ترکی میں "خلافت کااحیاء" اور یورپ کی بے چینی!
اِن دنوں ترکی اور یورپ کے درمیان کافی سردمہری چل رہی ہے۔یہ سرد مہری اُس وقت شدت اختیارکرگئی جب11مارچ2017کو ترکی کے وزیرخارجہ مولود جاویش اوغلو کے طیارے کو ڈچ حکومت نے ہالینڈ اترنے سے روک دیا۔بعدازاں ڈچ حکومت نے ترکی کی خاندانی اورسماجی امورکی وزیر فاطمہ بیت السیان کو بھی ہالینڈ جانے سے روک دیا۔وزیرخارجہ مولودجاویش اوغلو ترکی میں صدارتی نظام کے لیے16اپریل کوہونے والے ریفرنڈم کے حوالے سے ہالینڈ میں منعقد کی گئی ایک تقریب میں شرکت کرنا چاہتے تھے،جب کہ فاطمہ بیت السیان ہالینڈ میں ترک سفارت خانے کی ایک تقریب میں شرکت کے لیے جرمنی سے ہالینڈ جارہی تھیں۔ڈچ حکومت کا مؤقف ہے کہ سیکورٹی اور بدامنی کے خدشے کے پیش نظر ایسی تقریبات میں ترک وزرا کو شرکت سے روکاگیا ہے۔جب کہ ترک صدرطیب اردگان نے اپنے وزرا کے ساتھ اس اہانت آمیز رویے پر ڈچ حکومت کوشدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ڈچ حکومت کایہ عمل آزادی اظہاررائے کے علم برداروں کے منہ پر طمانچہ ہے، یہ نازی باقیات کااثر ہے اور ڈچ حکومت نے خود کواس عمل سے فاشٹ ثابت کردیا ہے۔انہوں نے ڈچ حکومت پرسفارتی واقتصادی پابندیاں لگانے کی بھی دھمکی دی۔دوسری طرف ڈچ حکومت کا ساتھ دینے کے لیے جرمنی،سوئزلینڈ اورڈنمارک بھی میدان میں آگئے ہیں۔جب کہ فرانس اوردیگر ممالک نے ڈچ حکومت کے اس عمل کوآزادی اظہار رائے کے مخالف قراردیتے ہوئے کہا کہ وہ ترکی کوایسی تقریبات فرانس میں منعقد کرنے سے ہرگز نہیں روکے گا۔
یادرہے کہ 55لاکھ ترکی بیرون ملک مقیم ہیں، جن میں سے 46 لاکھ ترک صرف یورپی ممالک میں رہتے ہیں۔پہلے یہ تعداد85لاکھ کے لگ بھگ تھی جن میں سے 30 لاکھ ترکی واپس اپنے ملک میں آگئے ہیں۔صرف ہالینڈ اور جرمنی میں چارلاکھ سے زیادہ ترکی رہتے ہیں۔
یورپ میں ترک باشندوں کی اتنی بڑی تعداد جہاں ترکی کے لیے اہمیت کی حامل ہے وہیں یورپی ممالک کے لیے یہ تعداد پریشان کن ہے۔کیوں کہ یورپ میں سب سے زیادہ ترکش مسلمان ہی آباد ہیں اور یورپ میں اسلام کے بڑھتے ہوئے رجحان اوربالخصوص ترک مسلمانوں کی اکثریت سے یورپ بہت زیادہ خائف نظر آتاہے،کیوں کہ یہی ترک ہیں جن کو 1924ء میں سقوط خلافت عثمانیہ کے بعدیورپ کی ریشہ دوانیوں نے ہجرت پر مجبور کیا تھا۔ترک مسلمانوں سے یورپ کے خوف ہی کی وجہ ہے کہ آج تک یورپ میں ترکی کے شامل ہوتے ہوئے بھی یورپ نے ترکی کو یورپ کا حصہ تسلیم کیاہے،نہ ترکی کو30 سال گزرنے کے باوجود یورپی یونین میں شامل کیاہے۔