آپریشن ضرب ِ عضب

آپریشن ضرب ِ عضب
آپریشن ضرب ِ عضب
کیپشن: l cornal ghulam jilani khan

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 توچہ دانی کہ دریں گرد ”شرارے“ باشد !
آپریشن ”ضربِ عضب“ جاری ہے۔ آج اس کو شروع ہوئے چھ روز ہو رہے ہیں۔ اس آپریشن کا اونٹ کس کروٹ بیٹھ رہا ہے ، پاک فوج کو کیا کامیابیاں حاصل ہو رہی ہیں، کن مزاحمتوں سے پالا پڑ رہا ہے، دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو کہاں کہاں برباد کیا جا رہا ہے، وہاں بم سازی یا IEDs بنانے کی جو فیکٹریاں تھیں کیا ان کو مسمار کر دیا گیا ہے، دہشت گردوں اور خود کش بمباروں کی ٹریننگ اور عقیدہ سازی کے کیا ثبوت ملے ہیں، غیر ملکی (ازبک، تاجک، چیچن، یوغر، عرب وغیرہ) دہشت گردوں کا صفایا کس مرحلے میں ہے اور شدت پسندوں کی جوابی کارروائی میں کتنے فوجی اہلکار کس کس لوکیشن میں شہید ہوئے ہیں۔.... یہ اور اس قسم کے کئی سوالات ہیں جو تشنہ ¿ جواب ہیں۔
جب کہیں جنگ ہو رہی ہو تو پبلک اس قسم کے سوالوں کے جواب جاننے کی شدید آرزو مند ہوتی ہے۔ محاذ جنگ پر خاموشی بہت سی افواہوں کو جنم دیتی ہے۔ دنیا جوں جوں آگے بڑھ رہی ہے اس کی خبروں اور آگہی کی بھوک اور اشتہا شدت اختیار کرتی جاتی ہے۔ پاکستان کا الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا بیشتر ایسے مالکان کے ہاتھوں میں ہے جوTwo in One کہے جا سکتے ہیں۔ یعنی پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کی ڈوریاں بیک وقت ایک ہی ہاتھ میں ہیں۔ قوم کے لئے اس میں فائدے کم ہیں اور نقصانات زیادہ ہیں۔ ....ہاں بعض میڈیا مالکان کی پانچوں گھی میں ہیں!
حکومت اور فوج نے آپریشن ”ضرب ِ عضب“ کا میڈیا بلیک آﺅٹ کیا ہوا ہے۔یہ ایک اچھی بات ہے۔ لیکن کیا فوج یا سویلین حکومت نے اس آپریشن کی روزانہ ڈویلپمنٹ کی بریفنگ کا بھی کوئی انتظام کیا ہے، اس کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ ہونا یہ چاہئے تھا کہ کسی مقررہ وقت اور کسی مقررہ جگہ پر کوئی مقررہ اور مشترکہ ٹیم (سویلین اور فوجیوں پر مشتمل) میڈیا والوں کو مدعو کرتی اور انہیں گزشتہ 24گھنٹوں کے آپریشنل پس منظر سے آگاہ کرتی اور آئندہ کے پیش منظر کا روڈ میپ بھی دیتی۔ آپ کو یاد ہو گا1999ءمیں کارگل وار کے دوران بھارت نے یہی کچھ کیا تھا۔ اور اپنی پبلک کو اس جنگ کے مختلف سیکٹروں کی وار ڈویلپمنٹ سے باخبر رکھا تھا۔.... آئی ایس پی آر کو بھی اسی قسم کا کوئی انتظام کرنا چاہئے۔....
