سیاسی نظاموں کی بحث
صدیوں پہلے تہذیب کے دائرے میں آنے کے ساتھ ہی ریا ست سازی، حکومتی نظام اور کردار کے با رے میں غور وفکر کر نا سوچنے سمجھنے والے انسانوں کا وطیرہ رہا ہے۔نہ صرف مغرب بلکہ مشرق میں بھی حکومت کے کردار اور حکو متی نظام کے حوالے سے قدیم زمانوں سے ہی سوچ و بچا ر کا سلسلہ جا ری ہے۔چوتھی صدی قبل مسیح میں بادشاہ، حکومت اور ریا ست کے کردار کے حوالے سے قدیم ہند کے مفکر کوٹلہ چانکیہ کی جا نب سے لکھے گئے ضوابط آج”ارتھ شا ستر“ کی صورت میں ہما رے سامنے موجود ہیں۔جبکہ چو تھی قبل مسیح میں ہی قدیم یونانی مفکرین افلاطون کی کتاب ”جمہو ریہ ا ور ارسطو کی’سیا ست“ آج بھی دنیا بھر میں سیا ست کے طا لب علموں کیلئے اہم کتابیں مانی جاتی ہیں۔ اگرچہ دیگر کئی نظر یات کی طرح ریا ست یا حکومتوں کے حوالے سے بھی اکثر نظریا ت ایسے بھی پیش کئے جا تے ہیں کہ جن کا مقصد حکمران طبقات کی سیا سی ضرو ریا ت کو پورا کرنا ہو تا ہے۔ جیسے قدیم ہند میں کوٹلہ چا نکیہ اور قرون وسطی ٰکے روم میں میکا ولی کی جا نب سے جو سیا سی نظر یا ت پیش کئے گئے ان کا حقیقی مقصد ان ادوار کے حکمرانوں کی سیا سی ضرو ریا ت کو ہی پو را کرنا تھا۔تا ہم اس حقیقت کے با وجود یہ با ت اپنی جگہ مسلمہ صدا قت ہے کہ سوچنے سمجھنے والے دما غ صدیوں سے ریا ست اور حکومتی نظاموں کے با رے میں سوچ و بچا ر کر رہے ہیں۔ریاست اور حکومت سازی کے حوالے سے بہتر سے بہترین تک پہنچنے کی کوشش ابھی تک جا ری و ساری ہے۔
آج جب ہم پا کستان میں مختلف سیا سی جماعتوں کی جا نب سے ”نیا پاکستان“”بہتر پاکستان“یا ”نظام کی تبدیلی“ کی باز گشت سنتے رہتے ہیں تو یہ حقیقت ہما رے سامنے رہنی چاہیے کہ مو ثر اور کرپشن سے پاک حکومت، گڈ گورننس اور استعداکار پر مبنی حکومت جیسے نعرے صرف پا کستانی ہی نہیں بلکہ ایک عالمی مظہر ہیں۔ہما رے پڑوس میں دنیا کی سب سے بڑی جمہو ریت کہلوانے والے ملک بھا رت میں بھی ایسے ہی نعروں کے دم پر سیاست ہو تی ہے۔خود موجودہ بھارتی وزیر اعظم مودی نے گڈ گو رننس اور استعداد کا ر پر مبنی حکومت کا نعرہ لگا کر دو مرتبہ انتخابات جیتے۔مغر ب، کہ جہاں کے سیا سی، معاشی، سماجی، تہذیبی اور عمرانی نظر یا ت کو گز شتہ کئی صدیوں سے پو ری دنیا میں پذ یرا ئی اور قبولیت حا صل ہو رہی ہے وہا ں پر بھی ابھی تک فکری حوالے سے ریا ست اور حکومت کے کردار کو مز ید بہتر بنا نے کے حوالے سے نظریا ت سامنے آتے رہتے ہیں۔ 18 ویں اور 19ویں صدی میں جب یورپ کے کئی مما لک ایشیا اور افر یقی مما لک پر قابض ہو ئے تو دیگر کئی یو رپی نظریات کی طرح جمہو ریت یا مغر بی جمہو ریت کا نظریہ بھی ان ممالک میں متعا رف ہوا۔1991میں سوویت یو نین کے انہدام کے بعد تو مغربی جمہوریت کو ایک مقدس نظر یے کے طور پر پیش کیا جانے لگا۔
