سوئی گیس کا بل اور ہماری اذیت
اکتوبر2016ء سے لے کر مارچ 2017ء تک ہمیں اپنے گھر میں سوئی گیس کے چولہے پر کھانا تیار کرنا نصیب نہیں ہوا۔ جب چولہے کے لئے مطلوبہ گیس نہ ہو گی تو ہیڑ اور گیزر کا استعمال تو ممکن ہی نہیں رہتا۔ سردیوں کے 5ماہ ہم چولہے، ہیڑ اور گیزر (گرم پانی کی سہولت) تینوں ہی سے محروم ہیں، لیکن سوئی گیس کا بل باقاعدگی سے آتا ہے، جس کی بروقت ادائیگی بھی ضروری ہے، کیونکہ سوئی گیس کے بل پر یہ عبارت نمایاں طور پر تحریر ہے کہ مقررہ تاریخ پر بل ادا نہ کرنے کی صورت میں گیس بغیر نوٹس کے منقطع کردی جائے گی۔
ستم ظریفی دیکھئے کہ ہماری گیس تو عملاً پہلے ہی منقطع کی جاچکی ہے۔ جب گیس چولہا جلانے کے لئے بھی میسر نہیں تو پھر اسے منقطع ہی کہا جائے گا۔ اس کے باوجود اگر گیس کا ماہانہ بل ایک ہزار یا پندرہ سو روپے بھیج دیا جائے تو یہ بل ادا کرتے ہوئے دل کو تکلیف ہونا ایک فطری بات ہے۔ یہ رقم بہت معمولی ہے،لیکن اذیت ناک پہلو یہ ہے کہ روٹی پکانے یا چائے کے دوکپ تیار کرنے کو بھی اگر گیس نہیں تو ہماری بے بسی کا مذاق اڑانے کے لئے بل کیوں بھیج دیا جاتا ہے۔ بل اس سے دوگنا زیادہ بھی ہو تو قابل برداشت ہو سکتا ہے، لیکن گیس تو ہو۔ بعض گھروں میں لوگ گیس کے حصول کے لئے کوئی ایسے طور طریقے بھی اختیار کرلیتے ہیں، جو غیر قانونی ہیں۔ بعض لوگوں کے نزدیک یہ غیر قانونی طور طریقے ان کی مجبوری ہیں، اس لئے وہ انہیں استعمال کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں۔ لیکن غیر قانونی طور پر کوئی Device استعمال کرنا اخلاقی اعتبار سے قطعاً ایک معقول طرز عمل نہیں۔ تاہم جو لوگ یہ غیر قانونی اور غیر اخلاقی طریق کار استعمال کرنا اپنے ضمیر پر بوجھ سمجھتے ہیں، وہی سوئی گیس کی فراہمی سے محروم ہیں اور محکمہ سوئی گیس بھی غیر قانونی ہتھکنڈوں میں ملوث افراد کے خلاف کوئی قانونی کارروائی عمل میں نہیں لاتا۔ جس وجہ سے مساوی طور پر سب کو گیس میسر آنا ممکن نہیں رہا۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ جو لوگ قانون کا احترام کرتے ہیں اور اخلاقی اقدار پر بھی یقین رکھتے ہیں، محکمہ سوئی گیس ان کا احساس کرے اور ان کی تکالیف کا حل تلاش کرے۔ لیکن یہاں معاملات برعکس ہیں کہ جو لوگ ہیرا پھیری نہیں کرنا چاہتے یا نہیں کرسکتے وہ تو سردیوں میں سوئی گیس سے عملی طور پر محروم ہو جائیں اورجو لوگ غیر قانونی استعمال کرنے کی ’’جرأت‘‘ رکھتے ہوں وہ دوسروں کے حصے کی گیس پر بھی ہاتھ صاف کرجائیں۔
کالم یہاں تک لکھ پایا تو اخبار کی اس خبر نے مزید پریشان کردیا۔ خبر یہ ہے کہ گوجرانوالہ ریجن میں رواں سال میں 42ہزار نئے گھریلو گیس کنکشن دینے کا فیصلہ کیا گیا تھا، جس میں سے 50فی صد ہدف پورا کردیا گیا ہے۔ گویا 21ہزار نئے گیس کنکش فراہم کردیئے گئے ہیں۔ میری الجھن اور پریشانی یہ ہے کہ محکمہ سوئی گیس صرف گیس کنکشن جاری کرنے کا ذمہ دار ہے یا گیس کی فراہمی بھی اس کی ذمہ داری میں شامل ہے۔ جن گھروں میں کئی سال سے گیس کنکشن نصب ہیں، اگر وہ گیس سے محروم ہیں تو نئے گیس کنکشن صرف گنتی پوری کرنے کے جاری کئے گئے ہیں۔
