روشن سائے ۔۔۔ عرش کے سائے
رمضان المبارک کی آمد کے ساتھ ہی اللہ کی طرف سے ہر انسان کو اس کی رحمتیں برابر میسر ہوتی ہیں اور اس میں ان کو بھی اللہ کی طرف سے دعوت عام ہوتی ہے جواللہ کی راہ سے بھٹکے ہوئے ہوتے ہیں اس ماہ کا خاصہ ہی یہ ہے کہ جہاں انسان کوعاجزی کا سبق دیا جاتا ہے وہاں پر اللہ کی طرف سے اپنے انسانوں پر خزانوں کی بارش کر دی جاتی ہے اور جو اللہ کی ان رحمتوں سے محروم رہتے ہیں اس میں ان کی اپنی کوتاہیاں ہوتی ہیں اللہ کی طرف سے تو اس مبارک مہینے میں شیطان کو جکڑ دیا جاتا ہے لیکن جن انسانوں کو ہدا ئیت نہیں ملتی ۔ اس میں ان کے اپنے عمل ایسے ہوتے ہیں، جس سے ان کے دلوں پر مہر لگا دی جاتی ہے اگر اللہ کی طرف سے رحمتوں کے دروازے کھل جاتے ہیں تو بعض مقامات پر رحمتوں کا سلسلہ اللہ کی طرف سے روک تو دیا جاتا ہے، لیکن توبہ کے دروازے ہر وقت کھلے رہتے ہیں ماہ رمضان کے شروع ہوتے ہی معافی اور رحمتوں کا جو سلسلہ اللہ کی طرف سے شروع کیا جاتا ہے اس کے لئے اللہ کی راہ میں کچھ دینے کا سلسلہ سب سے اہم ہے بے شک اللہ نے خاموشی اور ظاہری دونوں طریقوں سے دوسروں کی مدد کرنے کا کہا گیا ہے لیکن ایسا بھی نہیں کہا کہ آپ کسی کو کچھ دیتے وقت اس کی ایسے تشہیر کریں کہ جس کی مدد کی جا رہی ہے اس کی عزت نفس متاثر ہوایسے عمل اللہ کے ہاں ناپسند کیے گے ہیں جیسا کہ ہم اکثر دیکھتے ہیں کہ ہمارے حکمران سرکاری خرچ پر غریبوں کی اس طرح مدد کرتے ہیں جیسے وہ ان کے ان داتا ہیں کئی بار تو ایسا بھی ہوا کہ غربت کے مارے لوگ امداد لیتے ہوئے دھکم پیل سے دم ہی توڑ گئے ۔ حکمران لوگوں کو دی جانے والی امداد پر اپنی تصویریں چھپوا کر اپنی ذاتی تشہیر کرتے ہیں اصل میں تو یہ عوام کا پیسہ ہوتا ہے جو عوام پر ہی لگا دیا جاتا ہے، لیکن عوام کو امداد دینے کے لئے جو طریقہ اختیار کیا جاتا ہے وہ نامناسب ہے حکمران اور ان کے مشیر اتنا بھی نہیں جانتے کہ جو رقم غریبوں میں تقسیم کی جاتی ہے اس کا اجر اس شخص کو جاتا ہے، جس کے ہاتھ سے یہ رقم نکل کر حکمرانوں تک پہنچتی ہے تاریخ میں کئی ایسے حکمران بھی گزرئے ہیں، جنہوں نے اللہ کی رضا کے مطابق لوگوں کی مدد کی اور ایسے حکمرانوں پر اللہ کی طرف سے رحمتوں کے دروازے کھل گئے۔ دوسری طرف ملک بھر میں کئی تنظیمیں بھی فلاحی کاموں کی بنیاد پر لوگوں کی مدد کر رہی ہیں ان تنظیموں میں کئی مخیر لوگ اپنی بساط کے مطابق غریب لوگوں کی مدد کرتے ہیں پاکستان میں جن لوگوں نے غریبوں کی مدد کر کے نیکیاں کمائی ان میں جناب عبدالستار ایدھی کا نام سب سے نمایاں ہے، کیونکہ انہوں نے غریبوں کی امانت کو غریبوں میں ہی لوٹا دیا اور اس پیسے سے اپنی زندگی بدلنے کی بجائے کسی ضرورت مند کے حالات میں بہتری کی کوشش کی اور آج تک وہ اپنی سادہ طبیعت کے باعث لوگوں کے دلوں میں ہیرو کی حیثیت رکھتے ہیں ایدھی صاحب نے اپنی زندگی کا ایک ایک لمحہ ضرورت مندوں کے لئے وقف کر رکھا ہے، اِسی طرح ڈاکٹر امجد ثاقب کی تنظیم بھی ضرورت مندوں کی زندگیوں میں بہتری کے لئے کوشاں ہے ڈاکٹر صاحب نے اپنی تنظیم کے ذریعے لوگوں میں قرض دینے کا سلسلہ قرآن و حدیث کے مطابق شروع کر رکھا ہے قرآن و حدیث میں متعدد جگہوں پر محتاج لوگوں کی ضرورت پوری کرنے کا کہا گیا ہے،جس طرح قران میں کہا گیا (بھلائی کے کام کرو تاکہ تم کامیاب ہو جاؤ)اور اسی طرح ایک اور جگہ پر کہا گیا (اچھے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کرو) ڈاکٹر امجد ثاقب بھی ان ہی خطوط پر کام کر رہے ہیں وہ ضرورت مندوں کو بلا سود قرض دے کر ان کو اپنی زندگیاں بدلنے کا موقع فراہم کر رہے ہیں وہ لوگوں کی مدد کر رہے ہیں اور اللہ نے ان کی مدد کا ذمہ لے رکھا ہے ۔ رسول پاکﷺ نے ارشاد فرمایا،جس شخص نے کسی مسلمان کی کوئی بھی دنیاوی پریشانی دور کی اللہ قیامت کے دن اس کی پریشانیوں کو دور فرمائے گا،اس طرح ایک اور موقع پر رسول پاک ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ، اگر کوئی مسلمان کسی مسلمان کو دو مرتبہ قرضہ دیتا ہے تو ایک بار صدقہ ہوتا ہے، اس لئے ڈاکٹر امجد ثاقب لوگوں کو بلاسود قرضہ دے کر اللہ کے ہاں دہرا ثواب حاصل کر رہے ہیں اللہ ان کو صحت اور ہمت دے اور وہ اسلامی اصولوں کے مطابق اپنی تحریک جاری رکھیں میری نظر میں ڈاکٹر صاحب ایک تنظیم نہیں، بلکہ ایک ایسے انقلابی پروگرام کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں، جس میں ان کو غرباء کی دعاوءں اور اللہ کی مدد حاصل ہے ا نہوں نے ملک کے طول و عرض میں اپنی ذہانت اور مثبت سوچ کے ذریعے عوام تک جو پیغام پہنچایا ہے ۔ اس کے اثرات آنے والے وقتوں میں سامنے آئیں گے اور جب مورخ تاریخ لکھے گا تو ایسا ممکن نہیں کہ وہ ڈاکٹر امجد ثاقب کو نظر انداز کر سکے،لیکن ان تمام خوبیوں کے باوجود ڈاکٹر صاحب کو ہمہ وقت احتیاط سے اپنے پروگرام کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے انہیں اپنی تنظیم کو کسی بحران سے بچانے کے لئے کچھ بنیادی تبدیلیوں پر غور کرنا چاہئے۔
