حکومت جے آئی ٹی کو ہراساں کرنا بند کرے ،زمین پھٹے یا آسمان گرے قانون کے مطابق چلیں گے :سپریم کورٹ
اسلام آباد ( مانیٹرنگ ڈیسک228ایجنسیاں ) سپریم کورٹ نے پانامہ جے آئی ٹی کی دھمکیوں اور مشکلات سے متعلق درخواست کی سماعت کے دوران قرار دیا ہے کہ میڈیا اورحکومتی نمائندے منظم مہم چلا رہے ہیں ، آٹھ نو لوگ مختلف ٹی وی چینلز پر بیٹھ کرعدلیہ اور جے آئی ٹی پر تنقید کرتے ہیں، کوئی کچھ بھی کہے اس کی پرواہ نہیں ہے ، آسمان گرے یا زمین پھٹے ہم نے قانون کے مطابق کام کرنا ہے ،عدالتی اختیار کا تعین عوام یا میڈیا نہیں کر سکتے بلکہ سپریم کورٹ کے اختیارات کا تعین آئین میں درج ہے، حکومت فوری طور پر جے آئی ٹی کو ہراساں کرنا بند کرے ۔ عدالت عظمیٰ نے نواز شریف کی ملکیتی چودھری شوگر مل کے ریکارڈ سمیت دیگر ریکارڈ میں ایس ای سی پی کی جانب سے مبینہ ٹمپرنگ پرا یف آئی آے کو قانون کے مطابق کارروائی کی ہدایت کرکے رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیدیا ہے آئی بی کی جانب سے جے آئی ٹی کو مبینہ طور پر ہراساں کر نے کے معاملے پر اٹارنی جنرل کو معاونت کی ہدایت کرتے ہوئے کیس کی سماعت آج تک ملتوی کردی ۔جسٹس اعجازافضل خان کی سربراہی میں جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل سپریم کورٹ کے 3 رکنی خصوصی بنچ نے جے آئی ٹی کو تحفظات ،دھمکیوں سے متعلق کیس کی سماعت کی ، سماعت کے دوران تحریک انصاف کے رہنما فواد چودھری نے عدالت کو بتایا کہ جے آئی ٹی کی مخصوص چیزیں لیک کی جا رہی ہیں، سپریم کورٹ کی کارروائی جاری ہے لیکن ایک خاص انگریزی اخبارمیں اس سے متعلق شہ سرخیاں لگ رہی ہیں، آج ایک اخبار نے تو فیصلہ بھی سنا دیا، اس خبر سے غلط عوامی تاثر جا رہا ہے، اخبار کو ریکارڈ کا حصہ بنایا جائے اس پر جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ میں نے بھی اخبارمیں خبر پڑھی ہے، لگتا ہے یہ آئی سی جے کا فیصلہ ہے، ہمیں ایسی خبروں سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ صرف مخصوص نہیں اب تو ہرچیز لیک ہو رہی ہے، ہمیں پتہ ہے اس کا مقصد کیا ہے، جے آئی ٹی نے ہمیں مسائل کا بتایا ہے،بہت سنگین قسم کے الزامات عائد کئے گئے ہیں، ہم اس حوالے سے مناسب حکم جاری کریں گے، جسٹس شیخ عظمت سعید نے استفسارکیا کہ کیا ریکارڈ میں رد و بدل کا الزام جرم نہیں ، ایف آئی آر بھی الزام پر درج کی جاتی ہے، اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ایس ای سی پی نے اس الزام کو مسترد کردیا ہے۔ دفعہ 486 اور دیگر دفعات کے تحت ایف آئی آر درج ہوتی ہے۔ جسٹس اعجاز افضل خان نے کہاکہ حقائق جانے بغیر بہت کچھ کہا گیا، پہلے بھی کہا تھا کہ آسمان گرے یا زمین پھٹ جائے ہمیں پرواہ نہیں، کوئی کچھ بھی کہتا رہے ہمیں اس کی پرواہ نہیں لیکن خاموش تماشائی نہیں بنیں گے۔