ساڑھے 9 کروڑ آبادی والے ویتنام نے کورونا وائرس پر کس طرح قابو پایا کہ ابھی تک ایک بھی موت نہیں ہوئی؟ جان کر وسائل کی کمی اور زیادہ آبادی کا رونا رونے والے ہمارے حکمران شرم سے پانی پانی ہوجائیں

ساڑھے 9 کروڑ آبادی والے ویتنام نے کورونا وائرس پر کس طرح قابو پایا کہ ابھی تک ...
ساڑھے 9 کروڑ آبادی والے ویتنام نے کورونا وائرس پر کس طرح قابو پایا کہ ابھی تک ایک بھی موت نہیں ہوئی؟ جان کر وسائل کی کمی اور زیادہ آبادی کا رونا رونے والے ہمارے حکمران شرم سے پانی پانی ہوجائیں

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ہنوئی(مانیٹرنگ ڈیسک) کورونا وائرس نے امریکہ اور یورپ کے بیشتر ممالک سمیت کئی امیر اور ترقی یافتہ ممالک کو بے بس کرکے رکھ دیا لیکن ایسے میں ویت نام اور اس جیسے دیگر کئی غریب اور ترقی پذیر ممالک نے اس موذی وباءکے خلاف ایسی مو¿ثر جنگ لڑی کہ ترقی یافتہ دنیا کوشرمندہ کر دیا۔ وال سٹریٹ جرنل کے مطابق رواں سال جنوری میں جب دنیا نے کورونا وائرس کے خلاف ابھی سیکھنا شروع کیا تھا، ویت نام کے لیڈر نے اس وائرس کو دشمن قرار دیا اور اپنی قوم سے کہا کہ اسے اس دشمن سے لڑنا ہے۔ اس کے فوری بعد انہوں نے کورونا وائرس کے خلاف کڑی جدوجہد کا آغاز کر دیا۔ جہاں کورونا وائرس کا مریض سامنے آتا وہاں پورے پورے گاﺅں اور شہری علاقے لاک ڈاﺅن کر دیئے جاتے اورسینکڑوں اور ہزاروں لوگوں کو قرنطینہ میں بھیج دیا جاتا۔ اسی کڑی محنت کا ثمر ہے کہ ویت نام میں پہلا کیس سامنے آنے کے 3ماہ بعد اب ملک سے وائرس کا، کم از کم فی الوقت، خاتمہ ہو چکا ہے۔ گزشتہ دس دن میں ویت نام میں صرف 2نئے کیس سامنے آئے ہیں، یہ دونوں طالب علم تھے اور گزشتہ ہفتے جاپان سے واپس آئے تھے۔
ساڑھے 9کروڑ کی آبادی کے ملک ویت نام میں اب تک مجموعی طور پر صرف 270کیس سامنے آئے ہیں اوراس وباءسے ایک بھی موت واقع نہیں ہوئی۔گزشتہ ہفتے سے ملک میں لاک ڈاﺅن کی پابندیاں بالکل نرم کر دی گئی ہیں۔ کیفے، ریسٹورنٹس اور سٹورز وغیرہ کھلنے شروع ہو گئے ہیں۔ ٹریفک بھی سڑکوں پر چلنے لگی ہے ۔ تاہم سکول اور بارز وغیرہ تاحال بند ہیں۔ کورونا وائرس کے خلاف جنگ جیتنے پر نائب وزیراعظم وو دوک دیم کا کہنا تھا کہ ”ہمیں یاد رکھنا ہو گا کہ ہم نے انفرادی حیثیت میں کورونا وائرس کے خلاف جنگ جیتی ہے، باقی دنیا میں یہ وائرس موجود ہے اور عالمی سطح پر مجموعی طور پر یہ جنگ جیتنا ابھی باقی ہے۔ چنانچہ ہمیں ابھی بہت محتاط رہنا ہے اور اس وباءکے خلاف ابھی بہت کچھ کرنا ہے۔“