میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں
خوش قسمتی سے پیپلز پارٹی کی قائد و سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو13 جون1953ء کو کراچی میں پیدا ہوئیں۔اس شہر کو بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح کی جائے پیدائش ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔بد قسمتی سے 27دسمبر2007ء کو اسی مقام پرانہوں نے دہشت گردی کے نتیجہ میں اپنی جان،جانِ آفریں کے سپرد کی جہاں 16اکتوبر1951ء کو وزیر اعظم لیاقت علی خان نے جام شہادت نوش کیا تھا۔بے نظیر بھٹو کا قتل ایک لحاظ سے پاکستان کی تاریخ کا دوسرا سب سے بڑا المیہ ہے کہ ان کے اصل قاتل اور پس پردہ سازش کے ذمہ داران کا تاحال تعین نہیں ہو سکا،جبکہ محترمہ کی شہادت کے فوراً بعد برسراقتدار آنے والی حکومت ان کی اپنی جماعت کی ہی تھی۔یہ امر توجہ طلب ہے کہ محترمہ کے قاتل،پس پردہ سازش اور آشیرباد کا تعلق کسی بہت طاقتور یا ناقابل تسخیر گروہ سے تھا۔ جہاں تک لیاقت علی خان کے قتل کا تعلق ہے تو ان کی شہادت کے نتیجہ میں بر سر اقتدار آنے والا گروہ ہی در اصل ان کے قتل میں سہولت کاری کا مرتکب تھا جس سے خیر کی توقع نہیں کی جاسکتی تھی۔
بے نظیر بھٹو اور جنرل پرویز مشرف کی حکومت کے مابین مفاہمت کے نتیجہ میں پاکستان پیپلز پارٹی بلا روک ٹوک آنے والے انتخابات میں حصہ لے سکتی تھی لیکن بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ صدر پرویز مشرف نے انتخابات سے قبل بی بی کو پاکستان واپسی میں احتیاط برتنے کیلئے کہا تھا۔کچھ حلقوں کا خیال ہے کہ پرویز مشرف اپنی حلیف سیاسی جماعت پاکستان مسلم لیگ(ق) کو دوبارہ بر سر اقتدار لانے کے خواہاں تھیں،جبکہ ایک اور حلقہ کہتا ہے کہ بے نظیر بھٹو صاحبہ کے وطن واپس آنے کے بعد سعودیہ عرب میں مقیم جلا وطن سیاسی رہنما میاں نواز شریف کی واپسی کی راہ ہموار ہوگئی تھی جس کو حکومت وقت درست نہیں سمجھتی تھی لیکن ایک اور گہرا تاثر یہ بھی ہے کہ صدر پرویز مشرف حکومت کے سربراہ کے طور پر بہت سارے ایسے معاملات سے واقف تھے جن کا برملا اظہار ان کیلئے ممکن نہ تھا۔انہیں معلوم تھا کہ پاکستان واپسی پر بے نظیر بھٹو کی زندگی کیلئے خطرہ لاحق ہو سکتا ہے چنانچہ انہوں نے انتخابات کے بعد واپسی کا مشورہ دیا تھا اور اس مشورہ میں ان کا کوئی اور مفاد شامل نہیں تھا۔سپریم کورٹ کے جج مرحوم سید دیدار حسین شاہ بھی میرے اس مشاہدے سے متفق تھے کہ شہید بے نظیر بھٹو انتہائی رحم دل خاتون تھیں۔بوسنیا میں ہونے والی خونریزی اور مظالم سے متاثرہ لوگوں کی دلجوئی کیلئے بی بی نے ترکی اور بنگلہ دیش کے وزرائے اعظم کو ساتھ لے کر بوسنیا کا دورہ کیا تھا جو ان کی ہمدردی و اسلامی اخوت کا اظہار تھا۔