 مجھے لگتا ہے کہ یہ آپریشن طول کھینچے گا۔ شمالی وزیرستان ایک بہت وسیع و عریض علاقہ ہے، فوج کو وہاں سخت چیلنجوں کا سامنا ہے، گرمی کی شدت اور زمین کی بناوٹ عسکری آپریشنوں پر اثر انداز ہوتی ہے۔ فی الحال تو پاک فضائیہ کی بمباری کا جواب نہیں دیا جا رہا۔ لیکن ہم جانتے ہیں کہ دہشت گردوں کی پشت پر کون کون سے ایسے ممالک ہیں جن سے پاکستان کی ازلی اور پرانی ”دوستی“ ہے۔
1980ءکے عشرے نے ”سٹنگر“ ٹائپ طیارہ شکن میزائلوں کی کامیابی کا ثبوت دے دیا تھا اور یہ بھی واضح ہو گیا تھا کہ اس طرح کے نظام (Systems) نیم خواندہ افغانوں کے مرغوب نظام ہیں۔ اصطلاح میں ان نظاموں کو ”مین پورٹیبل ائر ڈیفنس سسٹم“ (MAN PADS) کا نام دیا جاتا ہے۔ خدا کا شکر ہے کہ فی الحال اس قسم کے کسی نظام سے پاک فضائیہ کو سابقہ نہیں پڑا۔ لیکن شمالی وزیرستان کے جنوب مغرب کے علاقے ”وادی¿ شوال“ کی ٹیرین حد درجہ مشکل اور دشوارگزار ہے۔ وہاں پاک فوج کے گراﺅنڈ ٹروپس جاتے جاتے بہت دیر ہو جائے گی۔ اس لئے آپ نے خبروں میں پڑھا اور دیکھا ہو گا کہ شوال کے علاقے میں پاک فضائیہ کی ”بمباری مہم“ بمقابلہ دوسرے علاقوں کے زیادہ زور و شور سے جاری ہے۔ معلوم ہو رہا ہے کہ فضائیہ کو بھی اس امر کا احساس ہو چکا ہے کہ شوال کے بالمقابل افغانستان کے صوبوں (خوست اور پکتیکا) میں بھارت کے جو ”پاکستان دوست“ عسکری مشیروں کے روپ میں بیٹھے ہیں وہ دن رات اپنی فکر کو عمل میں ڈھالنے کی سر توڑ کوشش میں لگے ہوں گے۔
مجھے یہ بھی لگتا ہے کہ مَیں موضوع سے باہر نکل رہا ہوں.... موضوع یہ تھا کہ اگر اس آپریشن میں خبروں کا بلیک آﺅٹ کر دیا گیا ہے تو اس کا نتیجہ کیا نکل رہا ہے۔
چونکہ میڈیا نے ناظرین کو اپنی سکرینوں پر جنگ کے مناظر ضرور دکھانے ہوتے ہیں اس لئے وہ کب تک جھوٹ موٹھ کیAnimation کا سہارا لے سکتے ہیں؟ سکرین پر ”جعلی“ طیاروں کا نمودار ہونا، ”جعلی“ میزائل داغنا، گراﺅنڈ پر کسی ”جعلی“ مصنوعی گھروندے کا آن کی آن میں شعلوں میں نہا جانا کتنا مصنوعی لگتا ہے؟ کوئی کب تک اس تصنّع کو دیکھ اور برداشت کر سکتا ہے؟ چنانچہ میڈیا کو از راہِ مجبوری (شائد) وہ مناظر ِ جنگ دکھانے پڑ رہے ہیں جو تجسیم (Animation) نہیں، حقیقت (Reality) ہیں۔
آج کل آپ کی ٹی وی سکرینوں پر ٹرکوں، ٹریکٹروں، ڈبل کیبن گاڑیوں وغیرہ پر اس آپریشن سے متاثر ہونے والے افراد کی نقل مکانی کو بار بار دکھایا جا رہا ہے۔ سوچئے کہ ان مناظر کو دیکھ کر آپ کے ذہن پر کیا اور کیسے اثرات مرتب ہوتے ہیں؟.... ظاہر ہے اس طرح کی کوریج سے بیچارے مفلوک الحال اور نادار و مفلس مہاجرین کی کسمپرسی کی جو عکاسی ہوتی ہے تو اس سے آپ کی ہمدردیاں ان ”بےچاروں“ کے ساتھ ہو جاتی ہیں۔

