کیا درخت چھاؤں بیچتے ہیں ؟
خانوادہ شریف کے سربراہ برادران سپریم کورٹ کی جانب سے بنائی گئی جے آئی ٹی میں کئے جانے والے سوالات پر برسر عام تبصرہ کرنے سے احتراز برتتے ہیں، لیکن برہمی میں یہ کہتے نہیں تھکتے کہ ان کے خاندان کا پانچویں بار احتساب ہو رہا ہے۔ یہ ہی تو المیہ ہے کہ اس ملک میں ان کا ہی کیا کبھی کسی کا حقیقی معنوں میں احتساب ہوا ہی نہیں ہے ورنہ دولت کے ایسے انبار نہیں لگتے جیسے اس ملک کے سیاست دانوں ، سرمایہ داروں، سرمایہ کاروں اور اعلیٰ سرکاری افسران نے لگائے ہوئے ہیں۔ دولت کی ننگ دھڑنگ نمائش پاکستانی نو دولتیوں کا خاصہ ہے۔ جے آئی ٹی کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ یہ تحقیق کرے کہ لندن میں موجود جا ئیداد خانوادہ شریف نے کس طرح بنائی ۔یہ سیدھا سادہ سوال ہے۔یہ سوال تو لوگ گلی کوچوں میں بھی اس وقت کرتے ہیں جب وہ یہ دیکھتے ہیں کہ ان کا پڑوسی کل تک تو معمولی زندگی گزار رہا تھا اچانک اس کے پاس کون ساجادوئی چراغ آگیا کہ وہ راتوں رات امیر کبیر ہوگیا۔ رہن سہن تبدیل ہوگیا، کچا پکا مکان اونچے بڑے وسیع مکان میں تبدیل ہوگیا۔ میاں محمد شریف مرحوم اور ان کے بھائیوں کی مشترکہ ملکیت اتفاق فاؤنڈری سن ستر میں قومی ملکیت میں لے لی گئی تھی۔ 1977ء میں جنرل ضیاء الحق نے بھٹو حکومت کا خاتمہ کردیا اور اس کے ساتھ ساتھ بھٹو حکومت کی پالیسیوں کو بھی پلٹ دیا۔اسی مہم کے دوران میاں شریف مرحوم کو فاؤنڈری واپس کی گئی۔ بعد میں میاں محمدنواز شریف کو سیاست میں ان کے والدین منصوبہ بندی کے تحت لائے۔ وہ منصوبہ یہ ہی تو تھا کہ سیاست اور حکومت میں ہوتے ہوئے خانوادہ شریف کی سلطنت کھڑی کی جائے۔ ایسا ہی ہوا۔
1947ء کا ایک معمولی گھرانہ 2017ء میں صرف پاکستان میں 47 صنعتی اور کاروباری اداروں کا مالک بن گیا ۔ اندرون اور بیرون ملک کھربوں روپے کا مالک بن گیا۔ نواز شریف سادہ لوح عوام کو تسلی دیتے ہیں کہ انہوں نے سیاست میں قدم رکھا تو انہوں نے خاندانی کاروبار سے علیحدگی اختیار کرلی۔ وزیر اعظم کے عہدے پر فائز شخص اگر لوگوں کو بے وقوف بنائے تو پھر سیاست اور ریاست کا کیا انجام ہو سکتا ہے۔ قیاس کیا جا سکتا ہے۔ نواز شریف نے اپنے ہر دور اقتدار میں قدم قدم پر اپنے خانوادہ کے کاروبار کے فروغ کے لئے کام کیا ہے، یہ معلومات اکٹھا کرنے کے لئے ایک اور جے آئی ٹی بنانا پڑے گی۔
نواز شریف ہوں یا شہباز شریف انہیں اچھی طرح علم ہے کہ جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوکر وہ بند گلی میں داخل ہوچکے ہیں جہاں تمام حقائق بیان کئے بغیر سیاست میں ان کی سلامتی کی کوئی ضمانت نہیں ۔ یہ پاناما کیس گلے کی وہ گھنٹی بن گیا ہے جو تحقیقات کرنے والے بین الاقوامی صحافیوں کی ایک جماعت نے کئی ملکوں کے کئی افراد کے گلوں میں باندھ دی ہے۔اس میں حکومت ملوث تھی، نہ عدالتیں، نہ کٹھ پتلی ہلانے والے کوئی اور لوگ۔ یہ کسی سیاست کا عمل دخل بھی نہیں تھا ۔ یہ بھی ان کی خام خیالی ہے کہ کوئی قوت ان کی حکومت ختم کرنے کے در پے ہے۔ یہ تو سیدھا سادا سوال ہے کہ یہ بتایا جائے کہ خانوادہ شریف کے پاس دولت کہاں سے آئی؟ پاکستان میں یہ رواج بن گیا ہے کہ اپنی حیثیت اور آمدنی سے کہیں زیادہ پر تعیش زندگی گزانے والے یہ بتانے سے کتراتے ہیں کہ آخر ان کے ذریعہ آمدنی کو دوسرے ایسے کیا سہارے حاصل ہیں جو اس ملک میں ہر شخص کو حاصل نہیں ہیں۔پاکستان کے عام آدمی کی معاشی حالت ایک انچ بھی بہتر نہیں ہوتی ہے لیکن سیاست کرنے والوں کی معاشی حالت گزوں کے حساب سے بہتر سے بہتر ہوتی جاتی ہے۔ کیا یہ قومی وسائل کی تقسیم کے طریقہ کار میں خامی کا نتیجہ ہے، کیا یہ انصاف کی کمی کا سبب ہے، کیا اسے سرکاری اداروں کی کوتاہی قرار دیا جا سکتا ہے جو اس بات کاجائزہ نہیں لے پاتے کہ محلات کیسے کھڑے ہوتے ہیں ۔ سرکاری اداروں کو تو سیاست کرنے والے حکمرانوں نے جس طرح اپنی خواہشات کا تابع کر دیا ہے یہ سب کچھ اسی کا شاخسانہ ہے۔ اس سارے نظام میں جلدی تبدیلی لانے کی ضرورت ہے ورنہ صورت حال قابو میں نہیں آسکے گی۔ کسی شاعر نے کہا ہے :
یہ تم جو مجھ سے محبت کا مول پوچھتے ہو
تم سے کس نے کہا ، درخت چھاؤں بیچتے ہیں