پڑھائی لکھائی اور انسانی رشتے
اگر ایک آدمی گھر کی الماری کھول کر گرمیوں کے لئے اپنے کپڑوں کی چھانٹی کر رہا ہو اور اس کے معیار زندگی کے حساب سے قمیضیں اندازے سے زیادہ نکل آئیں تو اس میں تشویش کی بات تو نہیں ہونی چاہئے ۔ کوئی کہہ سکتا ہے کہ آپ ہیں ہی خوش پوش انسان ، اس لئے ملبوسات کی کمی نہیں ہونے دیتے ۔ پھر یہ بھی ممکن ہے کہ میرے چھوٹے بھائی جیسا کوئی سراغ رساں وقفے وقفے سے آپ کو ہر طرح کی مردانہ ورائٹی والے کسی اسٹور کی کلوزنگ ڈاؤن سیل کی خبر دیتا رہتا ہو ۔ بہر حال اگر ان میں سے کوئی دلیل مان لی جائے تو پھر بندے کے پاس قمیضیں ہی نہیں ، لباس کا ہر آئٹم اچھی تعداد اور معقول حالت میں ہونا چاہئے، جبکہ میرے کیس میں صورت یہ ہے کہ یہ نئی صدی اور میرا نیا سوٹ ساتھ ساتھ چل رہے ہیں اور بنیانوں کا وہی حال کہ ’پاندے او تے پیندی نئیں ، پے جائے تے لہندی نئیں‘ ۔ ہمارے بچپن میں خاندانی قسم کے لوگ اپنی کمزور جمع تفریق پر فخر کیا کرتے تھے ۔ اسی روایت کو آگے بڑھاتے ہوئے جب میں نے تیسری بار قمیض شماری شروع کی تو دیکھا کہ الماری میں جس غیر ملکی شرٹ پہ نظر پڑی وہ نہ صرف میرے عام رہن سہن کے مقابلہ میں اونچی تھی، بلکہ سچ کہوں تو اوقات سے بالکل باہر ۔ غور کرتے کرتے مجھ پر یہ انکشاف ہوا کہ ان میں سے ایک بھی شرٹ اپنے پیسوں سے نہیں خریدی ،بلکہ نئے زمانے کی اصطلاح میں کسی نہ کسی بہانے نان فارمل سیکٹر میں میری سروسز کے بدلے پیش کی گئی ہے ۔ نان فارمل سے یہ مراد نہیں کہ میں وطن عزیز میں کسی آف شور کمپنی کا نمائندہ ہوں یا ایسا با شرع مڈل مین جو ہر کامیاب ڈیل کے بعد پہلے نواحی مسجد میں ایک نیا ائر کنڈیشنر لگوا تا ہے اور پھر عمرہ کرنے کی غرض سے سرزمین حجاز کے سفر پہ نکل کھڑا ہوتا ہے ۔
یہاں میں اپنا موازنہ مرحوم اشفاق احمد کے ساتھ ہر گز نہیں کروں گا، کیونکہ ہم دونوں کی تخلیقی صلاحیت ، سمجھ بوجھ اور سماجی رتبہ میں بہت فرق ہے ، لیکن اس کا کیا کریں کہ اشفاق صاحب کو جب بانو قدسیہ کے ساتھ الگ گھر بسانے کی سوجھی تو اس کے لئے سارا سازو سامان انہیں بھی قلم کمائی کے زور پہ اکٹھا کرنا پڑا تھا ۔ جیسے پلنگ ریڈیو کے بیس اسکرپٹوں کی قیمت میں ملے اور صوفہ سیٹ ٹی وی پہ پوری ڈرامہ سیریز کے بدلے میں۔ میں نے بھی اپنی ایک ایک شرٹ بڑے دھیان سے دیکھی اور محسوس کیا کہ اپنی سر گرمیوں کی رینج بھی کچھ کم نہیں ، بلکہ ہمسایوں کے بچوں کے لئے تقریریں لکھنے سے لے کر عزیز و اقارب کی ادبی کاوشوں کے پروف پڑھنے ، دوستوں کی دستاویزی فلموں کے لئے آواز لگانے اور تحقیقی مقالوں کی ترتیب ، تدوین اور ترجمے تک کئی قسم کی خدمات کا احاطہ کرتی ہے ۔ فرق یہ ہے کہ میری اس تخلیقی تگ و دو کا ماحصل کسی صوفے یا پلنگ پہ دراز نہیں ہوا ،بلکہ زر مبادلہ کی کمی کے سبب قمیضوں کی پوٹلی میں سما کر رہ گیا ہے ۔