اس صورت حال کو مزید اس طرحExploit کیا جاتا ہے کہ ٹی وی چینلوں پر بعض معزز اور موقر مبصروں اور تجزیہ نگاروں کو بُلا کر ان کی رائے لی جاتی ہے تو وہ یہی فرماتے ہیں کہ ان بے گھر اور بے در ہونے والے غریبوں کا کیا قصور ہے جو زندگی بھر کی جمع پونجی لے کر اپنے بال بچوں سمیت ایک انجانی منزل کی طرف جا رہے ہیں۔
بے گھر ہونے والے ان (IDPs)کی تعداد بھی ٹیلی ویژن سکرین کی پٹیوں پر نمایاں کی جا رہی ہے۔ بعض چینل62348 افراد کا شمار پیش کر رہے ہیں اور بعض ایک لاکھ سے اوپر کی تعداد بتا رہے ہیں۔ بعض تجزیہ نگار یہ پہلو بھی زیر بحث لا رہے ہیں کہ سوات اور جنوبی وزیرستان کے خلاف آپریشنوں میں جو ہزاروں خیمے لگائے اور بسائے گئے تھے، ان کی طرح کی کوئی شکل و صورت اس موجودہ آپریشن ”ضربِ عضب“ میں کہیں نظر نہیں آتی۔.... وہ سوال کرتے ہیں کہ اس کی کیا وجہ ہے؟....
مَیں ایک طویل عرصے سے سوچ رہا ہوں (اور مجھے جواب نہیں مل رہا) کہ گزشتہ دس بارہ برس سے دہشت گردی کے جو طوفان فاٹا سے تخلیق (Generate) ہو رہے تھے کیا وہ فاٹا کی سرزمین پر سے اُٹھ رہے تھے یا کہیں باہر سے آ رہے تھے؟.... چلو یہ تسلیم کر لیتے ہیںکہ شمالی وزیرستان میں ایک اندازے کے مطابق جو 8000 غیر ملکی چھپے ہوئے ہیں، وہ پشتون نہیں، ازبک اور تاجک اور یوغر وغیرہ ہیں۔ لیکن کیا ان غیر ملکیوں کی بستیاں، شمالی وزیرستان کے علاقوں سے بالکل الگ تھلگ ہیں؟.... کیا ان کی سپلائی لائن کہیں اوپر فضا میں قائم ہے؟.... کیا ان کی شادیاں اِسی شمالی وزیرستان میں نہیں ہوئیں؟.... اور بال بچے دریائے آمو کے پار کی اُن کی اپنی ریاستوں سے ان کے ہمراہ آئے ہیں؟.... اگر وہ سب کچھ یہیں شمالی وزیرستان ہی سے آیا ہے، اگر سب کچھ ایک عرصے سے اہل ِ وزیرستان کی آنکھوں کے سامنے ہو رہا تھا، اگر ان مقامی لوگوں نے غیر ملکی دہشت گردوں کو ہر طرح کا آرام و سکون فراہم کیا ہوا تھا اور اگر ان کے دُکھ سُکھ سانجھے تھے تو کیا مقامی آبادی کو خبر نہیں تھی کہ پاکستان کے60ہزار لوگ دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ ان میں 6000وہ فوجی جوان اور آفیسرز بھی ہیں جن کے اپنے بیوی بچے، بہن بھائی اور ماں باپ بھی تھے؟.... کیا ان مقامی لوگوں نے اپنے مَلکوں (Maliks) یا پولیٹیکل ایجنٹوں یا جرگے کے معزز افراد کے توسط سے کبھی یہ درخواست بھی حکومت کو دی کہ ان غیر ملکیوں کو یہاں سے نکال دیا جائے؟ اگر ایسا کبھی نہیں کیا گیا تو یہ فرض کر لینے میں کیا امر مانع ہے کہ یہ مقامی لوگ، ان غیر ملکی دہشت گردوں کے آلہ ¿ کار بنے رہے؟ ان کے بھائیوال (Abettors) بنے رہے؟ اور ان کے جرم میں برابر کے شریک رہے؟