کیوں کہ یورپ یہ بات اچھی طرح جانتا ہے کہ یہی ترکی ہے جو یورپ میں اسلام کی آمدکا ذریعہ بنا اوریہی وہ خطہ ہے جہاں سے یورپ میں عیسائیت کو خطرات لاحق ہوئے اور یورپ کو صلیبی جنگیں لڑنا پڑیں۔دوسری طرف ترکی کے لیے یورپ میں بسنے والے ترک عوام انتہائی اہمیت کے حامل ہیں ،جو ترکی کی سیاست اور معیشت میں ہمیشہ فیصلہ کن کردار اداکرتے ہیں۔اگلے ماہ 16 اپریل کو ترکی میں ہونے والے صدارتی ریفرنڈم میں ان کی رائے بھی فیصلہ کن کردار کاباعث بنی گی۔اسی وجہ سے ترک حکومت یورپ میں بسنے والے ترکیوں کو صداراتی نظام سے متعارف کروانے کے لیے جدوجہد کررہی ہے۔
ترک حکومت کا خیال ہے کہ ترکی میں نیاصدارتی نظام ترکی کی سلامتی اور ترقی کے لیے بہت ضروری ہے،جوآئندہ فوجی انقلابات اور بیرونی مداخلت اور ایجنڈوں کوروکنے کاباعث بنے گا۔جب کہ یورپ ترکی میں نئے صدارتی نظام کو خلافت عثمانیہ کے احیاء کاذریعہ قراردے کراس سے سخت پریشان نظرآرہا ہے،جس کا اظہار نیویارک ٹائمز سمیت دیگر یورپی میڈیا میں بھی کیا جارہاہے۔یہی وجہ ہے کہ جرمنی اورہالینڈ سمیت دیگر یورپی ممالک بھی اس صدارتی نظام پر تنقید کررہے ہیں اور اسی وجہ سے ہالینڈ اور جرمنی نے اس صدارتی نظام کے لیے یورپ میں ترکی کو کمپئین چلانے سے روک دیا ہے۔
دیکھاجائے تو ترکی اوریورپ کی کشمکش کی داستان بہت طویل اور قدیم ہے۔ماضی میں نہ صرف یہ دونوں طاقتیں ایک دوسرے کی مقابل رہی ہیں،بلکہ آج بھی یہ دونوں طاقتیں اپنی ماضی کی کشمکش کونہیں بھلاسکیں۔ترک عوام یہ بات اچھی طرح جانتی ہے کہ سقوط خلافت عثمانیہ میں یورپ نے کس طرح ان کی پیٹھ میں خنجر گھونپا تھا،جب کہ یورپ بھی ترک عوام کے شاندار ماضی اوریورپ کی تنگدستی اور غلامی کے دورسے اچھی طرح واقف ہے۔دوسری طرف یورپ آج بھی اس بات کو اچھی طرح جانتا ہے کہ یورپ کی معیشت اور ترقی کے لیے ترکی کے ساتھ یورپ کے بہترین تعلقات کا ہونا نہایت ضروری ہے،کیوں کہ ایشیا تک یورپ کی رسائی کا یہی واحد زمینی راستہ ہے۔پھر ترکی یورپ کے ساتھ تجارت کرنے والا دنیا کاچھٹا بڑاملک ہے،نہ صرف یہ بلکہ یورپ کی طرف سے بنائے گئے نیٹو اتحاد میں دوسری بڑی فوجی طاقت کاحامل بھی ترکی ہے۔
ترکی اور یورپ کے ماضی اورحال کو سامنے رکھ کر دوسوال پیداہوتے ہیں کہ اگریورپ واقعی ترکی کامحتاج ہے تو پھر تر کی کی مخالفت کیوں کررہاہے ؟دوسراسوال یہ ہے کہ کیا مستقبل میں یورپ اور ترکی کے اختلافات ختم ہوپائیں گے؟جہاں تک پہلے سوال کا تعلق ہے تواس کے جواب میں بے دھڑک یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ یورپ ترکی کے اسلام کی طرف بڑھتے ہوئے اقدامات سے بہت پریشان ہے۔یورپ کا خیال ہے کہ ترکی میں آنے والا نیاصدارتی نظام اسلام پسندوں کے اقدامات کو مہمیزدے گا۔