عمران زرداری بھائی بھائی تو پھر شامت کس کی آئی؟

عمران زرداری بھائی بھائی تو پھر شامت کس کی آئی؟
عمران زرداری بھائی بھائی تو پھر شامت کس کی آئی؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

اِدھر نواز شریف نے عمران زرداری بھائی بھائی کا نیا نعرہ دیا ہے تو اُدھر عمران خان نے آصف علی زرداری کے خلاف مہم تیز کردی ہے۔ پہلے وہ کہتے تھے، نواز زرداری بھائی بھائی ہیں، اب پلڑا دوسری طرف چلا گیا ہے۔ آصف علی زرداری کی اس سے زیادہ اہمیت اور کیا ہوسکتی ہے، اُن کے بھائی بدل جاتے ہیں، وہ نہیں بدلتے۔

کیا آصف علی زرداری کوئی ایسی برائی ہیں کہ جو اُن کے ساتھ جڑے الزامات کی زد میں آجاتا ہے۔ مجھے تو لگتا ہے نواز شریف نفرت کی وجہ سے نہیں محبت کی وجہ سے آصف علی زرداری کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں، کیونکہ انہوں نے مشکل وقت میں اُن کا ساتھ نہیں دیا، اُلٹا اُن کے مخالفوں سے جاملے۔ آصف علی زرداری تو کسی سے بھی ملیں، اُن کا کچھ نہیں بگڑتا، البتہ جو ملتا ہے، اُسے سوسو وضاحتیں دینا پڑتی ہیں۔

اب یہی دیکھئے کہ سینٹ انتخابات میں اتحاد کرکے تحریک انصاف نے مسلم لیگ (ن) کا چیئرمین تو نہیں بننے دیا، مگر اس کامیابی کی اُسے بھاری قیمت چکانا پڑرہی ہے۔

عمران خان وضاحتیں کررہے ہیں کہ جس دن انہوں نے آصف علی زرداری سے ہاتھ ملایا، وہ اُن کی سیاست کا آخری دن ہوگا، اُن کا بیانیہ ہے کہ نواز شریف اور آصف علی زرداری دونوں نے ملک کو لوٹا ہے، اُن کے ساتھ کبھی کوئی اتحاد ہو ہی نہیں سکتا۔ لیکن جو کچھ ہوچکا ہے، اُس کی گرو ہے کہ بیٹھ نہیں رہی اور نواز شریف و مریم نواز نے پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کے گٹھ جوڑ کو جمہوریت کے خلاف سازش قرار دے دیا ہے، اب اگر عمران خان کے مخالفین یہ کہتے ہیں کہ اصول تو اصول ہوتا ہے، اُسے نظریہ ضرورت کے تحت پسِ پشت نہیں ڈالا جاسکتا تو کچھ غلط بھی نہیں کہتے، اگر یہ استدلال درست مان لیا جائے، چیئرمین سینٹ بننے سے روکنے کے لئے مسلم لیگ (ن) کے خلاف پیپلز پارٹی سے اتحاد کیا گیا تو کیا عام انتخابات میں بھی مسلم لیگ (ن) کا راستہ روکنے کے لئے ایسا ہی اتحاد کیا جائے گا تو پھر آصف عمران بھائی بھائی کے نعرے کو کیونکر روکا جاسکے گا۔


سیاست کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اُس میں کوئی بات بھی حتمی نہیں ہوتی۔ تبدیلیاں آتی رہتی ہیں اور حالات بدلتے رہتے ہیں، اگر کوئی سیاستدان اپنا بیانیہ اس حد تک اوپر لے جاتا ہے کہ نیچے لانے پر اُس کی شخصیت داؤ پر لگ جائے تو یہ اس کی ناکامی ہے۔ عمران خان نے سیاسی حوالے سے بہت سخت موقف اختیار کررکھا ہے۔

وہ نواز شریف کے تو سیاسی دشمن ہیں تاہم آصف علی زرداری کو بھی نشانے پر رکھے ہوئے ہیں، انہوں نے آصف علی زرداری کو اتنی بار چور اور ڈاکو کہا ہے کہ اب کوئی اچھا کلمہ کہتے ہوئے اُن کی زبان لڑکھڑا سکتی ہے۔

سینٹ چیئرمین کا انتخاب بہت سی ایسی باتوں کو طشت ازبام کرگیا ہے جو سیاست کی مجبوریوں کا پردہ چاک کرتی ہیں، عمران خان سے پہلی غلطی یہ ہوئی کہ وہ بلوچستان گئے اور وزیر اعلیٰ عبدالقدوس بزنجو کو غیر مشروط طور پر اپنی بارہ سینٹ نشستیں سونپ دیں کہ وہ جیسے چاہیں انہیں استعمال کرسکتے ہیں، پھر جب عمران خان پر تنقید ہوئی کہ انہوں نے بلوچستان کے راستے آصف علی زرداری سے ہاتھ ملا لیا ہے اوراپنی سیٹیں ان کی جھولی میں ڈال دی ہیں تو وہ اپنے موقف سے ہٹ گئے اور کہا کہ بارہ نشستیں اس شرط پر بلوچستان کے وزیر اعلیٰ کو دی گئی ہیں، چیئرمین سینٹ بلوچستان سے ہوگا۔