یہ بتانا تو بھول ہی گیا کہ ’کیش کراپس‘ یا نقد آور فصلوں کی طرح میری قمیض آور پرائیویٹ پریکٹس کوئی ایک آدھ دن میں موجودہ سطح تک نہیں پہنچی ۔ ہاں ، اتنا ضرور ہے کہ نصف عمر تک تحریر و تقریر کی یہ ڈاکٹری محض آنریری ہاؤس جاب تھی اور بعد میں بھی میرا معاوضہ قمیضوں اور ایک آدھ سویٹر سے آگے نہ بڑھ سکا ۔ اب پوری کہانی سناؤں تو ہماری پرائمری اسکول کی استانی رضیہ عابد حسین نے بیماری کی چھٹی کے لئے ’تھینکنگ یو‘ والی عرضی لکھنے کا گُر تو چوتھی جماعت میں سکھا دیا تھا ۔ تین برس بعد ، جب ساتویں کلاس میں تھے تو والد بزرگوار میری بہن کی ہیڈ مسٹریس کے نام نیلے بغیر لائنوں کے پیڈ پہ ایک خط لکھتے ہوئے پائے گئے کہ میرا بڑا بیٹا چونکہ پوری فیس دے کر اسی کنٹونمنٹ بورڈ کے ہائی اسکول میں پڑھ رہا ہے ، لہذا آپ کے ادارے میں زیر تعلیم اس کی چھوٹی بہن سے ’انڈر دا نارمل رولز ‘ آدھی فیس لی جائے ۔
یہ ’نارمل رولز‘ والی بات مجھے بہت پسند آئی ،کیونکہ اس کی بدولت خط کی عبارت باوقار اور قانونی قانونی سی ہو گئی تھی ۔ جب یہ پتا چلا کہ کنٹونمنٹ کے اسکولوں میں کم آمدنی والے والدین اور فوجیوں کے بچے بھی ماہانہ فیس میں نصف رعائت کے مستحق ہوتے ہیں تو میں نے ایک دن ہیڈ ماسٹر کے نام ایک ساتھی طالب علم کی فیس معافی کی درخواست لکھتے ہوئے ، مس رضیہ کے بتائے ہوئے ’تھینکنگ یو‘ سے پہلے اپنے ابا جان کی پیروی میں ’نارمل رولز‘ کے الفاظ بھی شامل کر دئے ۔ نا محسوس طور پر یہ شروعات ہے پرائیویٹ پریکٹس کی ، جس میں کالج پہنچنے پہنچتے اوروں کے نام سے مضامین ، نظمیں اور غزلیں شائع کرنے اور مباحثوں کے لئے تقریریں لکھ لکھ کر دینے کی اسپیشیلٹی بھی شامل ہو گئی ۔ اس چکر میں دوسروں پہ دانشوری کی دھاک تو بیٹھ گئی ، مگر پتا نہیں کیا کمپلیکس ہے کہ داد لینے کا یہ ’ٹھرک‘ دل کے نہاں خانوں سے آج تک گیا ہی نہیں ۔
میری غیرنصابی سرگرمیوں میں ایک نئی لائن آف بزنس میری گورنمنٹ کالج سے تدریسی وابستگی کے دنوں میں متعارف ہوئی تھی ۔ یہ لائن ہے سرکاری محکموں سے قلمی ہاتھا پائی کی ، جس کا سبب جنرل ضیاالحق کے مارشل لا کے دوران اصلاح معاشرہ کی غرض سے شعبہء تعلیم میں ہونے والی اکھاڑ پچھاڑ ہے ۔ ان دنوں ہر شام لاہور کے مختلف کالجوں سے ہمارے دوست ایسے ایسے دوردراز مقامات کے پوسٹنگ آرڈر لے کر آ دھمکتے جن کا راستہ سمجھنے کے لئے بخدا دو موقعوں پر اردو بازار جا کر ہمیں ریل اور سڑکوں کے نقشے خریدنے پڑے تھے ۔ چنانچہ کئی لیکچراروں نے تحریری احتجاج پہ کمر باندھی اور میں ٹائپنگ کے لئے اپنی پورٹیبل ریمنگٹن کھڑکانے لگا ۔ مگر تبادلوں کا دباؤ بڑھتے ہی ہمیں انار کلی اور کچہری روڈ کے سنگم پر پرو فیشنل ٹائپ مشینوں سے کام لینا پڑا تھا ۔ وہ منظر کبھی نہیں بھولتا جب میں بابائے صحافت مولانا ظفر علی خاں کی نقالی کرتے ہوئے سڑک کے کنارے دو ٹائپسٹوں کو وقفے وقفے سے ڈکٹیشن دیتا رہا ۔ مزدوری میں ’گولڈ لیف‘ کا بیس سگریٹ والا پیکٹ ، چائے کے دو سیٹ اور اولڈ کیمپس کی دیوار پر جلی حروف میں لکھا ہوا یہ جملہ شامل ہے کہ ’ہمارا مطالبہ ، ٹوٹ بٹوٹ کو اعزازی ڈگری نہ دی جائے‘ ۔
