جمہور پر مسلط جمہوریت
جمہوریت فقط ایک نظام نہیں رہا بلکہ اب تو ایسا لگتا ہے کے ہمارے دانشوروں نے اسے ہمارا مذہب بنا دیا ہے اور صبح شام جمہوریت کا کلمہ نا الاپنے والوں کو ملک دشمن اور ناسمھج قرار دے دیا جاتا ہے حتہ کہ ایک حد تو اس وقت ہوئی جب ملک میں اٹھنے والی صدارتی نظام کی بحث کو سنجیدگی سے لینے کی بجایے ہمارے دانشوروں نے اس بحث کو فوج کی راے قرار دیا حامد میر کو احمد شجا پاشا یاد آے لیکن شاہ فرمان نے جرگہ میں جس سنجیدگی سے اپنی راے کو پیش کیا وھ کسی بھی محب وطن پاکستانی کو سوچنے پر مجبور کر سکتی ہے جمہوریت آمریت سے 100 گنا اچھی ہے مگر جمہوریت موجدہ شکل میں پاکستانی سیاسی کلچر میں تمام سوالوں کا جواب بلکل بھی نہیں ہے winston چرچل کا مشہور جملہ تاریخ کا حصہ بن چکا "کوی یہ نہیں جتا رہا کے جمہوریت بلکل ٹھیک ہے بلکہ یہ کہا جا چکا ہے کہ جمہوریت دنیا کا بدترین نظام ہے ماسواے ان کے جو پہلے آزماے جا چکے ہیں " یعنی جمہوریت کے علاوہ کوے نظام موجود نہیں یہی جمہوریت کی سب سے بڑھی اچھای ہے اگر آپ اپنے قومی سیاسی کلچر کا مطالعہ کریں تو آپ دیکھیں گے کے کوی اعلی تعلیم یافتہ شهص الیکشن لڑنے کا سوچ بھی نہیں سکتا کیوں الیکشن ایک کاروبار بن چکا کیا آپ یہ سوچتے ہیں کے آپ کے قومی اسمبلی کے حلقے سے الیکشن کے لیے کھڑا ہونے والا آدمی اپنے الیکشن پر کروڑوں روپےاس لیے لگا رہا ہے آپ کے تمام مسائل حل کرنا چاہتا ہے تو آپ دنیا کے سب سے بیوقوف انسان ہیں وہ کروڑوں روپیہ اس کی انویسٹمنٹ ہے جو الیکشن جیتنے پر وہ اربوں میں وصول کرے گا الیکشن کا کاروبار پاکستان میں سب سے پرکشش کاروبار ہے کروں لگا کر آپ انتہائی آسانی سے اربوں کما سکتے ہیں عوام کے مسائل سے کسی کو کوئی غرض نہیں پیسے کے علاوہ جو چیز آپ کو الیکشن جیتنے کے لیے چائے وھ ہے پروپوگنڈہ کی جنگ لڑنے اور جیتنے کی صلاحیت ٹرمپ صرف اس لیے امریکا کا صدر بنا کے اس نے hilary clinton کو الفاظ کی جنگ میں مات دی روسی انٹیلی جنس نے hilary clinton کی ای میل id کو ہیک کیا اور hilary کی پرائیویٹ ای میل کو لیک کیا جس کی بینا پر ٹرمپ نے hilary کو خوب بدنام کیا اور الیکشن جیتنے میں کامیاب ہوے یہی کچھ نواز شریف کے عدالتی فیصلوں کے بارے میں کہا جا سکتا ہیں جہنوں نے عمران خان کی سیاسی حالت کو مضبوط کیا اور عمران پراپوگنڈہ کی جنگ جیت سکے الیکشن جیتنے کے لیے آپ کے پاس مسائل کا حل نہیں بلکہ آپ کو عوام کو بیوقوف بنانا آنا چاہیے عمران خان نے عوام کو سبز باغ تو بہت دیکھاے اگر آپ عمران خان کی الیکشن کمپین کا مطالعہ کریں تو آپ کو دیکھیں گے کہ ان کی تقریریں اس نقطۂ کے ارد گرد گومتی ہیں کہ عوام کو سبز باغ کس طرح دکھانے ہیں اپنے مخالفوں پر کیچڑ کس طرح اچھالنا ہے لوگوں کو بیوقوف کس طرح بنانا ہے اور ان کو اپنی طرف کس طرح مائل کرنا ہے مگر ملکی مسائل اور ملکی وسائل کے بارے میں عمران خان کو حکومت سنمبالنے کے بعد پتا چلا اسد عمر کے پاس جادو کی کوی چھڑی نا تھی جس کا وہ تمام الیکشن میں علان کرتے رہے یہ المیہ پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کا ہے اور اب صدارتی نظام اور پارلیمانی نظام کا موازنہ صدارتی نظام ہمارے دانشوروں میں اس لیے غیر مقبول ہے کہ آمروں نے اسے استعمال کیا یا پھر اس لیے غیر مقبول ہے کے عکسری اداروں کے کچھ حلقے یہ نظام ملک کے لیے موضوع سمجھتے ہیں صرف اس لیے صدارتی نظام کو برا کہنا کہ ایک محب وطن قومی ادارے کے نزدیک یہ نظام ملک کے لیے موضوع ہے ہمرے دانش وروں میں کتنے دانش ہے کو ظاہر کرتا ہے اور نا ہی شب خون مارنے والوں نے عوام کو صدارتی جمہوری نظام دیا بلکہ آمروں نے صرف صدارتی نظام دیا جمہوریت کا اس میں کوی عنصر نہیں تھا آے اب کہ صدارتی نظام کس طرح موضوع ہے عمران خان ہی کی مثال لے لیتے ہیں عمران خان کو وزیر اعظم بننے کے لیے 137 ایسے افراد کی ضرورت ہے جو الیکشن لڑ سکیں اور جیت سکیں ان 137 لوگوں نے الیکشن پر کروڑوں روپے خرچ کرنے ہیں لہٰذا الیکشن جیتنے کے بد آپ انیں اربوں کمانے سے نہیں روک سکتے کیوں کہ عمران خان کی کرسی اب عوام کی بجاے ان ارکان پارلیمنٹ کی مرہون منت ہے عمران خان 2011 کے جلسے سے پہلےجب کہ electibles ان کی پارٹی میں نہیں آے تھے یہ دعوا کرتے تھے کہ وہ electibles کے دم پر نہیں بلکہ عام آدمی کے دم پر وزیر اعظم بنیں گے لیکن جب 2011 کے جلسے کے بعد جب انیں electibles نصیب ہوے تو انیں نے اسے اپنی سیاسی مجبوری جانا اور انیں ہسی خوشی خوش آمدید کہا پھر وہ یہ دعوا کرتے تھے کے ارکان پارلیمنٹ کے پاس ترقیاتی بجٹ نہیں ہونا چاہے لیکن وزیر اعظم بن کر انیں اپنی کمزوری کا احساس ہوا اور انیں اس دعوے سے بھی پھرنا پڑا ملک میں آج کوی بھی شخص گراس روٹ لیول سے اٹھ کر وزیر اعظم نہیں بن سکتا اس کے لیے اسے electibles کی فوج تیار کرنی ہوگی آج اصل طاقت نا عوام کے پاس نا وزیر اعظم کے پاس بلکے یہ electibles سفید اور سیاه کے مالک بنے بیٹھے ہیں ضرورت ہے کے یہ طاقت electibles سے لے کر عوام کو منتقل کی جائے صدر کے ڈائریکٹ انتحاب سے طاقت کا منمبا عوام ہوں گے اور پیشہ ور سیاست دانوں کی بجایے پڑھے لکھے افراد بھی خود کو عوام کے سامنے انتحاب کے لیے پیش کر سکیں گیں ملکی جمہوریت کو لگے دوسرے کیڑا الیکشن میں پیسے کا بیدریگ استعمال ہے الیکشن میں پیسے کے استعال پر مکمل پابندی ہونی چاہیے الیکشن campaign مکمل طور پر سوشل میڈیا اور tv کے ذریے کی جائے جلوسوں اور بینرز پر مکمل پابندی عائد کر کے الیکشن میں پیسے کا اثر و رسوخ مکمل طور پر ختم کر دینا چاہیے کیوں کہ امریکی الیکشن میں پیسے کا استعمال کر کے ہی gun lobbies اور jewish lobbies اپنا اثر و رسوخ بڑھاتی ہیں یہ کیڑا امریکا جیسی مضبوط جمہوریت کے ساتھ بھی لگا ہے لہٰذا ہر مسلے کے حل کے لیے ہمیں مغرب کی طرف دیکھنے کی بجایے اب خود مثال بنانا ھو گا اور مغرب کی پیروی کی بجایے اب اس کی رہنمای کرنے ھو گی.
.
نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ۔
.
اگرآپ بھی ڈیلی پاکستان کیساتھ بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس ’dailypak1k@gmail.com‘ پر بھیج دیں۔