کورونا، طبی ماہرین کی رائے ہی حتمی؟
کورونا اور لاک ڈاؤن مسئلہ بن گیا۔ ہمارے ملک میں اگر اس کے حوالے سے رویے عجیب ہیں تو یہ تعجب کی بات نہیں کہ جن کو مہذب ملک کہا جاتا ہے، وہاں بھی احتجاج کے نام پر کسی احتیاط کی پرواہ نہیں کی جا رہی، جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو یہاں اگر کورونا کی وجہ سے اموات اور متاثرین کی تعداد میں اضافے اور مختلف نوعیت کے لاک ڈاؤن پر اتفاق نہیں ہو پا رہا تو تعجب کی ضرورت نہیں۔ یہ بھی ہمارے مزاج ہی کا حصہ ہے، آج ہی ماہرین طب (قریباً ڈیڑھ سو ڈاکٹر حضرات) کا ایک تعجب آموز بیان نظر سے گزرا، اگرچہ انہوں نے کورونا کے مریضوں کے لئے تسلی آمیز الفاظ استعمال کئے، لیکن ان کی ادویات کے حوالے سے وضاحت تشویش ناک ہے۔ انہوں نے ان تمام ادویات کا خصوصی طور پر ذکر کیا جن کے بارے میں کہا جا رہاہے کہ یہ ادویات علاج کے لئے مفید ہیں۔ ان ماہرین کے مطابق یہ تمام ادویات ابھی تجرباتی درجے پر ہیں اور تجربات کے نتائج پر ہی ان ادویات کا مستقل علاج کے لئے استعمال عملی شکل اختیار کرے گا جبکہ پلازما تھراپی کو بھی تجربے ہی میں شامل کیا گیا ہے، اسی طرح ان ماہرین نے دیسی دوا ثناء مکی کا ذکر کیا اور کہا کہ ثناء مکی کے نقصانات زیادہ ہیں، ان حضرات نے بھی احتیاط ہی کا ذکر کیا اور کہا کہ نوے فیصد سے بھی زیادہ لوگ صرف احتیاط اور خوراک کے مناسب استعمال سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔ اس میں سماجی فاصلہ، ماسک کا استعمال اور صابن سے ہاتھ دھونا لازم ہے، جبکہ بلا ضرورت گھر سے نہیں نکلنا چاہیے اور اہم ضرورت ہو تو احتیاط لازم ہے۔ ان ماہرین نے قوت مدافعت کے گھریلو ٹوٹکوں کی حمایت کر دی کہ لوگ لہسن، ہلدی، لونگ، کالی مرچ وغیرہ اپنے معمول کے مطابق استعمال کریں۔ سبزیوں پر انحصار اور گوشت کم کھائیں۔
یہ تو وہ بات ہے جو خبر کے ذریعے ہم تک پہنچی اور ہم نے اسے دہرا دیا لیکن حقیقت بھی یہی ہے، ہمارا کلچر تو یہ ہے کہ ہم اگر دل کے بائی پاس والے مریض کی عیادت کے لئے جائیں تو خیریت دریافت کرکے نہیں لوٹتے، پہلے تو مریض کو بولنے پر مجبور کرتے ہیں کہ وہ خود پر بیتی سنائے اور پھر ہم دو تین ایسی خوفناک کہانیاں سنا دیتے ہیں جن کے مطابق دل کے مریض بائی پاس کی کامیابی کے بعد بھی اللہ کو پیارے ہو گئے، اسی طرح جب عام امراض میں عیادت کریں تو نو دس علاج تو بتا ہی دیتے ہیں جیسے ہم خود ڈاکٹر ہوں، ایسا ہی آج کل بھی ہو رہا ہے، اور اب تو کسی کی عیادت کی ضرورت بھی نہیں۔ سوشل میڈیا کس مرض کی دوا ہے، روز ہی پوسٹ لگتی اور ویڈیو وائرل ہوتی ہیں اور یہ ثناء مکی بھی اسی میڈیا کی دریافت ہے کہ یہ اب کم از کم پانچ سو گنا مہنگی بھی ہو گئی ہے، اگرچہ معروف اطباء کا کہنا ہے کہ ثناء مکی دائمی قبض کے لئے اکسیر ہے تاہم اس کا استعمال مرض کی علامات کے مطابق خوراک کے تعین پر ہے۔ اس کا غلط استعمال مریض کو شدید قسم کا ”ڈائریا“ بھی کر دیتا ہے جو جان لیوا بن سکتا ہے۔ اس لئے ثناء مکی کسی مستند طبیب سے مشورے کے بغیر کھانا نہیں چاہیے۔ ایسی ہی بات کچھ دوسری ادویات کے حوالے سے بھی ہے۔ کلونجی، ہلدی، لہسن اور پیاز کے علاوہ فروٹ کا استعمال بھی ہر انسان کے لئے یکساں نہیں۔ اس کے لئے بھی مزاج، ماحول، موسم اور مقدار کا تعین لازم اور یہ بھی مشورے سے ہی ہونا چاہیے اور یہی طبی ماہرین کی رائے ہے۔ جسے ہم کو تسلیم کر لینا چاہیے اور احتیاط کو لازم قرار دے کر عمل کرنا چاہیے۔