کیوں کہ ترکی کے موجودہ صدر طیب اردگان کے بارے یورپ سمیت دنیا بھر میں یہ تاثر پایاجاتاہے کہ وہ اسلام پسند حکمران ہیں،جنہوں نے جمہوریت اور سیکولرزم کی آڑ میں نہ صرف مصطفی کمال اتاترک کے سیکولرانہ اقدامات کومٹاکررکھ دیاہے،بلکہ اسلامی شعائر کو بھی اسی جمہوریت کی آڑ میں بحال کروادیاہے۔ترکی میں اسلام کے حوالے سے اردگان کی ان کوششوں کو ترک عوام میں بھی خوب سراہا گیاہے اورسراہاجارہاہے،تبھی ترک عوام 2003ء سے آج تک ان پرمسلسل اعتماد کرتی آرہی ہے۔چنانچہ اب یہ حقیقت واضح ہوتی نظر آرہی ہے کہ اسلام کے حوالے سے جن فیصلوں پراردگان کو سالہاسال انتظار کرنا پڑاصدارتی نظام کے لاگوہونے کے بعداب شایداتنا انتظار نہیں کرنا پڑے گا۔کیوں کہ صدراتی نظام کے بعدصدر کے پاس فیصلہ سازی کا بھرپوراختیار ہوگا۔رہی بات مستقبل میں یورپ اور ترکی کے اختلافات ختم ہونے کی،توترکی میں ہونے والے صدارتی ریفرنڈم کی ابتدائی کمپئین سے یہ بات عیاں ہوجاتی ہے کہ یورپ اس نظام سے کس قدر بے چین ہے۔ظاہرہے جب صدارتی ریفرنڈم کافیصلہ اردگان کے حق میں آئے گا تو اس وقت یورپ کی بے چینی کی جوانتہاء ہوگی اسے بیان نہیں کیاجاسکتا۔اس کے علاوہ ترکی کی روس اور دیگر خلیجی ممالک سے بڑھتی ہوئی قرابت،شام اورمشرق وسطیٰ کی سیاست میں ترکی کی مضبوط پوزیشن اورفیصلہ کن کردار،شامی مہاجرین کی ترکی کے راستے یورپ میں داخلے پر ترکی کی طرف سے عدم روک ٹوک ایسے کئی مسائل ہیں جو مستقبل میں یورپ کو بری طرح پریشان کریں گے،عین ممکن ہے کہ یورپ تنگ آکر ترکی کویورپی یونین میں شامل کرلے یاکم ازکم ترکی کی بالادستی تسلیم کرتے ہوئے ترکی کی من مانی شرائط قبول کرلے۔یاد رہے کہ یورپ کے ساتھ ترکی کے حالیہ تنازعے کے بعد ترک صدر اردگان نے یورپ کو دیگر تنبیہی بیانات کے علاوہ شامی مہاجرین کے سلسلے میں یورپ کے ساتھ جومعاہدہ تھااسے ختم کرنے کاعندیہ بھی دیاہے۔اگراردگان حکومت یہ کام کرلیتی ہے اور یورپ کے دروازے پر شامی مہاجرین کا ایک جم غفیر جاپہنچتا ہے تو یورپ بہت جلد گھٹنے ٹیک پر مجبور ہوسکتاہے۔چنانچہ اس وقت ترکی کے پاس دو آپشن ہیں یاتو یورپ کو اس بات پر قائل کرے کہ وہ ترکی کو دیگر یورپی ممالک کی طرح برابر کاحق دے اور ترکی کے اندرونی معاملات چاہے وہ صدارتی ریفرنڈم کی شکل ہوں ہو یا پھر خلافت عثمانیہ کے احیاء کی صورت اس میں دخل نہ دے،یاپھر ترکی یورپ کے ساتھ دفاعی اور دیگر نوعیت کے معاہدوں پرغور کرے اور ضرورت پڑنے پر انہیں ختم کرکے یورپ کو ایشیا سے منقطع کردے اور اپنے معاملات کو آزادی اوربھرپور قوت کے ساتھ سرانجام دے۔
.
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