بے نظیر بھٹو کو ایک ایسے وقت میں طبعاً سیاسی منظر سے ہٹا دیا گیا جب وہ پاکستان کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے اور ترقی کے ثمرات کو عام لوگوں تک پہنچانے کیلئے ہمہ تن کوشاں تھیں۔محترمہ اس خطے میں جسے جنوبی ایشیاء کہا جاتا ہے،میں طبقاتی لعنتوں اور جنگ بازوں سے مقابلہ کی پوری صلاحیت رکھتی تھیں۔وہ ذاتی طور پر اور ان کا خاندان شہید ذوالفقار علی بھٹو کی سزائے موت کے بعد جس کرب سے گزرا،انتقام کے جذبہ کا ہونا ایک فطری عمل تھا لیکن جس مثبت اور تعمیری انداز میں انہوں نے ان منفی احساسات کو یہ کہہ کر کہ " جمہوریت بہترین انتقام ہے" ملک میں عوامی حاکمیت اور آئین کی بالا دستی و جمہوری اقدار کی جانب موڑ دیا یہ ان ہی کا خاصا تھا۔ 1990ء میں جب ان کی حکومت قبل از میعاد ختم کی جاچکی تھی ایک روز راقم الحروف کو کراچی میں ایم اے جناح روڈ پر واقع ایک مجلس گاہ میں ان سے ملاقات کا موقع میسر آیا جہاں میں روزہ افطار کرکے عمارت کے لان میں آرہا تھا۔شہید محترمہ،ناہید خان کے ہمراہ عمارت او راس کے گردو نواح کے جائزے میں مصروف تھیں غالباً مجلس گاہ کے منتظمین نے تعمیر و توسیع کیلئے ان سے مالی معاونت کی درخواست کی تھی۔بعد ازاں بلدیہ عظمیٰ کی مشاورتی کونسل کے رکن کی حیثیت سے اسٹیٹ گیسٹ ہاؤس میں دو بار ان سے گفتگو کا موقع ملا اور ایک مرتبہ پاکستان ڈیموکریٹک پارٹی PDP کے رہنما مشتاق مرزا کی رہائش گاہ پر بھی گفتگو کا موقع ملا جہاں وہ دعوت حلیم میں شرکت کیلئے تشریف لائی تھیں۔یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ بے نظیر بھٹو وزیر اعظم کی حیثیت سے آنے والی ڈاک اور اخبارات کا خود مطالعہ کرتی تھیں۔1994ء میں میرا ایک بیان انگریزی روزنامہ میں شائع ہوا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ اکثر عدلیہ کے فیصلے تاریخ کے فیصلے نہیں ہوا کرتے۔حسین بن منصور حلاج اور سرمد کو وقت کی عدالتوں نے مجرم قرار دے کر سزائے موت کا فیصلہ سنایا تھا لیکن تاریخ اور عوام الناس ان کو شہید کے رتبے پر فائز کرتے ہیں۔مجھے یاد ہے بی بی نے میرے اس بیان کو ذوالفقار علی بھٹو کی سزا کے تناظر میں از سر نو دہرایا تھا جو اس وقت اخبارات کی زینت بھی بنا تھا۔اسی طرح اکتوبر 1996ء کے اواخر میں مرتضیٰ بھٹو کے چہلم کے موقع پر میری جانب سے محترمہ کی حکومت اور جمہوریت کو جن خطرات کا اندیشہ ظاہر کیا گیا تھا اسے بھی محترمہ نے دہرایا تھا۔ان واقعات کے ذکر سے خود نمائی قطعی مقصود نہیں بلکہ شہید بے نظیر بھٹو کا مثبت عمل و کردار نمایاں کرنا ہے کہ وہ رائے عامہ کو ساتھ لے کرچلنا چاہتی تھیں۔
محترمہ سے میری پہلی ملاقات 26 جولائی 1971ء کو اس وقت ہوئی تھی جب وہ اپنی والدہ بیگم نصرت بھٹو کے ہمراہ کراچی کے ہوٹل جبیس میں علاقائی تعاون برائے ترقی کی سالگرہ کے موقع پر آر سی ڈی یوتھ کنونشن میں شرکت کیلئے آئی تھیں۔اس تقریب کا اہتمام ہم نے آر سی ڈی یوتھ فرینڈ شپ ایسوسی ایشن کے تحت کیا تھا۔بیگم نصرت بھٹو بحیثیت مہمان خصوصی شریک ہوئی تھیں۔