پاکستان کی معدنی دولت ضائع ہو رہی ہے، کام میں لایا جائے،میاں زاہد

      پاکستان کی معدنی دولت ضائع ہو رہی ہے، کام میں لایا جائے،میاں زاہد

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


کراچی (سٹاف رپورٹر) پاکستان بزنس مین اینڈ انٹلیکچولز فور م وآل کراچی انڈسٹریل الائنس کے صدر، ایف پی سی سی آئی میں بزنس مین پینل کے سینئر وائس چیئرمین اور سابق صوبائی وزیر میاں زاہد حسین نے کہا ہے پاکستان کی معدنی دولت ضائع ہو رہی ہے جسے استعمال میں لانے کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں المونیم، کرومائیٹ، کوئلہ، تانبا، سونااور پیتل سمیت درجنوں قسم کی دھاتی اور غیر دھاتی معدنیات موجود ہیں جن سے فائدہ اٹھایا جائے۔تین صوبے لوہے کی دولت سے مالا مال ہیں مگر ہم تین ارب ڈالر سے زیادہ کا لوہا قانونی زرائع سے درآمد کر رہے ہیں جبکہ ایران اور افغانستان سے بھی بھاری مالیت کا لوہا اور سٹیل سمگل بھی کیا جاتا ہے۔ میاں زاہد حسین نے بزنس کمیونٹی سے گفتگو میں کہا کہ ملک میں قدیمی طور طریقوں سے معدنیات نکلالی جا رہی ہیں جس سے انکا بڑا حصہ ضائع ہو جاتا ہے جبکہ ویلیو ایڈیشن کی طرف رجحان بہت کم ہے۔ بلوچستان میں کئی دہائیوں سے خام لوہا اور دیگر معدنیات نکال کر برآمد کر دی جاتی ہیں اور دیگر ممالک اسے بہتر بنا کر کئی گنا زیادہ قیمت پر فروخت کر دیتے ہیں۔ صوبہ خیبر پختون خواہ اور سابقہ فاٹا بھی معدنیات کی جنت ہیں جنھیں استعمال میں نہیں لایا جا رہا ہے۔ سندھ کے ضلع ٹھٹھ میں پیلا ماربل نکل رہا ہے جسے خام صورت میں ایک پڑوسی ملک کو برآمد کر دیا جاتا ہے جبکہ اگر ملک میں اسکی ویلیو ایڈیشن کی جائے تو زیادہ منافع کمایا جا سکتا ہے۔انھوں نے کہا کہ حال ہی میں سندھ میں ایک کمپنی نے پاکستان سٹیل ملز سے چار سو کلو میٹر کے فاصلے پراعلیٰ کوالٹی کے لوہے کے ذخائر دریافت کئے ہیں جنھیں مقامی طور پر استعمال کرنے کے علاوہ برآمد بھی کیا جا سکتا ہے۔ چین سالانہ ایک ارب ٹن سے زیادہ کا لوہا درآمد کر رہا ہے جسے یہ لوہا فروخت کیا جا سکتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ افسوس کا مقام ہے کہ جب سٹیل ملز چل بھی رہی تھی تو اسکی پیداوار میں مقامی لوہے کا حصہ کبھی دو یا تین فیصد سے آگے نہیں بڑھا۔انھوں نے کہا کہ پاکستان سٹیل ملزکئی سال سے بند پڑی ہے۔اگرحکومتی منصوبہ کے مطابق اسے فروخت کر دیا جائے اور خریدار اسے چلانا شروع کر دے توبھی اس کی پیداواری صلاحیت تقریباً ایک ملین ٹن ہے جبکہ ملکی ضروریات آٹھ ملین ٹن ہے۔یعنی ملک میں اس حجم میں آٹھ سٹیل ملیں لگائی جا سکتی ہیں جس سے لاکھوں افراد کو روزگار ملے گا جبکہ ملک کے خود کفیل ہونے سے درآمدات پر ضائع ہونے والا زرمبادلہ بھی بچ جائے گا۔انھوں نے کہا کہ آسٹریلیا بھی کبھی ایک غریب ملک تھا مگر معدنیات کے شعبہ کو توجہ دے کر ترقی یافتہ ملک بن گیا اور ہم بھی چاہیں تو ایسا کر سکتے ہیں۔

مزید :

صفحہ آخر -