اگر کوئی مجھ سے پوچھے تو میرا جواب ہو گا کہ سوات آپریشن100فیصد کامیاب نہیں تھا.... اگر ہوتا تو مولوی فضل اللہ اور اس کے ساتھی بچ کے کیسے نکل جاتے، وہ کیسے بعد میں تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ بن جاتے اور درجنوں دہشت گردانہ کارروائیوں میں کلیدی کردار ادا کرتے؟
جنوبی وزیرستان آپریشن میں بھی یہی کچھ ہوا۔....وہاں سے ”ہارڈ کور“ دہشت گرد شمال کی طرف نقل مکانی کر کے شمالی وزیرستان میں جمع ہو گئے اور شمالی وزیرستان کو ”دہشت گردی کا ایک ناقابل تسخیر اجتماعی گڑھ“ بنا دیا! اس گڑھ کے خلاف آپریشن کرنا کس قدر مشکل ہے یہ مستقبل ہی بتائے گا۔
مَیں نے کسی گزشتہ کالم میں یہ بھی عرض کیا تھا کہ اس آپریشن ”ضربِ عضب“ کے دو پہلو قابل تعریف اور اہم ہیں۔.... ایک تو یہ کہ اس آپریشن کی لانچنگ کو 100فیصد خفیہ رکھا گیا اور دوسرے اس کو100فیصد میڈیا سے ”کوسوں“ دور کر دیا گیا۔.... میرا خیال ہے کہ میڈیا اب شائد اس ”کوسوں دوری“ کا انتقام لے رہا ہے۔ میڈیا اب بار بار چند ٹرکوں اور ٹریکٹروں کو اوور لوڈ دکھا کر اور ان پر کسی جھونپڑے کے اندر کی ”کل کائنات“ لدی دکھا کر پاکستانی پبلک کی رائے اور فکر کو متاثر کرنے اور اس میں جذبہ ¿ ترحم بیدار کرنے کی کوششوں میں لگا ہوا ہے.... خدارا ان ”خاکساروں“ کو خاکسار مت جانیئے۔ اس گرد میں نجانے کتنے ”شرار“ چھپے ہوں گے! آپ کتنے ٹرکوں کی کتنی ”مکمل اور جامع“ تلاشی لے سکتے ہیں؟.... اور گراﺅنڈ پر تو یہ جامہ تلاشی ممکن ہی نہیں!
اس حالیہ آپریشن کی ”بلو بیک“ بھی ایک بڑا اہم سوال ہے۔ لیکن یہ بلو بیک (Blowback) اتنی ہی کمزور ہو گی جتنی اس آپریشن کی تفصیلات پردہ¿ اخفاءمیں رہیں گی!
ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ دہشت گردوں کا ردعمل کیا ہو گا۔ ان کا نیٹ ورک پاکستان کے سارے صوبوں میں پھیلا ہوا ہے۔ فی الحال فوج ان کی ”ہارڈ کور“ قیادت کو نشانہ بنا رہی ہے۔ جب تک قیادت کی یہ ”جڑ“ نمناک ہے، اس میں پھل پھول اور پتے پتیاں لگنے کے امکانات سے صرفِ نظر نہیں کیا جانا چاہئے۔
آپریشن کے علاقے سے بے گھر لوگوں کی نقل مکانی ایک بڑا جذباتی، انسانی اور متنازعہ فیہ معاملہ ہے اور ایک بڑا انسانی المیہ بھی ہے۔ جو لوگ واقعی بے بسی اور بے چارگی کا شکار ہوں، تو ان کے ساتھ ہمدردی نہ کرنا پرلے درجے کی سنگدلی اور شقاوت ہو گی۔ لیکن اگر ان میں اکثریت ان لوگوں کی ہو جو برس ہا برس سے دہشت گردوں کو اپنے گلی کوچوں اور گھروں کے آنگنوں میں دیکھتی رہی، پناہ دیتی رہی، ان کی دیکھ بھال کرتی رہی اور خاموش رہی تو کیا اس خاموشی کو ”نیم رضا مندی“ کی زمرے میں شمار نہیں کیا جا سکتا؟
کوئی صاحب اس موضوع پر اظہار خیال کرنا چاہیں تو ان کا از حد ممنون ہوں گا!

مزید :

کالم -