قرض حسنہ اور انفاق فی سبیل اللہ سے مال میں کمی نہیں آتی، ان تمام حوالوں کا مقصد لوگوں کے اندر ایک تحریک پیدا کرنا ہے ،کیونکہ رمضان المبارک میں زکوٰۃ دینے کے لئے اگر بہت سے لوگ گرم جوشی کا مظاہرہ کرتے ہیں تو دوسری طرف ایسے بھی ہیں ،جو زکوٰۃ نہ دینے کے لئے جعلی اسٹام بینکوں میں جمع کرواتے ہیں اور ہمارے ہاں ایسا کوئی قانون نہیں جو اس جعل سازی کو روک سے سکے ان لوگوں کو سوچنا چاہئے کہ ہمیں اللہ کی طرف سے گارنٹی مل رہی ہے کہ جتنا اللہ کی راہ میں خرچ کرو گے اس کے بدلہ میں کئی گنا زیادہ تمہیں واپس مل جائے گا اور اگر ہم پھر بھی جعل سازی کرتے ہیں تو اس بات کی گارنٹی کون دے گا کہ بینکوں میں پڑا پیسہ ہمارے لئے اطمنان کا باعث بنے گا اور ہمیں اس سے کوئی فائدہ ہو گا ۔ بے شک ایسے لوگ خسارے میں رہیں گے اور اپنی آخرت بھی خراب کریں گے۔
رسول پاکﷺ نے فرمایا، کہ مَیں نے شب معراج میں جنت کے دروازہ پر صدقہ کا بدلہ دس گنا اور قرضہ دینے کا بدلہ اٹھارہ گنا لکھا ہوا دیکھا ۔ مَیں نے کہا اے جبرئیل ،قرض صدقہ سے بڑھ کر کیوں ہے ؟ جبرئیل علیہ السلام نے فرمایا کہ سائل مانگتا ہے، جبکہ اس کے پاس کچھ مال موجود بھی ہو اور قرض دار ضرورت کے وقت ہی سوال کرتا ہے ،اس لئے ماہ رمضان میں ہمارہ فرض ہے کہ ہم اپنی خواہشات کو پس پشت ڈال کر ایسے افراد کی دل کھول کر مدد کریں جو مشکلات کا شکار ہیں وہ صدقہ ہو یا پھر قرض حسنہ دونوں طریقے ہی اللہ کو پسند ہیں وقتی راحت اور سکون کے بدلے ہمیں اپنی آخرت کی فکر کرنی چاہئے۔ رسول پاکﷺ کا فرمان ہے کہ تین شخصوں سے اللہ بہت محبت کرتا ہے ۔ ان میں سے ایک شخص وہ بھی ہے جو کسی شخص کی اس طرح مدد کرے کہ اللہ اور سائل کے علاوہ کسی کو خبر نہ ہو رسول پاکﷺ نے فرمایا کہ قیامت کے دن سات لوگ اللہ کے عرش کے سائے میں ہوں گے ۔ ان میں سے ایک وہ شخص ہے جو اس طرح صدقہ کرے کہ اس کے بائیں ہاتھ کو بھی معلوم نہ ہو کہ دائیں ہاتھ نے خرچ کیا ہے ، اس میں کوئی شک کی گنجائش نہیں کہ رمضان المبارک میں شیطان تو زنجیروں میں جھکڑا ہو ا رہتا ہے، لیکن ہم اپنے مال کو کیونکر غریبوں میں تقسیم نہیں کرتے اللہ کا فرمان ہے کہ اپنی جائز ضرورتوں کے علاوہ سارے کا سارا مال اللہ کی راہ میں دے دو یہی نجات کا راستہ ہے اور ہمیں اپنی زندگیوں اور آخرت کے لئے نجات کا راستہ ہی اپنانے کی کوشش کرنی چاہئے بے شک شیطان کو اللہ سبحان و تعالیٰ نے جکڑ رکھا ہے، لیکن ہمیں بھی اپنی خواہشات کے شیطان کو بھی جکڑنا ہو گا۔
حدیث نبوی ﷺ ہے کہ جس نے ایمان کے ساتھ اور نیکی کی امید رکھتے ہوئے رمضان کا قیام کیا اس کے سابقہ گناہ معاف کر دئیے جائے گے۔