عالمِ اسلام پر نفاق کے گہرے سائے (3)
-4اس وقت مسئلہ فلسطین مخلصین اور منافقین کو پرکھنے کا ایک پیمانہ ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں یہود و نصاریٰ کو حرم مکی سے بغض تھا، اسی لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جو قدرت کے باوجود حج نہ کرے تو مجھے اس سے غرض نہیں کہ وہ یہودی ہو کر مرے یا نصرانی ہو کر (ترمذی، حدیث نمبر: 812) یعنی اس وقت کعبتہ اللہ سے محبت اخلاص کے لئے معیار تھا، موجودہ دور میں یہود و نصاریٰ کو مسلمانوں سے سب سے زیادہ بغض اس بات سے ہے کہ وہ انبیاء بنی اسرائیل کے مرکز بیت المقدس پر کیوں قابض ہیں، اس لئے اس وقت جو شخص یا جو حکومت مسئلہ فلسطین کو نظر انداز کرتی ہے اور یہودیوں کے ساتھ اس کا سودا کرنے کو تیار ہے وہ اس دور کے منافقین ہیں، اس لئے ایسے ملکوں کے سرکاری عہدہ داروں اور سرکاری مولویوں کو اداروں اور تنظیموں میں مدعو کرنے سے گریز کیا جائے اسی طرح اگر اعداء اسلام کی ہم نوا ان ظالم حکومتوں کی طرف سے کوئی دعوت آئے تو اسے قبول نہیں کیا جائے، اور صاف طور پر لکھا جائے کہ مسئلہ فلسطین میں آپ کی مسلمان مخالف پالیسی کی وجہ سے ہم لوگ اس دعوت کو رد کر رہے ہیں۔
-5 فلسطین کا سودا کرنے میں جن ملکوں کا نام سامنے آ رہا ہے دینی کاموں کے لئے نہ ان سے عطیہ مانگا جائے اور نہ ان کا عطیہ قبول کیا جائے، کیوں کہ ایسے ممالک مسجدیں اور عمارتیں بنوا کر یا تھوڑی بہت رقمی امداد کر کے اپنے حقیقی مکروہ چہرے کو چھپانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
-6 اسرائیل اور اسرائیل نواز امریکی کمپنیوں کا مستقبل طور پر بائیکاٹ کیا جائے، یہ نہ سوچا جائے کہ ہمارے سامان نہ خریدنے سے کمپنی تو بند نہیں ہو گی پھر اس کا کیا فائدہ؟ بلکہ اس بات کو پیش نظر رکھا جائے کہ ہمیں یہ کام ایک دینی فریضہ کے طور پر کرنا ہے، بلا سے کہ ہمارے اس عمل سے دشمن کو خاطر خواہ نقصان نہ پہنچے لیکن ہم عند اللہ ظالم کی حمایت کے گناہ سے تو بچیں گے، کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ظالموں سے تمہارا تعلق نہیں ہونا چاہئے۔
-7 یہ بھی ضروری ہے کہ مسلمان 1967ء سے پہلے کی طرح زیادہ سے زیادہ مسجد اقصیٰ کی زیارت کا شرف حاصل کریں اور بیت المقدس کے سفر کا اہتمام کریں تاکہ ظاہر ہو کہ مسلمانوں کو اس مسجد سے اب تک ویسا ہی تعلق ہے جیسا تعلق پہلے تھا۔
-8 مسجد اقصیٰ کے موضوع پر زیادہ سے زیادہ جلسے کئے جائیں، جمعہ کے بیانات میں، مدارس اسلامیہ کے سالانہ جلسوں میں مسلم جماعتوں اور تنظیموں کے پروگراموں میں اس موضوع کو پیش کیا جائے، مضامین کے ذریعہ یہودیوں کی قتل و غارت گری ظلم و بربریت اور عالمی قوانین کی خلاف ورزی کو خوب واضح کیا جائے برادرانِ وطن کے ساتھ مل کر مسئلہ فلسطین پر سیمینار رکھے جائیں اور اس میں زبانی بیانات تحریری دستاویزات اور تصویروں کے ذریعے فلسطینیوں کی مظلومیت کو زیادہ سے زیادہ نمایاں کیا جائے۔
