چین پاکستان کی ترقی چاہتا ہے

چین پاکستان کی ترقی چاہتا ہے
چین پاکستان کی ترقی چاہتا ہے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

لاہورمیں سینئر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے چینی سفیر یاؤجنگ نے کہا کہ پاکستان چین دوستی اور خارجہ تعلقات شخصیات کے محتاج نہیں۔ پاکستان میں کوئی حکومت تبدیل ہو یا چین میں نئی حکومت آئے‘ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ پاکستان اور چین کے تعلقات حکومتوں کے درمیان نہیں۔


چینی سفیر نے گفتگو میں کہا کہ چین سی پیک کی پراگریس سے مطمئن ہے۔ ہم نہیں سمجھتے کہ سی پیک سلو ڈاؤن ہوا ہے۔ سی پیک کے 43 پراجیکٹس ہیں۔

ان میں سے 7 پراجیکٹ بجلی کے ہیں جو مکمل ہو چکے جبکہ 13 منصوبے پائپ لائن میں ہیں۔ اب تک 19 ارب ڈالر کی لاگت آچکی ہے۔ اس میں سے صرف 4ارب ڈالر نرم ترقیاتی قرضوں کی صورت میں دیئے گئے۔

ان پر سود کی شرح 2فیصد اور واپسی کا عرصہ 30سال تک ہے ۔ ان کی ساخت وہی ہے جو ورلڈ بینک یا دیگر اداروں کی جانب سے فراہم کیے جانے والے قرضوں کی ہوتی ہے ۔

باقی 15بلین ڈالر کے قریب چینی کمپنیوں نے سرمایہ کاری کی ہے۔مثال کے طورپر ساہیوال پاور پلانٹ لگانے والی کمپنیوں نے پاکستانی حکومت سے آئی پی پی ماڈل کے تحت معاہدہ کیا ۔ چینی حکومت سے قرض لیا اور یہاں پلانٹ لگائے ۔ اب وہ بجلی پاکستانی حکومت کو بیچیں گی جس سے منافع کمائیں گی اور قرض بھی واپس کریں گی۔

سی پیک کے حوالے سے چینی سفیر کا کہنا تھا کہ چین کا سی پیک پہلا کاریڈور نہیں ہے بلکہ مختلف ممالک کے درمیان پانچ کاریڈور پہلے ہی سے موجود ہیں۔ سی پیک کا آغاز 2015ء سے اس وقت ہوا جب چین کے صدر پاکستان آئے تھے۔ چین گوادر کو خصوصی اہمیت اس لیے دے رہا ہے کہ گوادر پورٹ کو معاشی طور پر مضبوط اور فعال بنانا چاہتا ہے۔

وہاں پانی اور توانائی پلانٹ‘ ہائی ویز سمیت انفراسٹرکچر بنایا جا رہاہے۔ گوادر سے ماہانہ دو کمرشل بحری جہاز بھی چلنے لگ گئے تو گوادر بندرگاہ مالی طور پر خود کفیل ہو جائے گی۔

ہم سپیشل اکنامک زون بنائیں گے۔ سی پیک کاریڈور کاشغر سے خنجراب تک ایک کاریڈور ہے۔ اس میں ویسٹرن کاریڈور اور ایسٹرن کاریڈور کا کوئی تصور نہیں۔ ایسی خبریں دیکھ کر ہمیں حیرت ہوتی ہے۔

سی پیک پر پچاس ساٹھ ارب ڈالر خرچ ہونگے۔ 2020ء تک پہلے مرحلے کو مکمل کیا جائے گا جبکہ 2020ء سے 2025ء تک دوسرے مرحلے کے پراجیکٹس شروع ہونگے اور 2030ء میں یہ کاریڈور مکمل ہو جائے گا۔


یاؤجنگ نے مزید کہا کہ چین کی خارجہ پالیسی کا پہلا نقطہ یہ ہے کہ پاکستان سے اپنے تعلقات کی کمی کو برداشت نہیں کر سکتے۔ دوسرے چین کی معیشت ہمسایوں کے ساتھ اکنامک ڈویلپمنٹ کے ساتھ وابستہ ہے اور پاکستان چین کے ہمسایہ ممالک میں خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔

چین سمجھتا ہے کہ پاکستان کو ترقی میں اپنا پارٹنر بنانا ہے۔ چین کیلئے ایشیا پیسفک اور افریقہ کی بہت اہمیت ہے۔ ان سے وابستگی مشترکہ سنگ میل ہے۔


گزشتہ ماہ پاکستان کو فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے اجلاس میں گرے زون میں ڈالا گیا۔ اس موقع پر یہ تاثر ابھرا کہ چین نے پاکستان کا ساتھ نہیں دیا، یعنی پاکستان کا نام دہشت گردوں کے سرپرست ممالک کی فہرست میں ڈالنے کے معاملے میں چین اور سعودی عرب نے پاکستان کا ساتھ نہیں دیاجس پر کافی تنقید کی جا رہی تھی لیکن ایسا نہیں ہے۔

چینی سفیرنے حقیقت بتاتے ہوئے کہا کہ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے اجلاس میں چین کا نہ بولنے کا مطلب یہ نہیں تھاکہ پاکستان کیخلاف ہوگئے ہیں بلکہ جب متعدد ممالک شریک ہوں توممالک کے بہت سے مفادات ہوتے ہیں۔

