مصری بزنس مین کے تعاون سے تین پاکستا نی وطن واپس آگئے
لاہور (پ ر)2018 میں پاکستانی سیلرز کا ایک گروپ سی ہارس II (Sea Horse II)نامی بحری جہاز میں دبئی روانہ ہوا تھا، لیکن بدقسمتی سے تین سیلرز کو وہ ایک موڑ میں چھوڑ گیا تھااور یوں وہ مصر کی ساحل پٹی پر پھنس گئے چند دنوں بعد مصری حکا م نے کا روائی کرتے ہوئے ان تین پاکستانیوں کو جیل کی سالاخوں کے پیچھے بھیج دیا گیا تھامصری ارب پتی شخص نجیب سوریس نے تین سیلرزکی شدید ضرورت کے وقت ان کی مدد کی۔ اس جہاز پر مصری حکام کے پاس ایک بڑی رقم کا واجب الادا تھی اور جب تک اس رقم کی ادائیگی نہیں ہوجاتی،سیلرز جہاز سے باہر نہیں جاسکتے تھے۔ اس مسئلے کو حل کرنے کے لئے، جہاز کے عملے نے کیپٹن رحمان فاضل (ماسٹر نیوی سیلر)، چیف انجینئر مشتاق احمد، اور چیف آفیسر صابر حسین کی نگرانی میں مصر میں پاکستانی سفارتخانے اور بندرگاہ کے حکام سے مدد کے لئے رابطہ کیا، تاہم معاملہ برقرار رہا۔ مصری بندرگاہ کے حکام کو واجبات کی ادائیگی میں ناکامی کے الزام میں انہیں جیل بھیج دیا گیا۔ ایک سال گزر گیا وائرس کے آتے ساتھ ہی تمام سرگرمیاں رک گئیں۔ اس سب کے بیچ میں، سی ہارس II بحر احمر کے ساحل میں ویران کھڑا تھا۔سیلر ز مصر میں 24 مہینے جیل میں مشکل آزمائش سے دوچار ہوئے، بے بسی اور ناامیدی کے احساس میں مبتلا سیلرزاس دن کا انتظار کرتے تھے جب وہ اپنے پیاروں سے دوبارہ مل سکیں۔لیکن کہتے ہیں کہ معجزے ہوتے ہیں یوں خاص طور پر، مصری ارب پتی تاجراور”اورس کام ٹیلی کام ہولڈنگ“ کے چیئرمین اور سی ای او ر نجیب سوریس نے پھنسے ہوئے پاکستانی سیلرز کی مدد میں حاضر ہوا۔نجیب سوریس کی پاکستان کے ساتھ طویل وابستگی اور محبت ہے۔ اورس ٹیلی کام پہلے موبی لنک کا بانی تھا اور وہ مصر کی سب سے بڑی کمپنی میں سے ایک ہے۔
ان کی مخیر طبعیت اور پاکستان سے ان کی مضبوط وابستگی سے آگاہ، ایک مقامی صحافی محترمہ نورین حیدر، جنھوں نے کئی ماہ سے اس مقدمے کی بحالی کے لئے قابل ستائش کوشش کی اور نجیب سوریس سے رابطہ کیا اور ان کی توجہ سی ہارس II کی جانب دلائی۔ اس کیس کی تفصیلات سن کرانہوں نے فورا مدد کرنے کا وعدہ کیا اور یوں نجیب سوریس سیلرز کے لئے امید کی واحد کرن ثابت ہوئے۔سرکاری حکام کے ساتھ سلسلہ وار بات چیت اور فیس کی ادائیگی کے بعد، سیلرز کو 19 مئی 2020 کو بتایا گیا کہ ان کا معاملہ طے پا گیا ہے، انہیں ان کے سفری دستاویزات سونپ دیئے جائیں گے اور وہ آزادہیں۔نجیب سوریس کی مہربانی یہاں ختم نہیں ہوئی۔ وہ دل کھول کر اپنا وقت، رقم اور وسائل عطیہ کرنے کے لئے جانے جاتے ہیں،انہوں نے جو وعدہ کیا تھا اس سے کہیں زیادہ آگے بڑھ کر کیا۔ انہوں نے چارٹرڈ طیارے کا اہتمام کیا ان تینوں افراد کو ساتھ مصر میں پھنسے دیگر پچاس پاکستانیوں کو بھی عید سے محض دو دن قبل پاکستان روانہ کیا۔نجیب سوریس اورا ڈویلپرز کے سی ای او بھی ہیں، انہوں نے نیو اسلام آباد انٹرنیشنل ایئرپورٹ سے 10 منٹ پر واقع ایک پرتعیش ہاؤسنگ پراجیکٹ” ایٹین“ بھی شر وع کر رکھا ہے۔ اس سے قبل، وہ تعلیم اور صحت کی دیکھ بھال اور پناہ گزینوں کی حمایت کرچکے ہیں۔ کچھ سال پہلے،نجیب سوریس نے شامی مہاجرین کے لئے ایک پورا جزیرہ خریدنے کی پیش کش کرکے بین الاقوامی شہرت حاصل کی تھی۔ ایک نیک عمل کبھی ضائع نہیں ہوتا ہے۔ لیکن جب دولت اور اثر و رسوخ کو کسی اچھے عمل کی طرف بڑھایا جاتا ہے تو، یہ سب زیادہ قابل ذکر ہے۔ ایک مصری ارب پتی کی طرف سے اپنے پاکستانی بھائیوں کے ساتھ انسانیت کا اظہار اس وقت خوشی سے کم نہیں جب دنیا صحت کے بحران سے نمٹ رہی ہے۔نجیب سوریس کی حمایت پاکستان اور اس کے عوام سے اس کی بے مثال محبت کا ثبوت ہے اس کے ساتھ ہی قومی حدود یا نسل سے قطع نظر، ضرورت مندوں کی مدد کے لئے اقتدار اور دولت کے عہدوں پر فائزلوگوں کے لئے ایک مثال ہے۔