-9 اس وقت ہمارے دینی مدارس میں تاریخ کا مضمون گویا پڑھایا ہی نہیں جاتا لیکن کم سے کم سیرت نبویؐ کے ساتھ مقامات مقدسہ کی تاریخ کو شامل نصاب کیا جائے تاکہ آنے والی نسل کا اپنے مقدس مقامات سے محبت و اعتقاد کا رشتہ بغیر کسی کمی کے قائم رہے۔
-10سوشل میڈیا کے ذریعہ مسئلہ فلسطین کی اہمیت، مغرب کی دوہری پالیسی اور اس سلسلے میں موجودہ مسلم حکمرانوں کی کوتاہی کو ہر ہر مسلمان تک پہنچایا جائے اور اس کو پر امن اور مہذب احتجاج کا ذریعہ بنایا جائے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب تم کسی برائی کو دیکھو تو قوت سے بدلنے کی کوشش کرو قوت صرف ہتھیار ہی کی نہیں ہوتی قانون کی بھی ہوتی ہے اور جمہوری معاشرے میں اتحاد و اجتماعیت کی بھی ہوتی ہے، اگر قوت کا استعمال ممکن نہ ہو تو زبان سے روکنا ضروری ہے آج کل پر امن احتجاج کی جو صورتیں اختیار کی جاتی ہیں یا جن کا ذکر اوپر کیا گیا ہے یہ سب زبان ہی سے روکنے کے زمرہ میں آتے ہیں اور اگر زبان سے بھی کہنا ممکن نہ ہو تو انسان دل میں کڑھن محسوس کرے یہ ایمان کا بالکل آخری درجہ ہے (مسلم حدیث نمبر: 49) اب اگر کوئی شخص حکمرانوں کے روبرو کچھ بول نہ سکے دل کی کڑھن کے ساتھ خاموشی اختیار کر لے تو وہ ایمان کے آخری درجہ میں ہے اگر کڑھن محسوس کرنے کے بجائے وہ خوشامد اور چاپلوسی کرنے لگے جیسا کہ اس وقت عالم اسلام کے بعض علماء و ارباب افتاء کا حال ہے تو گویا وہ ایمان کے اس آخری درجہ سے بھی محروم ہے۔ جہاں تک ہندوستان کی بات ہے تو عالم اسلام اور مقامات مقدسہ کے بارے میں اس کی ایک روشن تاریخ رہی ہے چنانچہ ہندوستان کے علماء اور اکابر نے خلافت عثمانیہ کے سقوط کے وقت خاموشی اختیار نہیں کی اور یہ نہیں سوچا کہ یہ ہمارا مسئلہ نہیں ہے ، یہ پرایا مسئلہ ہے بلکہ اس وقت کے متحدہ ہندوستان میں اس کے خلاف بھرپور احتجاج کیا گیا اور خلافت تحریک وجود میں آئی ملت کے ذمہ داروں کے لئے لمحہ فکر ہے کہ اگر اسلامی اقدار کے خلاف کھلے ہوئے عناد، یہود و نصاریٰ کی دوسری اور مقامات مقدسہ کے احترام کی پامالی پر بھی ہماری رگ حمیت نہیں پھڑکے اور ہماری دینی غیرت کو جوش نہیں آئے تو پھر کون سا وقت ہوگا جب ہم اللہ سے کئے ہوئے اس وعدہ کو پورا کر سکیں گے کہ ہم نے اپنے پورے وجود کو خدا کے ہاتھوں بیچ دیا ہے (توبہ:111) اور یہ کہ ہمایرا کچھ نہیں ہے ہم اللہ اور صرف اللہ کے لئے ہیں: ہماری نماز اور ہماری قربانی ہماری زندگی اور ہماری موت اللہ رب العالمین کے لئے ہے۔
(مولانا رحمانی بھارت کے ممتاز عالمِ دین ہیں)۔(ختم شد)