بشریٰ بی بی کے سابق دیورپی ٹی آئی کو زک پہنچا سکتے ہیں : مقامی اخبار کا دعویٰ

بشریٰ بی بی کے سابق دیورپی ٹی آئی کو زک پہنچا سکتے ہیں : مقامی اخبار کا دعویٰ
بشریٰ بی بی کے سابق دیورپی ٹی آئی کو زک پہنچا سکتے ہیں : مقامی اخبار کا دعویٰ

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

کراچی (ویب ڈیسک) عمران خان کی تیسری اہلیہ بشریٰ بی بی کے سابق دیور احمد رضا مانیکا این اے 145 پاکپتن میں پی ٹی آئی امیدوار کی شکست کا سبب بن سکتے ہیں۔ عمران خان  اور بشریٰ بی بی کی  شادی کے بعد احمد رضا مانیکا نے برہم ہوکر پی ٹی آئی کو خیر باد کہہ دیا تھا۔

روزنامہ امت کے مطابق احمد رضا مانیکا اور سردار منصب ڈوگر نے این اے 145سے مسلم لیگ (ن) کیلئے درخواستیں دے رکھی ہیں لیکن تاحال پارٹی نے اس حلقے سے اپنا امیدوار کنفرم نہیں کیا۔ اگر احمد رضا مانیکا پی ٹی آئی میں ہی رہتے تو آنے والے الیکشن میں پی ٹی آئی پاکپتن سے قومی اسمبلی کی ایک سیٹ نکال سکتی تھی۔
عمران خان کی بشریٰ بی بی کے ساتھ شادی کے بعد پاکپتن میں پی ٹی آئی کیلئے فضا ابھی تک سازگار نہیں ہوسکی ہے۔ اس سے قبل پی ٹی آئی اس پوزیشن میں آچکی تھی کہ وہ جنرل الیکشن 2018ءمیں مسلم لیگ (ن) کے گڑھ ضلع پاکپتن سے کم از کم قومی اسمبلی کی ایک نشست ضرور حاصل کر سکتی تھی ، جس کی واحد وجہ پنکی پیرنی کے سابق دیور میاں احمد رضا مانیکا ہیں جو پی ٹی آئی کے ضلعی صدر تھے لیکن کپتان کی اپنی پیرنی سے شادی کے بعد میاں احمد رضا مانیکا نے ایک پریس کانفرنس میں یہ کہتے ہوئے پی ٹی آئی کو خیر باد کیا کہ ” پاکپتن شریف درگاہوں کاشہر ہے۔ یہاں لوگ عقیدت سے آتے ہیں۔ مگر ایک مرید عمران خان نے اپنی حدود سے تجاوز کیا اور پیری مریدی کے رشتے کو پامال کیا۔ پیر اور مرید کا احترام رہنا چاہیے تھا۔ عمران خان کے فیصلے سے پاکپتن والے ناخوش ہیں۔ “

 میاں احمد رضا مانیکا پاکپتن کے حلقے این اے 145سے الیکشن لڑنے جا رہے ہیں۔ انہوں نے اس حلقے سے مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ کیلئے درخواست بھی دے رکھی ہے۔ اگرچہ اطلاعات گردش کر ر ہی ہیں کہ مسلم لیگ (ن) نے انہیں ٹکٹ جاری کر دیا ہے لیکن پاکپتن سے مقامی بااعتماد ذرائع کا اصرار ہے کہ ابھی تک مسلم لیگ (ن) نے ان کا ٹکٹ کنفرم نہیں کیا۔

واضح رہے کہ ضلع پاکپتن کو مسلم لیگ (ن) کا گڑھ خیال کیا جاتا ہے۔جنرل الیکشن 2013ءمیں مسلم لیگ ن نے پاکپتن سے کلین سویپ کیا تھا۔ پاکپتن کے حلقہ این اے 164 سے سردار منصب ڈوگر، این اے 165سے سید اطہر گیلانی اور این اے 166 سے رانا زاہد حسین کامیاب ہوئے تھے لیکن نئی حلقہ بندیوں کے تحت پاکپتن کا ایک قومی حلقہ ختم کردیا گیا ہے جس کے بعد پاکپتن میں انتخابی صورتحال خاصی دلچسپ ہوگئی ہے۔

مقامی ذرائع کے مطابق پاکپتن میں اب قومی اسمبلی کے دو حلقے این اے 145 اور این اے 146 ہیں۔ میاں احمد رضا مانیکا این اے 145 سے الیکشن لڑرہے ہیں۔ اس حلقے میں صورتحال یہ ہے کہ یہاں چار بڑے امیدوار ہیں جن میں سابق ایم این اے سردار منصب علی ڈوگر، میاں احمد رضا مانیکا، سابق ضلعی ناظم راﺅ نسیم ہاشم اور سابق ایم این اے پیر محمد شاہ گھگہ شامل ہیں۔ اخباری ذرائع کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ ن کی ٹکٹ کیلئے میاں احمد رضا مانیکا اور سردار منصب ڈوگر نے درخواستیں دے رکھی ہیں لیکن تاحال ان میں کسی کا ٹکٹ کنفرم نہیں ہوا۔ دوسری طرف راﺅ نسیم ہاشم اور پیر محمد شاہ گھگہ بھی تحریک انصاف کے ٹکٹ کے خواہشمند ہیں لیکن ان دونوں میں سے کسی کو بھی پی ٹی آئی نے ابھی تک ٹکٹ نہیں دیا۔ اب صورتحال یہ بن گئی ہے کہ اس حلقے میں ٹکٹ کیلئے سردار منصب علی ڈوگر زیادہ مضبوط امیدوار خیال کئے جاتے ہیں کیونکہ وہ 2008ءاور 2013ءمیں مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کا الیکشن جیت چکے ہیں جبکہ ان کے مدمقابل میاں احمد رضا مانیکا 2002ءمیں مسلم لیگ ق کے ٹکٹ پر رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے لیکن 2008ءاور 2013ءمیں انہیں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اخبار کا کہنا ہے کہ میاں احمد رضا مانیکا آنے والے الیکشن میں پاکپتن سے باآسانی پی ٹی آئی کے امیدوار کے طور پر قومی اسمبلی کی نشست جیت سکتے تھے۔
دوسری جانب بشریٰ بی بی اور عمران خان کی شادی کے باعث مقامی سطح پر مانیکا فیملی کی شہرت کو خاصا نقصان پہنچا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب مسلم لیگ ن کی مقامی تنظیم این اے 146 میں احمد رضا مانیکا کو ٹکٹ دئیے جانے کے حق میں نہیں ہے۔ اس معاملے کا ایک اور پہلو سید اطہر گیلانی بھی ہیں۔ سید اطہر گیلانی پاکپتن کے پرانے حلقے این اے 165 سے ایم این اے رہ چکے ہیں۔ یہ حلقہ تقسیم کرکے آدھا آدھا این اے 145 اور این اے 146 میں شامل کردیا گیا ہے۔ ان دونوں حلقوں میں سید اطہر گیلانی کا بے پناہ اثر و رسوخ ہے۔ خاص طور پر پاکپتن کی شمالی جانب دریائے ستلج کی دریائی بیلٹ میں ان کا خاصا ووٹ بینک ہے اور ان کا جھکاﺅ سردار منصب ڈوگر کی جانب ہے۔

اخباری ذرائع کا دعویٰ ہے کہ مسلم لیگ (ن) سید اطہر گیلانی کو کسی بھی صورت ناراض نہیں کرسکتی کیونکہ اس طرح دونوں حلقوں میں لیگی امیدواروں کیلئے مسائل کھڑے ہوسکتے ہیں بلکہ امکان ہے کہ مسلم لیگ ن کی طرف سے صوبائی حلقے پی پی 192 سے سید اطہر گیلانی کے قریبی عزیز سید عمران گیلانی کو ٹکٹ دیا جائے گا کیونکہ اس حلقے سے مسلم لیگ ن کے سابق ایم پی اے میاں نوید علی پر الزامات ہیں کہ انہوں نے ناصرف سینیٹ الیکشن میں اپنا ووٹ پی ٹی آئی کے چوہدری سرور کو فروخت کیا بلکہ ضلع کونسل پاکپتن کے الیکشن میں بھی پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدوار اسلم سکھیرا کو ووٹ دلوائے جس کی وجہ سے پاکپتن میں کلین سویپ کرنے والی مسلم لیگ ن صرف تین ووٹوں سے چیئرمین ضلع کونسل پاکپتن کا الیکشن ہارگئی۔ اس لئے میاں نوید علی کو ٹکٹ دئیے جانے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ اخباری ذرائع نے مزید دعویٰ کیا ہے کہ اگر میاں احمد رضا مانیکا کو مسلم لیگ ن کا ٹکٹ نہ بھی ملا، تب بھی وہ این اے 146 سے الیکشن ضرور لڑیں گے کیونکہ اگر وہ اس بار الیکشن سے آﺅٹ ہوئے تو پھر ضلع کی سیاست سے بھی آﺅٹ ہونے کا خدشہ ہے جبکہ اس حلقے میں ان کا ذاتی 30 سے 35 ہزار کا ووٹ بینک موجود ہے۔ اس لئے ان کی وجہ سے پی ٹی آئی کے امیدوار کو خاصا نقصان پہنچ سکتا ہے۔