں کہ ملک بھی خوشحال ہو، دنیا بھی حیران ہو، اسی میں ہماری کامیابی اور فتح یابی ہوگی۔
ملک اس وقت سخت مشکل حالات میں ہے، اسے بھنور سے نکالنے کے لئے جنگی بنیادوں پر کام کرنا ہوگا۔لوٹے ہوئے مال کو واپس آنا چاہیے۔ہر انسان کو روٹی، لباس، مکان ملنا چاہیے۔کام ہوگا تو روٹی اور دوسری ضروریات میسر آئیں گی۔ساری قوم کو کام پر لگایا جائے۔یہ امراءجو فرعون کی طرح اپنی کوٹھیوں میں ڈٹ کر بیٹھے ہوئے ہیں، انہیں وہاں سے باہرنکل آنا چاہیے۔ قوموں کو گردابوں سے گزرنا پڑتا ہے اور بہت سے خارزاروں اور خطرناک وادیوں کو طے کرنا پڑتا ہے۔ ہمیں اپنے آپ میں مجاہدانہ سپرٹ پیدا کرنی ہے۔ہمیں ٹھنڈی کوٹھیوں، غیر ملکی مشروبات، غیر ملکی استری شدہ ملبوسات ترک کرکے اس حیثیت میں رہنا ہوگا،جیسا کہ شہاب الدین غوری نے کیا تھا۔اس کو جب شکست ہوئی تو جب تک اس نے شکست کا بدلہ نہیں لے لیا، زمین پر سوتا رہا اور ہمیشہ ہتھیار بند رہا۔ایک روز وہ باہر نکلا تو ایک بوڑھا ،جس کا نوجوان بیٹا لڑائی میں مارا گیا تھا،وہ ملا تو اس نے شہاب الدین غوری سے کہا کہ شہاب الدین! تم کب بدلہ لو گے؟ میرے بیٹے کا لہو انتقام ، انتقام پکار رہا ہے۔ اس نے بوڑھے کو سینے سے لگا لیا اور اپنی قبا کو اتار کر دکھایا کہ مَیں اب بھی مسلح ہوں اور لڑائی کے لئے تیار ہوں۔
محترم میاں صاحب! آپ کی لڑائی کسی دشمن سے نہیں، مسائل سے ہے۔مسائل اتنے زیادہ اور گھمبیر ہیں کہ آپ کو ذہنی طور پر مسلح ہو کر ان سے نپٹنا ہے۔جیسا کہ سلطان شہید نے کہا تھا:
زندگی راچیست رسم و راہ و کیش
یک دم شیری بہ از حد سال میش
چون نہ باشد در جہاں مردانہ زیست
ہم چوں مرداں جان سپردن زندگی یست
محترم وزیراعظم صاحب! پاکستانی من حیث القوم اپنے کردار اور قوت برداشت میں دنیا کی کسی بھی قوم سے پیچھے نہیں۔پاکستان میں رہنے والے خواہ کسی بھی علاقے سے تعلق رکھتے ہوں، خوب جانتے ہیںکہ آلام و مصائب انسانی زندگی کالازمی جزو ہیں۔قوم میں خدا کے فضل و کرم سے اتنی قوت اور طاقت ہے کہ وہ طوفانوں کو روک سکتی ہے۔عوام کا سرمایہ حیات صرف دو چیزیں ہیں، ایمان اور قناعت۔ پون صدی قبل یہ ملک دنیا کے نقشے پر نمودار ہوا۔بانی پاکستان نے 14اگست 1947ءکو نئے عزم، نئی امنگوں کے ساتھ اسے دنیا کا عظیم ملک بنانے کا حلف دیا اور قوم کی قربانیوں سے حاصل کیا خطہ پُرامن ،پُرسکون، سماجی، مذہبی، تہذیبی قدروں کا گہوارہ، انصاف، عدل، رواداری، ایک اللہ، ایک رسول کے احکامات پر مبنی آئین، کرپشن، جھوٹ ، بددیانتی ، کنبہ پروری، اقربا نوازی سے پاک معاشرہ قائم کرنے کے دعوے کئے گئے۔ تعلیم، صحت، انصاف اور بنیادی سہولتیں اولین ترجیح قرار دی گئیں۔ قائداعظمؒ کی زندگی نے وفانہ کی اور وہ اس قوم سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جدا ہوگئے۔
پاکستان بننے سے پہلے اس کے خلاف اور بانی پاکستان کے متعلق مختلف آوازیں اٹھتی رہیں، لیکن قدم آگے ہی بڑھتے گئے۔پاکستان بنتے وقت جونا گڑھ، حیدرآباد، کشمیر، سرحد، سندھ، بلوچستان کی شمولیت کے تنازع، پنجاب کے مسائل ....ہر طرف مسائل ہی مسائل تھے۔قائداعظمؒ اور قائداعظمؒ کے بعد قائد ملتؒ جیسی شخصیات ہمیں سکھا گئےں کہ زندہ قومیں مشکلات پر نہیں گھبراتیں، بلکہ ایسی مشکلات اور امتحانات سے دبنےکی بجائے ایسے مواقع سے اپنی برتری کے لئے سامان تلاش کرتی ہیں۔مسلمان قوم مردہ قوم نہیں ہے، بلکہ زندہ اور غیرت مند قوم ہے۔
اس عظیم قوم کے بزرگوں نے کفار سے ٹکر لی اور ایک علیحدہ قوم کی سرزمین حاصل کی اور انہیں بتایا کہ ہم فرنگی جادو گروں کے مصالحتی ہتھکنڈوں میں نہیں آئیں گے۔ہمیں جونا گڑھ، حیدرآباد، کشمیر کا فیصلہ کروانا ہے۔ہم پاکستانی عوام کا یہ فرض ہے کہ وہ قوت اور ہمت کے بل بوتے پر قوم کی عزت ووقار کے کھوئے ہوئے حقوق کو واپس کرائیں، جہاں جہاں زیادتی ہوئی ہے بدلہ لیں اور تسخیر کشمیر بنوک شمشیر، اپنا نصب العین بنا لیں۔اصل کام قوم کو منظم کرنا ہے اور گروہ بندیوں کو ختم کرنا ہے اور اپنی عیاشیاں کم کرکے قوم کو خوشحالی دلانا ہے۔ قائداعظمؒ نے جو سبق ہمیں یقین محکم، عمل پیہم اور ڈسپلن کا سکھایا ہے،اگر ہم اس پر عمل کرتے رہے تو اللہ کے فضل سے پاکستان زندہ و تابندہ اور پائندہ رہے گا۔    ٭

مزید :

کالم -