سیاسی رہنما ؤں کے گھروں پر احتجاج کی غلط روایت : یہ سلسلہ کہاں رکے گا ؟
تجزیہ:۔ قدرت اللہ چودھری
تو اصول یہ ٹھہرا کہ میرٹ پر کیا ہوا فیصلہ دس ہزار (یا زیادہ) لوگوں کے دباؤ پر بھی تبدیل نہیں کیا جا سکتا کیونکہ اگر آج دباؤ کے تحت فیصلہ بدل دیا جائے تو کل کو اس سے زیادہ لوگ جمع ہو کر آ جائیں گے اور چاہیں گے کہ یہ فیصلہ بھی تبدیل کر دیا جائے، دوسرا اصول یہ طے ہوا کہ اگر کسی جگہ جلسہ نہ ہو رہا ہو تو کتبے بطور احتجاج اٹھانا منع ہے، تیسرا اصول یہ ہے کہ کسی بھی احتجاجی مظاہرے سے مغلوب و مرعوب نہیں ہونا چاہئے کیونکہ یہ بلیک میلنگ کا ایک حربہ ہے یہ اصولی گفتگو ملک کی اس پارٹی کا لیڈر کر رہا تھا جس کا خیال ہے کہ ڈیڑھ ماہ بعد (عید قربان سے پہلے) ملک تبدیل ہو چکا ہو گا، یہ لوگ جو احتجاج کر رہے تھے اپنے آپ کو تحریک انصاف کے کارکن کہہ رہے تھے احتجاج اس بات پر کر رہے تھے کہ ٹکٹوں کی تقسیم کے فیصلے درست نہیں کئے گئے ان میں سے جو ملتان سے آئے تھے ان کا موقف تھا کہ سکندر بوسن کو تحریک انصاف کا ٹکٹ نہ دیا جائے جو ابھی چند ہفتے پہلے تک مسلم لیگ (ن) میں شامل تھے اور وزارت کا لطف بھی لے رہے تھے، کارکن اپنے لیڈر کو یاد دلا رہے تھے کہ وہ ان سب لوگوں کو جو کبھی مسلم لیگ (ن) کا حصہ تھے کرپٹ کہتے ہوئے نہیں تھکتے تھے اب سوائے اس کے کیا تبدیلی آئی ہے کہ انہوں نے کسی نہ کسی وجہ سے مسلم لیگ (ن) چھوڑ دی اور سیدھے تحریک انصاف کے دامن میں پناہ گیر ہو گئے اس کا ایک فوری فائدہ تو ان سب حضرات کو یہ ہوا کہ ان پر سے نہ صرف کرپشن کا لیبل اتر گیا بلکہ وہ اس جماعت کے ٹکٹ کے پہلے حق دار ٹھہرے جو کئی سال سے کرپشن کا خاتمہ اپنی زندگی کا مشن بنائے ہوئے ہے تو سوال یہ ہے کہ جو لوگ مسلم لیگ (ن) میں شامل تھے وہ راتوں رات چور سے قطب کیسے بن گئے آپ ذرا دھرنے کے دنوں کو یاد کریں اور ان تقریروں کا تصور کریں جو دن میں کئی کئی مرتبہ کنٹینر سے ہوتی تھیں اور جن میں کہا جاتا تھا کہ قومی اسمبلی میں جو لوگ بیٹھے ہیں سب چور اور ڈاکو ہیں کسی استثنا کے بغیر اس ’’اعزاز‘‘ کا مستحق سارے ارکان اسمبلی کو چور اور ڈاکو کہہ کر گردانا گیا۔ لیکن جب سے معلوم ہوا ہے کہ پہلے یہ لوگ چور اور ڈاکو ہوں گے لیکن ان کی ایک خوبی یہ ہے کہ یہ ’’الیکٹ ایبل‘‘ بھی ہیں جس کا مفہوم ہم یہ سمجھے ہیں کہ یہ جس کسی پارٹی میں بھی ہوں رکن اسمبلی منتخب ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں، اس لئے لیڈر نے فیصلہ کیا کہ ہر وہ شخص جو اپنی پارٹی چھوڑ کر اس کا ساتھ دینے کا اعلان کرتا ہے وہ چور اور ڈاکو نہیں ’’الیکٹ ایبل‘‘ ہے اس لئے اس کے لئے پارٹی کے دروازے بھی کھلے ہیں اور ٹکٹ کا بھی حق دار ہے، اب جو ایک ہزار کے لگ بھگ لوگ ٹکٹوں کی تقسیم پر احتجاج کر رہے تھے انہیں شاید خبر نہیں ہوئی تھی کہ پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر دھرنا دینا ہر لحاظ سے جائز ، قانونی اور کار ثواب تھا، غالباً ان لوگوں نے یہ سمجھ رکھا تھا کہ اگر پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر 126، دن کا دھرنا دیا جا سکتا ہے تو ایک آدھ دن یا ایک دن کے کچھ حصے کا دھرنا بنی گالہ میں کیوں نہیں دیا جا سکتا؟ کیا پارلیمنٹ ہاؤس پر کوئی اور سورج چمکتا ہے؟ جس کی روشنی بنی گالہ کی بلندیوں تک نہیں پہنچتی؟ ان احتجاجیوں نے اگر براہ راست اپنے لیڈر کے خطاب نہیں سنے تھے تو ٹیلی ویژن سکرینوں پر تو ضرور دیکھے ہوں گے اس لئے وہ چند احتجاجی کتبے اٹھا کر اسی طرح منہ اٹھائے بنی گالہ کی طرف چلے گئے جس طرح وہ پارلیمنٹ ہاؤس پہنچ گئے تھے لیکن یہاں آ کر انہیں معلوم ہوا کہ یہاں کوئی جلسہ نہیں ہو رہا کہ وہ احتجاجی کتبے اٹھا کر چلے آئیں یہاں آ کر انہیں معلوم ہوا کہ پارلیمانی بورڈ جو فیصلے کر دیتا ہے وہ تبدیل نہیں ہوتے، انہیں یہ بھی بتایا گیا کہ اگر وہ دس ہزار سے زیادہ لوگ بھی لے کر آئیں گے تو بھی فیصلہ بدلا نہیں جائیگا، لیکن ان میں سے کون تھا جو پوچھتا پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر احتجاج کی منطق کیا تھی؟انہیں ڈنکے کی چوٹ بتا دیا گیا کہ کسی کا دباؤ قبول کیا جائیگا نہ کسی بلیک میلنگ میں آیا جائیگا، انہیں یہ بھی بتا دیا گیا کہ کسی کے احتجاج پر فیصلہ تبدیل نہیں کیا جائے گا۔
تحریک انصاف کی خواتین بھی اس فہرست پر احتجاج کر رہی ہیں جس میں سے مخصوص نشستوں پر خواتین کا انتخاب ہو گا، ان خواتین کو بھی امید ہے کہ اگر ان کا احتجاج رنگ لایا تو فہرست میں رد و بدل کر دیا جائیگا جبکہ مخصوص نشتوں کی جو فہرست الیکشن کمیشن کے پاس جمع ہو چکی ہے اس میں تبدیلی نہیں ہو سکتی خود الیکشن کمیشن بھی یہ وضاحت کر چکا ہے کہ فہرست میں رد و بدل ممکن نہیں، معلوم نہیں احتجاج کرنے والی خواتین کو اس ضابطے کے متعلق معلوم ہے یا نہیں کہ جوفہرست الیکشن کمیشن کے پاس جن ترجیحات کے ساتھ جمع کرا دی جائے الیکشن کمیشن اس پر عمل کرنے کا پابند ہوتا ہے، اس لئے اگر کسی نے انہیں یہ یقین دہانی کرائی ہے کہ فہرست میں رد و بدل کر دیا جائیگا تو اس کی کوئی حقیقت نہیں ۔
بظاہر تو یہی لگتا ہے کہ بنی گالہ کے احتجاج کا کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا اور احتجاجیوں کو مایوس ہو کر واپس جانا پڑے گا پولیس نے ہلکے پھلکے لاٹھی چارج سے مظاہرین کی تواضح تو پہلے ہی کر دی ہے اگر وہ باز نہ آئے اور زبردستی محل کے اندر گھسنے کی کوشش کی تو یہ ہلکا لاٹھی چارج تیز بھی ہو سکتا ہے ، اس لئے بہتر ہے کہ احتجاج کرنے والے اپنے لیڈر کے خطاب کو ہی کافی سمجھیں اور احتجاج کا سلسلہ موقوف کر دیں ورنہ اگر لاٹھی چارج تیز ہو گیا تو کچھ بھی ہو سکتا ہے پھر نہ کہنا ہمیں خبر نہ ہوئی، لیکن ایسے محسوس ہوتا ہے کہ دھرنوں کے جس کلچر کو ہمارے بعض سیاستدانوں نے رواج دیا ہے اب وہ آسانی سے ختم نہیں ہو گا احتجاج کر نے والوں نے بنی گالہ کا راستہ تو دیکھ ہی لیا ہے ملتان کے انصافیوں نے یہ دھمکی بھی دی ہے کہ جمشید دستی کے ساتھ اتحاد انہیں قبول نہیں چونکہ یہ اتحاد شاہ محمود قریشی نے کرایا ہے اس لئے اب ملتان میں باب قریش کے باہر احتجاج ہو گا جو شاہ محمود قریشی کی رہائش ہے، یہ سلسلہ کہاں رکے گا، کچھ نہیں کہا جا سکتا، آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔
غلط روایت