پھر اُس صادق سنجرانی کے نام پر اتفاق ہوا، جس کے بارے میں نواز شریف کہتے کہ آصف علی زرداری اور عمران خان کو اس کے گھر کا پتہ کس نے بتایا۔ یہی وہ بے احتیاطی سے کھیلی گئی اننگ ہے جس کی وجہ سے کپتان کو اب زرداری سے علیحدگی کا تاثر دینے کے لئے بہت محنت کرنا پڑ رہی ہے، بات اگر اس شکل میں ہوتی کہ آصف علی زرداری مسلم لیگ (ن) کو بوقت ضرورت بطور اتحادی درکار ہو سکتا ہے تو پی ٹی آئی کو کیوں نہیں۔ نوازشریف اور آصف علی زرداری اگر ماضی میں ایک ہی جگہ بیٹھ کر ایک دوسرے کو بھائی بھائی کہہ سکتے ہیں تو عمران زرداری بھائی بھائی کیوں نہیں بن سکتے، مگر عمران خان چونکہ اپنی پوری سیاست کی بنیاد ہی اس نکتے پر رکھ چکے ہیں کہ دونوں ملک لوٹنے والے ہیں اور نواز شریف آصف علی زرداری گٹھ جوڑ مسلمہ ہے تاکہ باریاں لے کر ملک میں لوٹ مار کر سکیں۔ اس لئے وہ ذرا سا بھی اس مؤقف سے ہٹتے ہیں تو ان کی سیاست کا تاج محل زمین بوس ہو جائے گا۔

یہی وجہ ہے کہ نوازشریف اور مریم نواز عمران زرداری بھائی بھائی کا نعرہ لگا کر جہاں دکھتی رگ پر پاؤں رکھ رہے ہیں، وہیں عمران خان کو حد درجہ محنت کرنی پڑ رہی ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ آصف علی زرداری پر تنقید کریں تاکہ یہ تاثر غلط ثابت ہو سکے کہ دونوں نے نوازشریف کے خلاف ہاتھ ملا لیا ہے۔


ان کا حالیہ دورۂ کراچی اسی بات کی وضاحت میں صرف ہوا کہ آصف علی زرداری کی وکٹ نوازشریف کے ساتھ گرانی ہے، انہوں نے نوازشریف اور شہباز شریف کا تذکرہ بہت کم اور آصف علی زرداری و بلاول بھٹو زرداری کا ذکر بار بار کیا۔ ان کی سیاست کا بنیادی نکتہ ہی یہ ہے کہ نوازشریف اور آصف علی زرداری میں قومی خزانہ لوٹنے کے حوالے سے کوئی فرق نہیں، نوازشریف کا ذکر خیر تو وہ ہمیشہ کرتے رہتے ہیں، لیکن آصف علی زرداری اب ان کی زبان پر زیادہ چڑھ گئے ہیں ،کیونکہ نوازشریف کی طرف سے یہ طعنہ تو دیا جا رہا ہے کہ ایک اشارے پر وہ آصف علی زرداری سے جا ملے اور ایک ہی قوت کے حکم پر سجدہ ریز ہو گئے ،دلچسپ بات یہ ہے کہ پیپلزپارٹی اتنی وضاحتیں نہیں کر رہی جتنی تحریکِ انصاف کر رہی ہے۔

پیپلزپارٹی کے لئے تو یہ بڑا اچھا موقع ہے کہ وہ آصف علی زرداری کے خلاف عمران خان کے اس موقف کو نقصان پہنچائے، جس میں نواز شریف کی طرح آصف علی زرداری کو بھی دولت لوٹ کر باہر لے جانے کا الزام دیتے ہیں، اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے تو یہ تک کہہ دیا ہے کہ 2018ء کے انتخابات میں تحریک انصاف سے اتحاد خارج از امکان نہیں۔

گویا دونوں طرف سے عمران خان کے گرد گھیرا تنگ کیا جا رہا ہے تاکہ یہ ثابت کیا جا سکے کہ کپتان جو دعوے کرتا ہے، ان میں دور دور تک کوئی حقیقت نہیں ضرورت پڑنے پر عمران خان اپنے اصولی مؤقف کو خیر باد کہنے میں دیر نہیں لگاتے۔