اسی طرح چین کا بھی کچھ مفاد تھا جسے نظرانداز نہیں کیا جاسکتا تھا یاد رکھنا چاہئے کہ چین کے پاس پاکستان کو ان مشکلات سے نکالنے کا منصوبہ موجود ہے ۔

یہ تاثر نہیں لیاجاناچاہیے کہ ہم نے پاکستان کا ساتھ چھوڑ دیا۔ یہ بات بالکل بے بنیاد ہے کہ ٹاسک فورس کے آخری سیشن سے قبل چین کو پاکستان کیخلاف کوئی ثبوت دکھائے گئے بلکہ وہ موقع ایسا تھا کہ چین کابولنا نہ بولنا برابرتھا۔


کشمیر کے حوالے سے چینی سفیر نے کہا کہ کشمیر سی پیک کیلئے نہیں بلکہ سینٹرل ایشیا کیلئے چیلنج ہے۔ روہنگیا مسلمانوں کا معاملہ میانمار اور بنگلہ دیش کے درمیان مسئلہ بنا ہوا ہے۔ چین انکے درمیان مسئلے کا حل چاہتا ہے۔

بنگلہ دیش اور میانمار کے درمیان سیکرٹریوں کی سطح پر مذاکرات ہو رہے ہیں۔ تاہم چین ان کے تناؤ کی بحث میں الجھنا نہیں چاہتا۔ چین کا ایک کوریڈور بھارت ، بنگلہ دیش اور میانمار سے بھی گزرتا ہے۔ یاؤجنگ کاکہناتھاکہ پاکستان چین کا روایتی دوست ہے ۔

یہ رشتہ 1950سے قائم ہے ۔ چین کی معیشت نے تیزی سے ترقی کی اور اب ہم چاہتے ہیں کہ اس کے ثمرات ہمسایہ ممالک تک بھی پہنچائے جائیں۔ بیلٹ اینڈ روڈ منصوبہ اسی وژن کا تسلسل ہے ۔

سی پیک کا تعلق پاکستان سے ہے اور اس کا مقصد بھی پاکستان کی معاشی ترقی ہے ۔ ہمارا خیال ہے کہ اگر پاکستان کی معیشت کم ازکم 4فیصد کی رفتار سے ترقی کرتی رہے تو چین سے آنیوالا قرضہ اس کی معیشت پر بوجھ نہیں بنے گا۔


چینی سفیرنے بتایاکہ سی پیک منصوبوں کی 4کیٹگریز ہیں۔ گوادر شہر میں انفراسٹرکچر کی تعمیر اور بندرگاہ کو کمرشل سطح پر کار آمد بنانا۔ توانائی سے متعلق تمام منصوبے۔ سڑکوں اور ہائی ویز کی تعمیر۔ سی پیک ماسٹرپلان کے تحت کاشغر سے گوادر تک پاکستان میں 20سپیشل اکنامک زونز بنائے جائیں گے۔

ان منصوبوں کا مقصد پاکستانی صنعتوں اور مینوفیکچرنگ کو انفراسٹرکچر فراہم کرنا ہے تاکہ وہ اپنے پیروں پرکھڑی ہوسکے اور دنیا سے مقابلہ کرسکے۔ ان منصوبوں کی تکمیل کے نتیجے میں پاکستان کی اقتصادی ترقی کی رفتار میں بے حد اضافہ ہوگاتاہم یہ بھی ضروری ہے کہ منصوبے وقت پر مکمل کیے جائیں۔ 2030ء تک سی پیک کے تمام 43منصوبے تقریباً مکمل ہوجائیں گے۔


ایک سوال کے جواب میں ان کاکہناتھاکہ 2018ء کے انتخابات کا سی پیک پر بالکل بھی اثر نہیں پڑے گاکیونکہ میں نے تمام سیاسی جماعتوں کے سربراہان اور نمائندوں سے ملاقاتیں کی ہیں۔

سی پیک اور چین کے معاملے پر تمام جماعتیں متفق ہیں۔ تمام سیاستدان سی پیک اور پاکستان میں تعلقات کے حوالے سے پْرجوش ہیں۔ اس حوالے سے ہمیں کوئی فکر نہیں ہے۔

سی پیک کیخلاف پراپیگنڈا کا مقابلہ کرنا اور اپنی کامیابیوں کا اعتراف کروانا اب ہمارے لیے نیا چیلنج ہے اور اس دور میں میڈیا بے حد اہمیت اختیار کرچکا ہے۔


یہ حقیقت ہے کہ سی پیک منصوبے موجودہ اور آنے والی نسلوں کیلئے چین کا تحفہ ہیں۔ منصوبے سے وسط ایشیائی ممالک سے روابط ہوں گے۔ گوادر منصوبے سے بلوچستان ترقی کرے گا اور روزگار کے مواقع بڑھیں گے۔

دونوں ملکوں کے انجینئرز کی کوششوں سے گوادر اور سی پیک حقیقت میں بدل رہے۔چین نے پاکستان کو پائیدار توانائی کے منصوبے دیئے ۔

ریلوے کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کیلئے اپ گریڈ کیا جا رہا ہے۔ سڑکوں کا جال بچھایا جا رہا ہے۔ منصوبوں میں ماحولیاتی آلودگی کے خاتمے کا خیال رکھا جارہا

مزید :

رائے -کالم -