چیئرمین ایس ای سی پی کے خلاف سنگین الزامات ہیں، جے آئی ٹی نے ایس ای سی پی پر ریکارڈ میں ردوبدل کا الزام لگایا، ہم آپ سے کافی مایوس ہوئے ہیں۔ ہم سمجھ رہے تھے کہ آپ نے بطور اٹارنی جنرل ایکشن لیا ہوگا لیکن آپ نے سیدھا ہی کہہ دیا کہ بادی النظر میں الزامات غلط ہیں ۔ جسٹس شیخ عظمت نے کہا کہ جے آئی ٹی نے آئی بی پرالزام لگایا ہے کہ وہ ہراساں کرتے ہیں اور آئی بی نے الزامات کی سیدھے سیدھے تردید کی ہ، ڈی جی آئی بی نے ایک شاندار خط بھی لکھا ہے۔ کیا آئی بی والے ہمارا ڈیٹا بھی جمع کرتے ہیں، کیسے مان لوں کہ میری مانیٹرنگ نہیں ہوتی۔ آئی بی نے اعتراف جرم کرلیا ہے، آئی بی کا کام ریاست کے لئے ہونا چاہیے کسی کی ذات کے لیے نہیں۔ اٹارنی جنرل یہ کیا ہو رہا ہے، کیا آپ ہمیں سمجھائیں گے۔بہت سے سوالات پوچھنے کا وقت آگیا ہے، اب بتانا ہو گا کہ آئی بی کا کام اور مینڈیٹ کیا ہے۔سپریم کورٹ کے حکم کے بعد کوائف اکٹھے کرنا کیا آئی بی کا مینڈیٹ ہے، آئی بی کے اکٹھے کئے گئے کوائف لیک ہونے پر کیسے تحقیقات ہونی چاہیے، جسٹس اعجاز الاحسن نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ وزیر اعظم یا کسی اور کے نہیں وفاق کے نمائندے ہیں، آئی بی کس اختیارکے تحت ہرمعاملے میں اپنی ناک پھنسا رہی ہے۔ یہ سیدھا ہراساں کرنا ہے ،آئی بی کو کس نے اختیار دیا کہ جے آئی ٹی ارکان کے گھر والوں کو ہراساں کرے۔ کیا آئی بی اور کیا ایس ای سی پی، سب رکاوٹیں ڈال رہے ہیں اس پراٹارنی جنرل نے کہا کہ ایف آئی اے معاملہ کی تحقیقات کر سکتا ہے، جس پر جسٹس اعجازالاحسن نے استفسار کیا کہ کیا آئی بی کی تحقیقات ایف آئی اے کرے گا؟جسٹس اعجاز افضل نے آئی بی کے معاملے پر اٹارنی جنرل سے معاونت طلب کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ ضرورت محسوس کی تو ڈی جی آئی بی کو بھی طلب کریں گے، عدالت نے جے آئی ٹی ارکان کو کل حاضری سے استثنیدیتے ہوئے ہدایت کی کہ وہ لوگوں اور میڈیا کی باتیں نہ سنیں، ارد گرد دیکھنے کی بجائے اپنے ٹاسک پر توجہ دیں، سپریم کورٹ نے ڈی جی ایف آئی اے کو ایس ای سی پی کی جانب سے ریکارڈ ٹمپرنگ پر کارروائی کا حکم دیا۔ سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ میڈیا اور حکومتی نمائندے منظم مہم چلا رہے ہیں حقائق جانے بغیر بہت کچھ کہا گیا۔ ہمیں کسی کے کہنے پر کوئی ڈر نہیں ۔عدلیہ پر حملے کرنے والوں میں 8سے نو افراد ہو سکتے ہیں۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ کس نے اختیار دیا ہے کہ جے آئی ٹی ارکان کو ہراساں کیا جائے ، ہم نے کوئی بھرتیاں نہیں کی تھیں بلکہ جے آئی ٹی مقر ر کی تھی۔ یہ سیدھا سیدھا ہراساں کرنا ہے۔ آئی بی کو کس نے اختیار دیا کہ ڈیٹا اکٹھا کرے ؟ سپریم کورٹ نے انٹیلی جنس بیورو کو پاناما لیکس کی تحقیقات کرنے والی جے آئی ٹی کے ارکان کو ڈرانے دھمکانے اورہراساں کرنے سے روک دیا ۔ عدالت کا کہنا تھا کہ اگر ایسا نہ ہوا تو پھر عدالت ناخوشگوار حکم جاری کرنے پر مجبور ہوگی۔ جسٹس عظمت سعید نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آئی بی کی طرف سے محض الزامات کی تردید سے کام نہیں چلے گا۔ ڈی جی آئی بی نے اپنے خط میں کہا ہے کہ جے آئی ٹی کے ارکان کے محض کوائف اکٹھے کیے گئے ہیں انھیں یا اْن کے ملازموں کوہراساں نہیں کیا گیا۔ انٹیلی جنس بیورو کے اہلکار کسی فرد کے لیے کام کرتے ہیں یا پھر ریاست کے لیے۔ انٹیلی جنس بیورو کے سربراہ کا خط اعتراف جرم کے برابر ہے۔اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ آئی بی کے سربراہ کو صفائی کا موقع ملنا چاہیے جس پر جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ایسے افراد کے خلاف فوجداری مقدمات درج ہونے چاہئیں۔ جسٹس اعجاز افضل کا کہنا تھا کہ آئی بی کو یہ اختیار کس قانون کے تحت ملا کہ لوگوں کے کوائف اکٹھے کرتی پھرے۔ بینچ کے سربراہ نے اٹارنی جنرل کو آئی بی کے معاملے پر عدالت کی معاونت کرنے کا بھی حکم دیا ۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے وارننگ دی کہ تحقیقاتی ٹیم کو ہراساں کرنے کا عمل رکنا چاہیے، ایسا نہ ہو کوئی ناخوشگوار حکم جاری کریں۔ جسٹس اعجاز افضل نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ آپ کسی سیاسی جماعت کا حصہ نہیں، سیدھے سادھے الزامات کو بظاہر غلط قرار دیدیا۔ ہر چیز اس شخص کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑی جا سکتی جس کے اثاثوں کا پتہ چلایا جا رہا ہے۔جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ انٹیلی جنس بیورونے جے آئی ٹی ارکان کے کوائف جمع کرنے کا اعتراف جرم کیا۔ آئی بی ہر چیز میں اپنی ٹانگ کیو ں اڑا رہی ہے؟ جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ آئی بی نے نادرا سسٹم سے بلال رسول کی معلومات لیں، بعد میں کس کو دے دیں؟جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ آٹھ لوگ مختلف چینلز پر جے آئی ٹی پر اٹیک کر رہے ہیں۔ حکومت کی طرف سے بڑی مہم چلائی جا رہی ہے، اپنے لوگوں سے کہیں حد میں رہیں۔ جے آئی ٹی کو ہراساں کرنے کا عمل رکنا چاہیے۔ جسٹس عظمت سعید نے سوال کیا کہ ملک میں وائٹ کالر کرائم، دہشت گردی اور جرائم ختم ہو چکے ہیں کہ ملک کی سب سے بڑی سویلین ایجنسی جے آئی ٹی اور سپریم کورٹ کے ججز کے کوائف اکٹھا کر رہی ہے؟جسٹس عظمت سعید شیخ نے کہا کہ کیا آئی بی کی نجکاری کر دی گئی ہے جو پرائیویٹ لوگوں کو خدمات دے رہی ہے۔ ڈائریکٹر جنرل آئی بی کی مدت ملازمت میں توسیع ذاتی کام کے لیے کی گئی ہے۔