تب اور اب کے درمیان بہت فرق ہے ، لیکن میرے پچھلی صدی کے شاگردوں ، نیز اخبار ، ریڈیو ، ٹی وی کے ساتھیوں اور ان دوستوں کی تعداد میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی جنہیں میری بیگم صاحبہ ’آپ کے کلاءئینٹ‘ کہہ کر پکارتی ہیں ۔ نمونہ ء کلام دیکھئے ’ شاہد ملک صاحب ، بس ایک گھنٹہ دورانئے کا ٹی وی اسکرپٹ ہے ، نظر ڈال لیں کہ فیکٹ یا زبان کی غلطی نہ رہ گئی ۔ ۔ ۔ جناب ، انگریزی فلم کی اردو سب ٹائیٹلنگ کرانی ہے اور دن ہے آج ہی کا ۔ ۔ ۔ بزرگو ، ہمارے ریفرنس کا کیا بنا ، دیکھیں کہیں جرمن یونیورسٹی میں ایڈمشن کی تاریخ نہ گزر جائے ‘ ۔ سچ پوچھیں تو لکھائی پڑھائی کی یہ فرمائشیں ٹالنے کو اب بھی جی نہیں چاہتا ، مگر اس مطالبہ کا کیا کروں کہ سر ، کسی ایسے چینل میں نوکری دلا دیں جہاں ڈائرکٹر نیوز اپنے پروڈکشن اسٹاف کو گالی نہ دیتا ہو اور زیر تربیت اینکرز کارکردگی کی بنیاد پر مستقل عملے کا حصہ بن جاتی ہوں ۔
بعض لوگوں کے نزدیک یہ ٹیکنیکل باتیں ہیں ، مگر ’ علم دیاں گلاں تے علم دین جاندا اے ‘ لہذا مجھ جیسے علم دین کے پاس ایک آپشن یہ تھی کہ پرائیویٹ پریکٹس کرنے والے ڈاکٹروں کی طرح اپنے گھر کے باہر وائس اوور ، سکرپٹ رائیٹنگ اور پروف ریڈنگ سمیت اپنی تمام تر خدمات کے نرخوں کی فہرست آویزاں کر دے ۔ ساتھ ہی نیون سائن میں یہ مژدہ ہو کہ ’کلینک چوبیس گھنٹے کھلا ہے ‘ ۔ ۔ ۔ اب کیا بتاؤں کہ پچھلی گرمیوں میں تھوڑا سا کام کمرشل اسکیل پر کرنے کی کوشش بھی کی ، جو لطیفہ ثابت ہوئی ۔ اس کام میں پہل میں نے نہیں کی تھی، بلکہ عملی زندگی میں میرا بہت خیال رکھنے والے ایک کزن نے کی ، جو چاہتے تھے کہ میں ان کے مرحوم بھائی کی اب تک کتابی شکل میں طبع نہ ہونے والی صحافیانہ تحریروں کے انتخاب اور تدوین کا کام سنبھال لوں ۔
بھائی تو جب تک زندہ رہے ان کا مسلک ایک ہی تھا ’پیو کہ مفت لگا دی ہے خون دل کی کشید‘ ۔ چنانچہ شروع شروع میں ہم بھی اسی راستے پہ چلے ، لیکن اب بدلی ہوئی دنیا میں گلی گلی جا کر ’مضمون لکھوا لو ، ترجمہ کروالو ‘ کی صدا لگانے کی بجائے ، کتنا اچھا ہے کہ کوئی عزیز ، جو اولین امکانی گاہک ہو سکتا ہے ، اپنا منہ آپ کے کان کے قریب لا کر کہے کہ یار ، اگر چاہو تو اس کام کے پیسے بھی دے سکتا ہوں ، بس کوئی ’فگر‘ بتا دو ۔ فگر نکالنے کے لئے آپ گیارہ پوائنٹ کے فانٹ پر ٹائپ کئے گئے صفحات کو ڈیڑھ گھنٹہ فی صفحہ سے ضرب دیتے ہیں اور گھنٹوں کی تعداد کو ایک درمیانی سی فیس سے ملٹی پلائی کرتے ہیں ۔ جواب آتا ہے ۔ ۔ ۔ خیر ۔ ۔ ۔ چھوڑیں میرے جواب کو ،یہ رقم خود مجھے بھی زیادہ لگ رہی تھی ۔ اس پہ ہم دونوں بے تحاشہ ہنسے ، دوسرا آدمی حیران ہو کر اور میں شرمندگی کے مارے ۔ تو پھر ہوا کیا ؟ ہوا یہ کہ میں نے کوئی فیس ویس لینے سے توبہ کی اور زور دے کر کہا کہ اگر پیسے بیچ میں آگئے تو مجھ سے کچھ بھی نہ ہو سکے گا ، بس موقع دیں کہ ذاتی کام سمجھ کر لگن اور توجہ سے کرتا رہوں ۔ میرا موقف مان لیا گیا ، لیکن لگن اور توجہ کے باعث میری اب تک کی رفتار اُتنی ہی سست ہے جتنی ذاتی کاموں میں ہوا کرتی ہے ۔