ایک اورستم ظریفی دیکھئے کہ خبر کے مطابق ارجنٹ فیس ادا کرنے والوں کو بھی 15000نئے گیس کنکشن فراہم کئے جاچکے ہیں۔ مجھے بھی لاہور میں اپنے گھر گیس کنکشن کے حصول کے لئے 25000 روپے ارجنٹ فیس ادا کرنے کے مرحلے سے گزرنا پڑا تھا۔ یہ ارجنٹ فیس ادا نہ کی جائے تو کئی سال تک آپ کو گیس کنکشن کے لئے انتظار کرنا پڑسکتا ہے۔ مجھے اس پالیسی کی بھی سمجھ نہیں آپائی۔ اصول تو یہ ہونا چاہئے کہ گیس فراہم کی جاسکتی ہے، تو نئے گیس کنکشن جاری کئے جائیں۔ یہ پالیسی کیا ہے کہ 25000روپے ارجنٹ فیس دینے والے کو تو گیس کنکشن جاری کردیا جائے، مگر یہ بھاری فیس یا جرمانہ ادا کرنے کی توفیق نہ رکھنے والے گیس کنکشن سے محروم رہ جائیں اور اس بات کی گارنٹی تو کسی کو بھی نہیں دی جاتی کہ بالخصوص سردیوں کے موسم میں گیس آپ کو فراہم ہوگی بھی یا نہیں۔ یہ بات ویسے بھی کتنی شرمناک ہے کہ آپ کے گھر پر گیس کنکشن موجود ہے، لیکن آپ سلنڈر اٹھائے بازار کی طرف بھاگے جارہے ہیں کہ گیس خرید لائیں تو پھر گھر کا چولہا جلے گا۔ میں یہاں یہ بھی واضح کردوں کہ گیس کی عدم فراہمی کا عذاب تقریباً 5ماہ تک مسلسل برداشت کرنے کے بعد میں یہ چند سطور لکھنے پرمجبور ہوا ہوں۔ ہر ماہ ہمیں انتظار رہا کہ شاید ہم سے روٹھی ہوئی گیس کسی دن ہمیں شرف ملاقات بخش ہی دے گی، لیکن ہمارا یہ ارمان پورا نہیں ہوا۔ میں کئی مرتبہ ماچس کی تیلی جلاکر چولہے میں آگ روشن کرنے کی کوشش کر چکا ہوا، لیکن ہر دفعہ شرمندہ ہی ہونا پڑا۔ ایک عام شہری کی یہی مجبوری اور بے بسی ہے کہ وہ دوسروں کی زیادتی پر خود ہی شرمسار ہو کر رہ جاتا ہے۔ زیادتی کرنے والے شرمندہ ہونے پر بھی تیار نہیں ہوتے کہ یہی ہمارا قومی و تیرہ اور اجتماعی شیوہ بن چکا ہے۔ ظالم اپنے ظلم پر شرمندہ نہیں، ڈاکو اور لٹیرے اپنے لوٹنے کے عمل پر شرمسار نہیں، ملاوٹ کرنے والے اپنے اس مکروہ عمل کو برانہیں سمجھتے، سیاست دان جھوٹ، فریب اور وعدہ خلافی کو کوئی اخلاقی برائی خیال نہیں کرتے،سود لینا قرآن کے حکم کے مطابق اللہ اور رسولؐ کے خلاف جنگ قرار دیا گیا ہے، مگر سود خود اللہ کے فرمان کو بھول چکے کیونکہ دولت کی ہوس میں وہ اندھے ہو چکے ہیں۔ ذخیرہ اندوزی اور چوربازاری کو ہم جرم تسلیم نہیں کرتے اور رشوت (ناجائز نذرانہ) کو تو حرام مال اب سمجھا ہی نہیں جاتا۔ غرضیکہ کس کس اخلاقی برائی کا ذکر کیا جائے جس پر کوئی شرمندگی محسوس ہی نہی کرتا۔ اب تو لوگ اسے برا سمجھتے ہیں جو برائی کی نشاندہی کرتا ہے۔ سچ بولنے والے کی مذمت کی جاتی ہے اور جھوٹ بولنے والوں کو لائقِ عزت و احترام سمجھا جاتا ہے۔ ایسے معاشرے میں اپنے حقوق کے لئے آواز بلند کرنا بھی پاگل پن سمجھا جاتا ہے۔ اپنے گھر پر سوئی گیس کی 5ماہ سے مسلسل عدم فراہمی کو ایک مسئلے کے طور پر بیان کرنے کو آپ میری نادانی سمجھ کر معاف کردیجئے اور اس سے بھی بڑھ کرمیرا جرم یہ ہے کہ غیر قانونی طور پر ایک Deviceاستعمال کرکے آسانی سے گیس کی فراہمی کو میں بھی ممکن بناسکتا تھا لیکن میرا پاگل پن مجھے اس کی اجازت نہیں دیتا۔