فا کو یاما کے تا ریخ کے خاتمے کے نظریہ نے تو مغربی یا لبرل جمہوریت کو انسانیت کی معراج قرار دے ڈالا۔(فا کو یاما اب اپنے تا ریخ کے خاتمے کے نظر یے سے خود دستبر دارہوچکا ہے)۔تاہم چو نکہ تبدیلی یا ثبا ت ہی اس دنیا کی کئی مسلمہ صداقتوں میں سے ایک صداقت ہے اسلئے کسی ایک ہی مخصوص نظر یے کو حتمی قرار دے دینا جدلیا تی اصولوں کی خلاف ورزی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب خود مغر ب سے بھی ایسی آوازیں آرہی ہیں کہ صرف لبر ل جمہو ریت ہی حتمی سچا ئی نہیں۔ فراٖٖغت کے ان دنوں میں برطانوی جر یدے دی اکانومسٹ کے دو انتہا ئی معروف صحافیوں جان میکلیتھ ویٹ اور ایڈریان ولڈریج کی ایک کتاب”The Fourth Revolution“ کے مطالعے کا موقع ملا کہ جس میں ثا بت کیا گیا ہے کہ موجودہ دور میں مغربی ریا ستیں استعداد کا ر پر مبنی گورننس فراہم کر نے میں نا کام ہو تی جا رہی ہیں۔بجٹ خساروں، اور جمہوریت کے نا م پر اپنے حامیوں کوریا ستی ذرائع سے نوازنے جیسے عوامل مغر بی ریا ستوں کی اہلیت کو بری طرح سے متا ثر کرنا شروع ہو گئے ہیں۔اس کتا ب میں اس تا ثر کی مکمل طور پر نفی کر دی گئی ہے کہ ا ب مستقبل قریب میں بھی مغربی سیا سی نظر یا ت ہی ریا ستوں اور حکومتوں کی تشکیل میں اپنا کردار ادا کر یں گے، کیونکہ اب خود مشرق میں بھی ایسے سیاسی ما ڈلز ابھر رہے ہیں کہ جو نہ صرف مغر بی جمہو ریت سے مختلف ہیں بلکہ ان ایشیا ئی ما ڈلز کی استعدادکا ر پر مبنی حکو متی نظاموں سے مغر ب کو بھی بہت کچھ سیکھنا پڑے گا۔
”The Fourth Revolution“کتاب کے مطا بق اب مشرق نہ صرف معا شی اعتبا ر سے بلکہ ریا ست سازی کے اعتبا ر سے بھی آگے بڑ ھ رہا ہے۔خاص طور پر ئچین میں جس طرح لیڈر شپ اور سول بیو ر کر یسی کو تربیت فراہم کی جا تی ہے اس کی کو ئی مثال اس وقت مغرب کے کسی بڑے ملک میں موجود نہیں۔استعداد کار پر مبنی حکومت کے حوالے سے ایشیا وہ سب کچھ تیزی سے حا صل کر رہا ہے کہ جس کو حا صل کر نے میں مٖغرب کو کئی صدیا ں لگی ہیں۔کتاب کے مصنفین کے مطا بق چین کی حیران کن ترقی کی بڑی وجو ہا ت میں ریا ستی ہدا یا ت کے مطا بق کی جانے ولی سرما یہ کاری اور انفراسٹرکچر کی ترقی ہے۔ گورننس پربھر پور توجہ دینے کے با عث ہی آج ایشیا ئی ماڈل(چین) میں حکومت سنجیدہ اور منظم نظر آتی ہے جبکہ دوسری طرف مغربی حکومتوں میں نظم و ضبط کا پہلو آہستہ آہستہ مفقود ہو تا جا رہا ہے(کرونا وائرس کے بعد تو یہ بات واضح ہو چکی ہے)۔چین کا ابھار اور اس کی سما جی ترقی ہی وہ بڑے عوامل ہیں کہ جو ایشیا ئی ما ڈل میں کشش پیدا کر رہے ہیں۔کتا ب میں چین کا بھارت کے ساتھ تقابلی جا ئزہ بھی لیا گیا ہے۔ ان دونوں بڑے ایشیا ئی ممالک میں دو الگ الگ سیا سی ما ڈلز اپنا ئے گئے مگر آج بھا رت، چین کے مقابلے میں،معیشت، انفرا سٹرکچر اور سما جی ترقی کے دیگر پہلوؤں میں بہت پیچھے ہے۔