یہ سیاسی پولرائزیشن کی انتہا ہے کہ اب کسی کے ساتھ کھڑے ہونا بھی سیاسی نقصان کے زمرے میں آتا ہے، سیاست میں بات بھی کرنی پڑتی ہے اور ضرورت پڑے تو لچک بھی دکھانی پڑتی ہے، مگر یہاں کسی سیاستدان کی اپنے حریف سے سر راہ ملاقات بھی ہو جائے تو بات کا بتنگڑ بن جاتا ہے، سینٹ انتخابات اور بعد ازاں چیئرمین و ڈپٹی چیئرمین سینٹ کے انتخاب میں کیا کچھ نہیں ہوا، اگر کوئی سخت مؤقف کے ساتھ اس عمل میں موجود ہوتا تو اسے جوتے پڑ جاتے۔

عمران خان کو اس دوران کئی جگہوں پر مصلحت سے کام لینا پڑا۔ وہ خیبر پختونخوا اسمبلی میں ووٹوں کی خرید و فروخت نہ رکوا سکے اور مسلم لیگ (ن)کو چیئرمین سینٹ کے عہدے سے محروم کرنے کے لئے یوٹرن بھی لینے پڑے، ٹی وی پر آکر یہ اعلان بھی کرنا پڑا کہ تحریک انصاف نے پیپلزپارٹی کے ڈپٹی چیئرمین سلیم مانڈوی والا کو ووٹ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔

سوال یہ ہے کہ کیا معاہدے میں یہ شرط بھی رکھی گئی تھی کہ عمران خان خود اس بات کا اعلان کریں گے کہ ڈپٹی چیئرمین کے لئے پیپلزپارٹی کے امیدوار کو ووٹ دیا جائے گا۔ دوسری طرف قابل غور نکتہ یہ ہے کہ آصف زرداری نے خود آکر ایسا کوئی اعلان نہیں کیا۔

بلاول بھٹو زرداری نے میڈیا کے سامنے یہ اعلان تو ضرور کیا کہ پیپلزپارٹی نے صادق سنجرانی کو چیئرمین سینٹ اور سلیم مانڈوی والا کو ڈپٹی چیئرمین سینٹ کے لئے نامزد کر دیا ہے، مگر یہ نہیں کہا کہ تحریک انصاف نے بھی حمایت کا اعلان کیا ہے، یہ سب کچھ عمران خان پر چھوڑ دیا گیا کہ وہ پیپلزپارٹی کے امیدوار کو ووٹ دینے کا اعلان کریں۔

جب خان صاحب اس طرح کھل کر سامنے آ گئے تو نوازشریف کے لئے کیا مشکل تھی کہ وہ عمران خان کی اصولی سیاست کے دعوے کو نشانے پر رکھ کر کہیں کہ اقتدار کے لئے وہ کچھ بھی کر سکتے ہیں۔


میں نے چند روز پہلے بھی اپنے کالم میں لکھا تھاکہ عمران خان کو اب ہر قدم پھونک پھونک کر اٹھانا پڑے گا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کی مقبولیت اور ملک کی تیسری بڑی سیاسی طاقت بننے کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے نوازشریف اور آصف زرداری دونوں کے خلاف یکساں مہم چلائی ہے۔ وہ تیسری قوت بن بھی تبھی سکتے تھے جب ووٹوں کے خلاف سیاسی بیانیہ اختیار کریں۔

اب عام انتخابات کے نزدیک آنے سے ایسے بہت سے مقامات آئیں گے جب ان کے ساتھی انہیں وقتی مصلحتوں کے تحت فیصلے کرنے کی ترغیب دیں گے۔

وہ جس طرح کھلے بازوؤں کے ساتھ مسلم لیگ (ن) چھوڑ کر آنے والوں کا استقبال کر رہے ہیں، اس پر بھی انہیں تھوڑی نظرثانی کرنی چاہیے۔ اس سے ایک تو یہ تاثر پھیل رہا ہے کہ جس جماعت کے سربراہ کو وہ لوٹ مار کے طعنے دیتے رہے ہیں، اس کے منحرفین کو تحریک انصاف میں شامل کر رہے ہیں۔

دوسری خرابی یہ ہے کہ ایسے لوگوں کے آنے سے پارٹی کے وہ رہنما اور امیدوار جو سال ہا سال سے پارٹی کی خدمت کررہے ہیں، اس خوف میں مبتلا ہیں کہ ان کی جگہ فصلی بٹیروں کو ٹکٹیں دے دی جائیں گی، جن کے لئے ووٹرز کو گھروں سے نکالنا مشکل ہو جائے گا۔

دیکھنا یہ ہے کہ عمران زرداری بھائی بھائی کے نعرے کی شکل میں جو نئی بلا کپتان کے گلے پڑی ہے، وہ اس کا توڑ کیا کرتے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) اسے استعمال کرکے پنجاب میں تحریک انصاف کے ووٹ بنک کو خراب کر سکتی ہے، کیونکہ میاں صاحب کے بیانیے میں جس سازشی تھیوری کا حوالہ آتا ہے، وہ عمران زرداری بھائی بھائی کے نعرے سے نئی جان پکڑ سکتی ہے۔

مزید :

رائے -کالم -