صدارت کا فریضہ معروف قانون دان انعام الحق ایڈووکیٹ نے انجام دینا تھا جو اپنی بیماری کے باعث شریک نہ ہوسکے تھے۔ڈائس پر سامنے کی جانب ایک صوفہ سیٹ تھا جس پر بیگم نصرت بھٹو،راقم الحروف اور ایران و ترکی کے سفارتکار موجود تھے۔بیگم صاحبہ نے اپنی بیٹی بے نظیر کو جو اس وقت امریکہ میں زیر تعلیم تھیں،اپنے ساتھ بٹھانے کے بجائے عقب میں موجود صوفہ پر بیٹھنے کیلئے کہا تھا جس پر وہ تنہاء بیٹھی تھیں البتہ منتظمین تقریب میں سے ایک PTVکے سینئر پروڈیوسر اقبال حیدر کو ہم نے ان کے ساتھ بیٹھنے کیلئے کہا تھا تاکہ وہ تقریب سے خود کو الگ تھلگ محسوس نہ کریں۔اختتام پر مہمان خصوصی کے خطاب سے قبل راقم الحروف نے کنونشن کی قراردادیں ایوان میں منظوری کیلئے پیش کیں۔ان قراردادوں میں ایران اور ترکی سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ دونوں ممالک اسرائیل سے اپنے سفارتی تعلقات منقطع کریں اور صہیونی ریاست کو تسلیم کرنے کا فیصلہ واپس لیں۔قراردادیں ایوان سے منظوری پاچکیں تو ایرانی سفارتکاروں نے اس پر شدید احتجاج کیا اور کہا کہ اسرائیل سے تعلقات ان کے ملک کا داخلی معاملہ ہے اور اس قرارداد کے ذریعہ اس میں مداخلت کی گئی ہے۔انہوں نے قرارداد کی واپسی کا مطالبہ کیا۔اس موقع پر بیگم نصرت بھٹو نے بھی معاملہ کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے قرار داد کی واپسی پر زور دیا۔ابھی یہ قضیہ جاری تھا کہ بے نظیر بھٹو جو مرکز ی نشست کے عقب میں موجود تھیں اپنی نشست سے اٹھیں اور کہا کہ یہ قرار داد اور اس میں درج مطالبہ بالکل درست ہے اور ایوان چونکہ قرار داد منظور کر چکا ہے لہٰذا اب اسے واپس نہیں لیا جا سکتا۔ان جملوں کی ادائیگی کے دوران بیگم نصرت بھٹو انہیں خاموش رہنے کی تلقین کرتی رہی تھیں لیکن بے نظیر اپنے موقف پر قائم رہیں۔ان کا یہ عمل جب وہ انگلستان کی آکسفورڈ یونیورسٹی میں ابھی داخل بھی نہیں ہوئی تھیں اور نو عمر ہی تھیں،نہ صرف جمہوری اقدار سے ان کی وابستگی کا آئینہ دار تھا بلکہ ان کے انقلابی ذہن کی غمازی بھی کرتا تھا۔تاریخ شاہد ہے کہ بے نظیر بھٹو اپنی پوری زندگی ان اصولوں پر قائم رہیں۔بے نظیر بھٹو کی بحیثیت وزیر اعظم کارکردگی کا مکمل احاطہ اس مختصر مضمون میں ممکن نہیں لیکن اسلامی ممالک میں معاونت کیلئے قائم تنظیم OIC میں جموں و کشمیر کیلئے مستقل گروپ کا قیام ان کا بڑا کارنامہ ہے جس کا احساس 15اگست کو جموں و کشمیر میں ہندوستان کے اقدامات کے خلاف بین الاقوامی سرد مہری کے تناظر میں کیا جا سکتا ہے۔اب جب میں سوچتا ہوں تو مجھے بے نظیر بھٹو کی شکل میں محترمہ فاطمہ جناح اور بیگم رعنا لیاقت علی خان جیسی قد آور شخصیات کا عکس نظر آتا ہے۔محترمہ فاطمہ جناح نے آمریت کا مردانہ وار مقابلہ کیا تھا جبکہ بیگم رعنا لیاقت علی خان اپنے شوہر کی شہادت کے باعث اسی کرب کا شکار ہوئی تھیں جو بے نظیر بھٹو نے اپنے والد کی بے وقت موت کی صورت میں برداشت کیا تھا۔