بلکہ چین کی ریاستی استعداد کار کا بھا رتی ریا ست کی استعداد کارسے کو ئی مقا بلہ ہی نہیں۔تجز یے کے مطا بق یورپ اور امریکہ میں انتخابا ت جیتنے کیلئے ووٹرز سے ایسے ایسے وعدے کئے جا تے ہیں کہ جن کا پورا ہونا کسی بھی صورت ممکن نہیں ہو تا۔جبکہ سیا سی جما عتیں اقتدار حا صل کر نے کے بعد طویل المدتی بنیا دوں پر منصوبہ بندی کر نے کی بجا ئے اگلے انتخابا ت جیتنے کیلئے محض سطحی نوعیت کے ہی اقدا ما ت کر تی ہیں۔ جبکہ چین میں لیڈر شپ کو با قا عدہ تربیت دینے کے بعد حکو مت کرنے کا ایسا طویل عرصہ دیا جا تا ہے کہ جس میں سیا سی عدم استحکا م کی گنجا ئش انتہا ئی کم ہو تی ہے۔ یو ں چین کی لیڈر شپ معاشی اور سما جی ترقی کے اہداف حاصل کر نے پر ہی اپنی توجہ مرکوز رکھتی ہے۔جبکہ حکومتی ذمہ داری کا تعین واضح طور پر نہ ہونا،خا ص طبقا ت کو ہی نوازنا،اور سیاسی عدم استحکام ایسے عوامل ہیں کہ جو مستقبل میں بھی مغربی ریا ستوں کی استعدادکا ر کیلئے مسئلہ بن سکتے ہیں۔اس کتاب میں مغر ب میں ریا ست سازی کی جدید تا ریخ کو ساڑھے تین ادوار میں تقسیم کیا گیا ہے۔
سب سے پہلے مر حلے یا انقلاب میں مغربی سیا سی مفکر ہا بس کے نظر یے سے متا ثر ہو کر جدید قومی ریاست کو تشکیل دیا گیا، جس میں ریا ست کا مقصد تحفظ فراہم کرنا تھا۔ دوسر ے انقلا بی مر حلے میں ایک لبرل ریا ست کو قائم کیا گیا۔جبکہ تیسرے میں ریا ست کو ایک فلا حی ریا ست قرار دیا گیا جبکہ سابق بر طا نوی وزیر اعظم مار گریٹ تھیچر اور سابق امر یکی صدر ریگن کے نظریات کہ ریا ست کا کردار معا شی اعتبا ر سے کم کیا جا ئے اس کو آدھے انقلا ب کا نا م دیا گیا ہے۔جبکہ چوتھا انقلا ب وہ ہے کہ جو ایشیا میں برپا ہو چکا ہے۔کتا ب کے تبصرے سے قطع نظر ہم جا نتے ہیں کہ اس وقت عملی اعتبا ر سے کو ئی بھی ایسا سیا سی نظام موجود نہیں کہ جو سراسر کامل ہو۔جس کا کوئی منفی پہلو نہ ہو۔ اس کتاب The Fourth Revolutionمیں جس ایشیا ئی یا چینی نظام کو ایک ما ڈل کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ یقینا اس چینی سیا سی ما ڈل کو بھی ہم کامل قرار نہیں دے سکتے۔یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ گزشتہ دو یا تین عشروں میں چین نے جہا ں ایک طرف بھرپور معاشی ترقی کی تو دوسری طرف وہاں پر دولت کی انتہا ئی عدم مساوات پر مبنی تقسیم میں بھی شدت آتی گئی۔
بڑھتی ہو ئی کرپشن آج خود چین کی سیا سی قیا دت کیلئے ایک درد سر بن چکی ہے۔خود کمیو نسٹ پا رٹی کے کئی اعلی عہدے داروں پر کر پشن کے الزامات لگ چکے ہیں۔یہ چند مثا لیں ثا بت کر تی ہیں کہ ابھی تک انسان عملی طور پر کو ئی ایسا نظام نہیں بنا پا یا کہ جو کامل ہو۔ نظری اور فکری اعتبا ر سے ایسے نظام ضرور موجود ہیں۔مگر The Fourth Revolutionکو دیکھ کر یہ اندازہ ضرور ہو جا تا ہے کہ گز شتہ کئی صدیوں سے مغرب ہی دنیا کو سیا سی نظریا ت فرا ہم کر رہا تھا مگر اب دنیاکو سیا سی نظریا ت عطا کر نے میں اس کی اجا رہ داری کم ہو تی جا رہی ہے۔کیونکہ اب خود مغرب کے فکری گلی کو چوں سے ایشیا ئی ماڈل کی صدا ئیں بلند ہو رہی ہیں۔