اب تو ملک میں ایک نیا تنازعہ یا مسئلہ پیدا ہو چکا اور وہ لاک ڈاؤن ہے، اس حوالے سے طبی ماہرین اور وفاقی حکومت کے درمیان اختلاف رائے اول روز سے چلا آ رہا ہے۔ وزیراعظم برملا کہتے ہیں کہ وہ لاک ڈاؤن کے حق میں نہیں تھے اور نہ ہیں۔ ان کا موقف ہے کہ اس سے دیہاڑی دار طبقہ متاثر ہوتا ہے۔ ان کی بات اپنی جگہ لیکن حالت یہ ہے کہ لاک ڈاؤن میں نرمی نے حالات کو خراب کیا اور اب یہ جو نیم دروں نیم بروں والی حالت ہے، اس نے پورے ملک کو اضطراب میں مبتلا کر دیا ہے۔ ہم لاہور ہی کی مثال دیتے ہیں کہ یہاں جو سلیکٹڈ لاک ڈاؤن ہے وہ نہ تو لاک ہے اور نہ ہی ڈاؤن ہے یہ تو کچھ اور ہی ہے کہ لوگ چلتے پھرتے بھی ہیں، ٹریفک بھی ہے۔ بعض علاقوں کے بازار بھی کھلے ہیں، لیکن کاروبار نہیں ہے، کھانے پینے کی اشیاء کی خریداری لازم ہے، لیکن باقی نہ تو کاروبار چل رہے اور نہ ہی دیہاڑی داروں کو مزدوری مل رہی ہے، بہتریہی تھا کہ ہم ابتداء ہی سے یہ مشکل برداشت کرتے اور سخت ترین لاک ڈاؤن سے ابتداء کرتے جو دو سے چار ہفتوں تک کا ہوتا اور کنفیوژن سے پاک رہتا،
اس سے وباء پر کنٹرول ہو جاتا اور پھر بتدریج سہولت دی جاتی تو اب حالات مختلف ہوتے،لیکن کپتان اپنی انا اور ضد کے پکے ہیں، وہ اب تک بھی اپنے اول روز والے موقف پر قائم ہیں اور اب تو انہوں نے سندھ کے وزیراعلیٰ مراد علی شاہ کو براہ راست مورد الزام ٹھہرا دیا کہ سندھ نے لاک ڈاؤن کیا تو ہم کو بھی کرنا پڑا، اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ محترم ابتدا ہی سے لاک ڈاؤن کے مخالف تھے اگر ایسا ہی تھا تو کر گزرتے، اتنا تردد اور کمیٹیاں بنانے، تشکیل کی کیا ضرورت تھی جو ہونا ہوتا ہو جاتا او اب جو اموات بڑھی ہیں تو پہلے ہی ایسا ہوتا، لوگ اپنی اپنی ”قربانی“ پیش کرتے چلے جاتے اور آبادی میں کمی ہوتی رہتی کہ اب جو یہ ہو رہا ہے اور ہر روز اموات کی خبر ملتی رہتی ہے۔ اب تو لوگوں کے اردگرد لوگ مر رہے ہیں اور وہ جنازے میں بھی شرکت نہیں کر پاتے، ہم خود اپنے ڈھیر سے پیاروں کو آخری الوداع کہنے کے لئے ان کی نماز جنازہ میں شرکت سے محروم رہے اور گھر پر ہی دعائے مغفرت سے گزارہ کیا، بہرحال ماہرین طب جو کہیں وہی سند ہے اور ہونا چاہیے۔
وزیراعظم نے سندھ کا دو روزہ دورہ کیا اور یہ بھی اختلاف ہی کا باعث بنا۔وزیراعظم کے بعض ارشادات نے جواب دعویٰ والی کیفیت پیدا کی، دوسری طرف اختر مینگل اور شاہ زین بگٹی کے بیانات سامنے آئے اور وزیراعظم نے حسب روایت پرویز خٹک کو کردار سونپا، عوام حیران ہیں اور سوشل میڈیا پر اظہار بھی کرتے ہیں، بلکہ اب تو عمران خان کو ان کی ٹیم ”مرد بحران“ ثابت کر رہی ہے کہ وہ خود اعتمادی اور کسی اعداد و شمار کو خاطر میں لائے بغیر حکمرانی کرتے چلے جا رہے ہیں۔ ”بدخواہ“ کئی قسم کی درفنطنیاں چھوڑ رہے ہیں، لیکن ان کا کوئی اثر نہیں، اس کے لئے ہماری گزارش ہے کہ وہ سب پنجاب کے گورنر چودھری محمد سرور کی اطلاع پر غور کر لیں کہ ایک بڑے تجربہ کار کی رائے ہے، وہ کہتے ہیں عمران خان کہیں نہیں جا رہے، وہ 2023ء تک وزیراعظم رہیں گے، تو جناب غور فرما لیں، زیادہ باتیں نہ بنائیں، بات ایک صفحہ کی ہے، اس لئے کوئی فکر ہی نہیں جس کا جو دل چاہے سوچے اور کر لے۔